اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اہل پاکستان کیلئے یہ قابل عزت و وقار امر ہے کہ دنیا کے تین بڑے مذاہب بدھ، ہندو اور سکھوں کے مذہبی مقامات پاکستان میں ہیں۔ ٹیکسلا بدھ ازم کی گندھارا تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ چکوال کے قریب کٹاس راج ہندوئوں کا نہایت مذہبی مقام ہے جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے جبکہ حسن ابدال، ننکانہ صاحب اور کرتارپور سکھوں کے مقدس مقامات کی وجہ سے دنیا بھر میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے مطابق دریائے راوی کے کنارے نارووال سٹی سے 10کلو میٹر کے فاصلے پر سکھوں کا مقدس مقام گوردوارہ دربار صاحب 28 نومبر سے سکھ یاتریوں کے لئے کھولا جارہا ہے۔ کرتارپور سے بھارت کی زیرو لائن 4/3 کلو میٹر دور ہے۔ تقسیم سے قبل تحصیل ناررووال اور تحصیل شکر گڑھ بھارت کے ضلع گورداسپور کا حصہ تھیں۔ تقسیم کے بعد انہیں سیالکوٹ میں شامل کر دیا گیا اور1991 میں نارووال اور شکر گڑھ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ سکھ یاتریوں کا یہ ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ انہیں ڈیرہ بابا نانک سے کرتارپور کے گوردوارہ کی زیارت تک رسائی کی سہولت فراہم کی جائے۔ پاکستان نے ماضی میں اس ضمن میں بھارت سے کئی رابطے کئے لیکن بھارت کی طرف سے مثبت پیشرفت نہ ہوسکی۔ اب جبکہ آئندہ برس بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں مودی حکومت نے سکھ کمیونٹی کی حمایت کے لئے کرتار پور بارڈر کھولنے پر آمادگی ظاہر کی۔پروگرام کے مطابق وزیراعظم عمران خان 28 نومبر کو پاکستان کی جانب سے اس کوریڈور کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ دریائے راوی کے دونوں اطراف میں سکھوں کے مذہبی مقامات موجود ہیں۔اگلے سال بابا گورونانک کی 550 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے ۔ پاکستان نے اس مقدس مقام تک سہولت کے لئے بھارت کو کرتارپور بارڈر کھولنے کی تجویز پیش کی تھی ۔
اس وقت سکھ یاتر یوں کو باباگورو نانک کے کرتارپور گوردوارہ کی یاترا کےلئے پاکستان کے ویزے کے ساتھ واہگہ کے راستے لاہور اور لاہور سے بدو ملہی کے راستے کرتارپور جانا پڑتا ہے۔ بارڈر اوپن کرنے اور کوریڈور کی تعمیر سے سکھ یاتریوں کو اپنے مقدس مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لئے صرف چھ کلو میٹر راوی پار کا راستہ طے کرنا ہوگا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کرتارپور کوریڈور کی تعمیر کے لئے دونوں ملکوں میں بات چیت کا آغاز 1998 میں نوازشریف اور واجپائی حکومتوں نے کیا تھا اور 1999 میں جب واجپائی دوستی بس لے کر لاہور پہنچے تھے اس وقت بھی اس معاملے پر بات ہوئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس تجویز کی حمایت کرتی رہی ہے،5-2004 میں مشرف دور میں جب پاک بھارت جامع مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا تو دونوں ملکوں نے سندھ میں کھوکھرا پار، مونا بائو ریلوے لائن اور امرتسر ، لاہور، کرتارپور سڑک کھولنے پر اتفاق کیا تھا لیکن کشیدہ تعلقات اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ن لیگ حکومت میں وزیر داخلہ احسن اقبال نے کرتارپور گوردوارہ تک سکھ یاتریوں کی رسائی کے لئے کافی کام کیا تھا ،تاہم مئی 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری تقریب میں بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے مطالبے پر آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے بتایا تھا کہ وہ کرتارپور اور ڈیرہ بابا نانک کے درمیان سکھ یاتریوں کے لئے کوریڈور بنانے حق میں ہیں۔
