اسلام آباد(سی پی پی)چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا ہے کہ نئے عدالتی سال میں ہمیں اہداف بلندرکھنے ہیں،پاکستان قائداعظم کے وژن سے ہٹ گیاہے،ہمیں فراہمی انصاف کیلئے نظام کی خرابیوں کودورکرناہوگا اورہمیں قانون کی حکمرانی اورشفافیت کویقینی بناناہے،سپریم کورٹ کا کام ڈیمز کی تعمیر پر حکومتی توجہ دلانا تھا، عوام کے پر جوش ردعمل پر شکر گزار ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال شروع ہونے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔تقریب میں جسٹس صاحبان ،اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز نے بھی شرکت کی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کاکام ڈیمزکی تعمیرپرحکومتی توجہ دلاناتھا، عوام کے پرجوش ردعمل پرشکرگزارہیں، سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرتی ہے،گذشتہ سال کئی قومی اور انسانی نوعیت کے مقدمات سنے گئے، ہم نے37 ہزارزیرالتوامقدمات میں سے 19 ہزارکے فیصلے کردیئے ہیں ،یہ شرح گزشتہ پانچ سال میں سب سے زیادہ ہے، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی عدالت کے بوجھ میں بے حد اضافہ کرتی ہے، زیر التوا مقدمات نمٹانے میں التوا اور تاخیری حربے بھی رکاوٹ ہیں اور فراہمی انصاف کیلئے زہر قاتل ہیں اور نئے عدالتی سال میں ہمیں اہداف بلندرکھنے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان قائداعظم کے وژن سے ہٹ گیاہے اور معاشرے میں ناانصافی اوربری حکمرانی قائم ہے،ہمیں فراہمی انصاف کیلئے نظام کی خرابیوں کودورکرناہوگا اورقانون کی حکمرانی اورشفافیت کویقینی بناناہے۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کا کام ڈیمز کی تعمیر پر حکومتی توجہ دلانا تھا، عوام کے پر جوش ردعمل پر شکر گزار ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میڈیا کو تنقید کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی تنقید کی اجازت نہیں جو ججز کی توہین کے مترادف ہو ۔
جب کہ وکلا کی زیر التوا مقدمات پر بیان بازی بھی درست عمل نہیں، آرٹیکل 184/3 کے تحت حاصل اختیارات کے استعمال کے معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ سال 36 ہزار 501 مقدمات دائر ہوئے جن میں سے 28 ہزار 970 نمٹائے گئے، فراہمی انصاف میں پاکستان 113 میں سے 106 ویں نمبر پر ہے، عدلیہ کو اپنی آزادی ہر قیمت پر برقرار رکھنی چاہیے ، انصاف ہونا چاہیے چاہے آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے۔صدر سپریم کورٹ بار کلیم خورشید نے کہا کہ ریاست مافیا سے عوام کو بچانے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے، پاکستانیوں کے پانچ ارب ڈالر 1992 سے نجی بنکوں میں پڑے ہیں، بنکوں اور سٹیٹ بنک کے گٹھ جوڑ سے عوام کو فائدہ نہیں ہونے دیا جا رہا۔