اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف و سینئر صحافی ہارون الرشید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ کچھ چیزیں وقت آدمی کو سمجھاتا ہے اور کچھ وقت بھی نہیں سمجھا سکتا۔ کچھ حقائق تب ادراک میں آتے ہیں‘جب انسان منہ کے بل گر پڑے۔ کچھ مسائل حکومت کو در پیش ہیں، کچھ وہ خود پیدا کرتی ہے۔ اس طرز احساس کے طفیل، جس نے جدوجہد کے برسوں میں جنم لیا۔ تما م حسیات ایک ہی نکتے پہ مرکوز تھیں: کس طرح حکومت کو اکھاڑ پھینکا جائے۔
کشمکش کے مہ و سال میں بارہا عمران خاں اوراس کے ساتھیوں سے عرض کیا کہ وہ حکومت کی تیاری کریں۔ پی آئی اے کا کیا ہو گا؟ ریلوے کس طرح چلائی جائے گی؟ سٹیل مل سرکاری انتظام میں رہے گی یا اس کی نجکاری ہو گی؟ سول سروس میں کون سی تبدیلیاں درکار ہیں؟ زراعت کی جدید تشکیل کس طرح ہو گی؟ بارہا وہ منظر یاد آیا جب بہار کے اساطیری وزیراعلیٰ نتیش کمار کپتان اور اس کے ساتھیوں کو بتا رہے تھے کہ انہوں نے جرائم پر کس طرح قابو پایا۔ کرپشن کس طرح محدود کی۔ پولیس کی اصلاح کیونکر ممکن ہوئی اور عدالتوں کا تعاون کس طرح جیتا گیا۔ بات اگر توجہ سے سنی ہوتی تو پختون خوا میں کامیابی غیر معمولی ہوتی۔ 2018ء کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت سے وہ کامیاب رہتے۔ تیاری کی ہوتی تو آج شش و پنج میں نہ ہوتے۔ کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ قادیانی امیر کے قریبی ساتھی کو کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ یہ اپنے معاشرے کی ساخت اور مزاج سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ مغرب سے مرعوب لبرل طبقات کی بات دوسری ہے، رائے عامہ کی عظیم اکثریت قادیانیوں کو اجنبی پاتی ہے۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بہت تیزی سے حقیقت کا ادراک کر لیا تھا۔ اسی لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے میں رتّی برابر تامّل کا وہ شکار نہ ہوئے۔ بعد میں بھی اپنے فیصلے پر کبھی انہیں پچھتاوا نہ ہوا۔ نصف صدی ہوتی ہے، قاہرہ جانے والا ایک پاکستانی لوٹا تو یہ واقعہ اپنے دوستوں کو سنایا۔ لمبی داڑھی والا آدمی‘ وضو کررہا تھا کہ ساتھ بیٹھے ایک مصری نے کہا: تمہیں شرم نہیں آتی کہ اتنی لمبی داڑھی رکھ چھوڑی ہے۔
وہ کچھ حیران ساہوا تب اسے بتایا گیا کہ اس سر زمین میں یہودیوں کا یہ شعار ہے۔دنیا بدلتی رہتی ہے اور انسانوں کے انداز و اطوار بھی۔ دانا وہ ہیں جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ انسان کیا ہے،زندگی کیا ہے، کائنات کیا ہے اور اس کا خالق کون ہے۔ سیاست کی دنیا میں ہوش مند وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے معاشرے کے مزاج اور موڈ کو سمجھتے ہوں۔ دیانت ایک بہت اہم چیز ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مقابلے میں عمران خان یقیناً زیادہ ایمان دار ہیں،
لیکن اپنے سماج کا وہ کچھ زیادہ ادراک نہیں رکھتے۔ عمران خان کے اکثر ساتھیوں کا حال بھی یہی ہے۔ چار عشروں سے قادیانی جماعت اس آئینی ترمیم کوختم کرنے کی کوشش میں لگی ہے، جس کے تحت انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا۔ آسٹریلیا، جرمنی، فرانس، امریکہ اور برطانیہ میں جہاں کہیں پاکستانی آباد ہیں، قادیانی انہیں قائل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جتنے دلائل وہ پیش کرتے ہیں، پچھلے تین چار دن میں وہ سب کے سب سوشل میڈیا پہ دہرا دیئے گئے۔
بنیادی طور پر غیر مسلموں سے حسن سلوک کے واقعات۔ دور اوّل میں اس نرم روی، انس اور محبت کی حکایات، جو اللہ کے آخری رسولﷺ، اہل بیتؓ اور خلفائے راشدینؓ روا رکھتے تھے۔ ہماری این جی اوز کے کارندے بھی یہی دلائل دہراتے ہیں۔ یہ انہیں رٹا دیئے گئے ہیں۔ قادیانیوں نے نہیں، ان کے مغربی آقاؤں نے حفظ کرائے ہیں۔ وہ ان کے مالی سرپرست ہیں؛ چنانچہ فکری آقا بھی۔ جس کا کھاتے ہیں، اسی کے گن گاتے ہیں۔ مرعوبیت اس کے سوا ہے۔ اپنے پاکستانی اور مسلمان ہونے پر وہ شرمندہ ہیں۔