جس سے سکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان کے اس اقدام کا بنیادی مقصد دونوں ملکوں میں کشیدگی میں کمی لانا ہے۔ دونوں ملک فی الوقت اس کوریڈور کو صرف سکھوں کے مذہبی مقاصد کے لئے استعمال کریں گے۔ اس کے لئے دونوں اطراف فینس( آہنی جنگلہ) لگےگا۔ پاکستان کی جانب سے ایف ڈبلیو او کو کرتارپور مذہبی کوریڈور کی تعمیر کا کام دیاگیا ہے جس پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ حکومت پاکستان کرتارپور کوریڈور کی تعمیر کے لئے ماسٹر پلان تیار کررہی ہے اور اگلے سال نومبر تک باباگورو نانک کے 550 ویں جنم دن تک یہ کوریڈور مکمل ہوجائے گا۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ 28 نومبر سے جب وزیراعظم کرتارپور کوریڈور کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔
پاک بھارت تعلقات میں نئی تاریخ بننے کے امکانات روشن ہورہے ہیں۔ اس وقت پاکستان اور بھارت میں صرف دو مقامات کراچی بندرگاہ اور واہگہ اٹاری راستے سے تجارت ہورہی ہے۔ پاکستان کی تجویز ہے کہ سندھ میں کھوکھرا پار، مونا یائو اور پنجاب میں ہیڈ سلیمانکی کے قدیمی راہداری کو بھی سفری اورتجارتی مقاصد کے لئے اوپن ہونا چاہیے۔2008 میں راولا کوٹ پونچھ، چکوٹھی، سر ینگر کے درمیان محدود تجارتی اور سفری راہداری کھولی گئی تھی لیکن یہ راہداری بھی سکیورٹی حالات کی نذر ہوگئی۔
اگر انٹرا کشمیر تجارتی و سفری راہداری قابل عمل رہتی تو جموں اور سیالکوٹ کے مابین بھی تجارتی راستے بحال ہوسکتے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ اورحالات بہتری کی صورت میں کرتارپور، ڈیرہ بابانانک کوریڈور کی تعمیر سے امرتسرجموں کے پرانے تجارتی راستے کو بھی قابل عمل بنایا جاسکے گا۔ زائرین کی آمدورفت بلا تعطل قائم رکھنے کے لئے کرتارپور دریائے راوی پر تقریباً چار کلو میٹر لمبا پل تعمیر کرنے کی ضرورت ہوگی جسے 1965 کی جنگ میں اڑا دیا گیا تھا۔
پاکستان کی زمینی سرحد کل6774 کلومیٹر لمبی ہے، سٹرٹیجک اہمیت کے حامل اس بارڈر کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی لکیر کو 17 اگست 1947 کو حتمی قرار دے کر پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل بین الاقوامی سرحد بنادیا گیا۔ ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین انتہائی اہمیت کی حامل یہ سرحد 2240 کلو میٹر لمبی ہے جس میں ورکنگ باونڈری بھی شامل ہے۔740 کلو میٹر لمبی لائن آف کنٹرول اس کے علاوہ ہے، جنوب مشرق سے شروع کریں تو یہاں بھارتی گجرات کی سرحد، سندھ کے ضلع ٹھٹھہ، بدین اور تھرپار کر سےملتی ہے۔
اس کے بعدبھارتی راجستھان کی سرحد شروع ہوتی ہے جو ضلع تھر پارکر، عمر کوٹ، سانگھڑ، خیرپور، گھوٹکی(سندھ) رحیم یار خان، بہاولپور اور بہاولنگر(پنجاب) تک جاتی ہے جبکہ بھارتی پنجاب کا بارڈر اوکاڑہ، قصور، لاہور اور نارروال کے اضلاع کے ساتھ لگتا ہے۔اس کے بعد ورکنگ بائونڈری شروع ہوجاتی ہے جس کے ایک طرف تو پاکستان کی بین الاقوامی سرحد( جہاں نارووال اور سیالکوٹ کے ضلعے ہیں) واقع ہے جبکہ دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازعہ ریاست ہے۔
اس سے آگے’’ لائن آف کنٹرول‘‘ ہے جس کے دونوں جانب جموں و کشمیر کی آزاد اور مقبوضہ ریاستیں ہیں اور یہ پاکستان اور بھارت کے بیچ’’عارضی‘‘ سرحد ہے ۔ دنیا کے خطرناک ترین اس بارڈر پر تین مقامات ایسے ہیں جہاں بارڈر کراسنگز بنائی گئی ہیں جس میں سب سےمشہور واہگہ، اٹاری بارڈر ہے۔ واہگہ پاکستان کی جانب لاہور کا ایک قصبہ ہے جبکہ اٹاری بھارتی شہر امرتسر کا حصہ ہے جو لاہور سے دہلی جانے والی ریلوے لائن پر بھارت کا پہلا شہر ہے۔
