ہماری حکومتوں کے تین المئے ہیں‘ پہلا المیہ گا‘ گے‘ گی ہے‘ آپ کسی بھی حکومت کے کسی بھی عہدیدار سے بات کر لیجئے‘ اس کا ہر فقرہ گا‘گے اور گی پر ختم ہو گا‘ ہم یہ کر دیں گے‘ یہ ہو جائے گااور حکومت یہ کرے گی وغیرہ وغیرہ‘ ملک میں آج تک کوئی حکومت ایسی نہیں آئی جس نے یہ کہا ہو ہم نے یہ کر دیایا یہ ہو گیا چنانچہ آپ اگر ملک کو واقعی تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو آپ سرکار میں گا‘
گے اور گی پر پابندی لگا دیں اور حکومت صرف ہو گیا کہہ سکے‘ دو‘ ہماری ہر حکومت کی ترقی صرف تقریروں‘ کاغذوں اور دعوؤں میں پر مشتمل ہے‘ یہ سڑک‘ گلی اور گھر تک نہیں پہنچ پاتی اور تین ہماری حکومتیں ہر دو تین ماہ بعد بھوکے کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تم بھوکے نہیں ہو‘ تمہارا پیٹ بھر چکا ہے اور بھوکا حیرت سے کہتا ہے اچھا میرا پیٹ بھر چکا ہے‘ میرا خیال ہے حکومتیں جتنا زور بھوکے کو سمجھانے پر لگاتی ہیں یہ اگر اس سے آدھا وقت مسئلہ حل کرنے پر لگا دیں تو ملک میں واقعی کوئی بھوکا نہ رہے‘یہ تینوں المئے جب تک موجود ہیں یہ ملک اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکے گا‘ آج حکومت نے سو دنوں کی کامیابی کا جشن منایا‘ ہو سکتا ہے حکومت کے تمام دعوے واقعی سچے ہوں لیکن پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے‘ حسن وہ ہوتا ہے جس کا اعتراف سوکن بھی کرے‘ آپ جس دن کامیاب ہو جائیں گے اس دن آپ کو کامیابی کا جشن منانا نہیں پڑے گا اس دن پورا ملک خود جشن منائے گا اور آپ جب تک کامیاب نہیں ہوتے اس وقت تک آپ خواہ سو جشن منا لیں لوگ مطمئن نہیں ہوں گے۔ ہم وزیراعظم کی تقریر کی طرف آتے ہیں ،حکومت کا دعویٰ ہے ہم نے ڈائریکشن طے کر دی ہے‘ یہ دعویٰ کس قدر درست ہے‘ وزیراعظم پر امید بھی ہیں اور یہ سو دنوں بعد بھی بیک فٹ پر نہیں ہیں‘ یہ ایگریسو ہیں‘ کیا یہ امید‘ یہ ایگریشن حقیقی ہے یا پھر مصنوعی‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