اس قابل رشک فرانسیسی ادیب فرانزز فینن نے کہا تھا: غلام وہ ہوتا ہے جو آقا کے ذہن سے سوچنے لگتا ہے۔اوّل روز ہی عرض کیا تھا کہ عاطف میاں کو برقرار نہ رکھا جا سکے گا۔ یہ فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ نون لیگ کے احسن اقبال کی طرح تحریک انصاف کے فواد چودھری بھی اس نکتے کو نہیں سمجھتے۔ وہ لبرلز کی جس دنیا میں رہتے ہیں، عام پاکستانیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ کے آخری رسولﷺ سے حقیقی اور گہری محبت ایک عام مسلمان کا سرمایہ حیات ہے۔ ختمِ نبوت اس کے لیے ایک بنیادی عقیدہ ہے۔
ان قادیانیوں کو وہ کبھی قبول نہیں کر سکتا، جو غیر مسلم ہیں مگر اپنے مسلمان ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کی یہ بات ملک کا آئین مانتا ہے، شریعت تسلیم کرتی ہے اور نہ عالمگیر انسانی روایت۔ اس سلسلے میں کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں رہیں گی۔ یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتی جو رائج خیالات کو بالکل اس طرح مان لینے کے عادی ہوتے ہیں جس طرح رائج لباس اختیار کرنے کے۔ سنجیدہ مسائل اور ہیں۔ معیشت تباہ حال ہے انحصار غیر ملکی قرضوں پہ ہے۔ غیر ملکی قرضے امریکی سرپرستی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔
نفسیات ایک نیم غلام قوم کی ہے۔ احساسِ عدمِ تحفظ بہت گہرا ہے۔ صدیوں سے حکمران طبقہ آقاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا آیا ہے۔ نام نہاد اشرافیہ دولت اور اقتدار سے محبت کرتی ہے۔ ایثار اس میں نام کو نہیں۔ مذہبی طبقے کا عالم بھی یہی ہے۔ اس کے پیشوا صدیوں سے پامال راستوں پہ چلے آتے ہیں۔ ایرانی شاعر کے بقول شاہ و شیخ و شحنہ ایک ہیں، یعنی اسٹیبلشمنٹ، ملّا اور تاجر۔ وہ جنہوں نے اللہ کے حکم کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ غور و فکر سے جنہیں کوئی علاقہ نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت مالدار اور کاروباری مخلوق نے عمران خان کو
اس لیے گوارا کیا ہے کہ بدعنوان نواز شریف اور اس سے زیادہ بدعنوان آصف علی زرداری سے لوگ تنگ آ چکے تھے۔ معتبر ذرائع سے حاصل ہونے والی تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے عمران خان کی حکومت اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ تین چار ماہ کے بعد وہ بروئے کار آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن ان کا بازو ئے شمشیر زن ہوں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت ا سلامی بھی شامل و شریک ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ محمود اچکزئی، اے این پی اور حاصل بزنجو بھی۔ ایم کیو ایم اور دوسروں کو بھی ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اسی لیے نواز شریف ایم آر ڈی جیسے اتحاد کی بات کرتے ہیں، جو جنرل محمد ضیا الحق کے دور میں تشکیل پایا تھا۔ اس وقت نواز شریف لکیر کی دوسری طرف تھے۔ ظاہر ہے کہ بھارت اور امریکہ عمران خان سے خوش نہیں۔ 25 جولائی سے بھارتی میڈیا اور سیاست دان اس طرح واویلا کر رہے ہیں جیسے کوئی قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ امریکی حکومت کی ناخوشی کے آثار واضح ہیں۔ امریکی صدر نے اقتدار سنبھالتے ہی نواز شریف کو فون کیا تھا۔ عمران خان کو اب تک نہیں کیا۔ نواز شریف اور ان کے، فوج سے عناد رکھنے والے ساتھی ممکنہ احتجاجی تحریک میں غیر ملکی میڈیا اور حکومتوں سے سرپرستی کی امید رکھتے ہیں۔
شہباز شریف لاتعلق ہیں۔ اس منصوبے سے وہ متفق نہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ ایک پختہ وعدہ کر چکے کہ عمران خان کے خلاف کسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اعلان بھی کر دیا کہ وہ پارلیمانی سیاست کے قائل ہیں۔ شہباز شریف کو الگ کیسے رکھا جائے گا۔ احتجاج کیسے منظم ہو گا، جب کہ کسی بھی حکمران کے ابتدائی دور میں‘شورش برپا کرنے کی ہر کوشش ہمیشہ ناکام رہی۔ عمران خان کے خلاف کسی تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اگر وہ ناکام ہو گا تو اپنی بے عملی اور حماقت سے۔ کچھ چیزیں وقت آدمی کو سمجھاتا ہے اور کچھ وقت بھی نہیں سمجھا سکتا۔ کچھ حقائق تب ا دراک میں آتے ہیں جب انسان منہ کے بل گر پڑے۔