واہگہ ہندوستان اور پاکستان کےدرمیان سب سے مشہور اور مصروف گزرگاہ ہے جہاں ہر شام جھنڈا اتارنے کی تقریب ہزاروں لوگوں کا خون گرماتی ہے۔کرتار پور میں واقع دربار صاحب گوردوارہ کا انڈین سرحد سے فاصلہ چند کلومیٹر کا ہی ہے اور نارووال ضلع کی حدود میں واقع اس گرودوارے تک پہنچنے میں لاہور سے 130 کلومیٹر اور تقریباً تین گھنٹے ہی لگتے ہیں۔یہ گرودوارہ ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے۔
یہاں سے انڈیا کے ڈیرہ صاحب ریلوے سٹیشن کا فاصلہ تقریباً چار کلومیٹر ہے۔کرتار پور بارڈر کھلنے سے قادیان کا راستہ صرف ڈیڑھ گھنٹے رہ جائے گا۔راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی انڈین سرحد ہے۔ گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقام ہے۔ پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس یہ سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ہے۔کرتارپور کا گرودوارہ سکھوں کے لئے اس لئے انتہائی مقدس مقام ہے۔
یہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو کی رہائش گاہ اور جائے وفات ہے۔گرو نانک نے اپنی 70 برس اور چار ماہ کی زندگی میں دنیا بھر کا سفر کیا اور کرتارپور میں انھوں نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے جو کسی بھی جگہ ان کے قیام کا سب سے لمبا عرصہ ہے۔یہیں گرودوارے میں ان کی ایک سمادھی اور قبر بھی ہے جو سکھوں کے لئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔
انڈیا میں مقیم دربار صاحب کرتارپور کے درشن کے خواہش مند افراد اب بھی اس کو دیکھ ضرور سکتے ہیں مگر چار کلومیٹر دور سرحد کے اُس پار سے۔انڈین بارڈر سکیورٹی فورس نے ایسے دیدار کے خواہش مندوں کے لیے سرحد پر ایک ʼدرشن استھل قائم کر رکھا ہے جہاں سے وہ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کرتے ہیں۔1947 میں بٹوارے کے وقت گردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث ایک لمبے عرصے تک یہ گردوارہ بند رہا۔
جب تقریباً اٹھارہ برس قبل کھلا تو بھی انڈیا میں بسنے والے سکھ برادری کے تقریباً دو کروڑ افراد کو یہاں آنے کا ویزہ نہیں ملتا تھا۔معاہدے کے تحت ہر سال بابا گرو نانک کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب کی زیارت پر پاکستان آنے والے چند سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ حال ہی میں ملنا شروع ہوا، تاہم ان کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں رہی۔ کرتارپور سرحد کھولنے کے امکانات کے حوالے سے حال میں پاکستان میں انڈیا کے سفیر نے کرتارپور کا دورہ بھی کیاجبکہ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ایک انٹرویو میں کہاتھاکہ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سکھوں کو کرتارپور تک رسائی دینے کے لیے ایک ویزہ فری کاریڈور تعمیر کیا جائے۔
یعنی سکھ یاتری صرف دربار صاحب تک آ پائیں گے اور انھیں اس کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ پاکستان اور انڈیا کی حکومتیں اس پر راضی ہوتی ہیں یا نہیں اور اس میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے تاہم اگر ایسا ہو بھی جائے تو زائرین کے سفر کو ممکن بنانے کے لیے درکار سہولتوں کی تعمیر پر وقت ضرور لگے گا۔ کرتار پور، ڈیرہ بابا نانک راہداری کے حوالے سے امید کی جارہی ہے کہ اب ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر سکھوں کے دیرینہ مطالبے کی بار آوری کے ساتھ دونوں ملکوں میں شکوک و شبہات اور پھیلی بد گمانیاں دور کرنے کے لئے مثبت پیشرفت کا آغاز ہوگا۔