طیب اردگان کل 53فیصد ووٹ لے کر دوسری بار ترکی کے صدر منتخب ہو گئے‘ یہ دنیا کی تاریخ کی پہلی شخصیت ہیں جو مسلسل تین بار وزیراعظم اور دو بار صدر منتخب ہوئے‘ ان کے خلاف جولائی 2016ء میں فوجی بغاوت بھی ہوئی لیکن عوام نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر وہ بغاوت ناکام بنا دی‘ اس وقت بھی ترکی کے زیادہ صنعت کار‘ تاجر‘ بیورو کریٹس‘ جنرلز اور پریشر گروپس اردگان کے خلاف ہیں‘
یورپ‘ امریکا اور اسلامی دنیا کے بااثر حکمران بھی ان کے ساتھ خوش نہیں ہیں لیکن یہ اس کے باوجود مسلسل منتخب ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ کیوں؟ دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ پرفارمنس ہے‘ طیب اردگان نے 15برسوں میں ملک اور عوام دونوں کی حالت بدل دی‘ انہوں نے یورپ کے مرد بیمار کو مرد صحت مند بنا دیا‘ دوسری وجہ ‘ترکی ایک مذہبی ملک ہے‘ اسلام خون کی طرح لوگوں کی رگوں میں دوڑتا ہے اور اردگان ایک سچے مسلمان ہیں چنانچہ عوام ان کے پیچھے کھڑے ہیں اور یہ حقیقت ہے جب عوام کسی لیڈر کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں تو پھر خواہ امریکاسمیت ساری فوج‘ بیورو کریسی اور جوڈیشری اس کے خلاف ہو جائے تو بھی دنیا کی کوئی طاقت اسے عوام کی خدمت سے نہیں روک سکتی‘ طیب اردگان میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان تینوں کیلئے روشن مثال ہیں‘ یہ انہیں بتا رہے ہیں آپ اپنی زندگی عوام کیلئے وقف کر دیں‘ عوام اپنی جان تک آپ پر نچھاور کر دیں گے‘ دوسرا اگر عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر آپ کو اللہ کے سوا کسی ساتھ کی ضرورت نہیں رہتی‘ آپ طیب اردگان بن جاتے ہیں۔ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے اندر بغاوت جاری ہے‘ یہ بغاوت پارٹیوں کیلئے کتنی خطرناک ہو سکتی ہے‘ یہ ہمارا آج کا آیشو ہوگا جبکہ عمران خان اور میاں شہباز شریف دونوں نے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی، عمران خان نے پنجاب میانوالی میں مہم کا فیتہ کاٹا جبکہ شہباز شریف نے کراچی سے اپنے انتخابی دعوؤں کا آغاز کیا‘ کیا یہ دعوے الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہوں گے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