قندوز میں دستار بندی کی تقریب پر بمباری اورحافظ قرآن بچوں کی ہلاکت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ بمباری کس نے کی تھی؟ بالآخر حقیقت سامنے آ ہی گئی، افسوسناک انکشافات

8  اپریل‬‮  2018

قندوز (نیوز ڈیسک) قندوز میں امریکہ کی بمباری کے نتیجے میں 101 سے زائد حافظ قرآن بچے شہید ہو گئے، جس کی پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے نمایاں کوریج نے کی مگر سوشل میڈیا ان شہیدوں کی زبان بن گیا اور سماجی رابطے کی کوئی بھی سائیٹ آپ کھولیں سب سے پہلے ان معصوم حافظ بچوں کی صورتیں سامنے آتی ہیں،

واضح رہے کہ افغان صوبے قندوز کے ضلع دشت ارچی میں مسجد و مدرسہ دارالعلوم الہاشمیہ العمریہ پر افغان ائیرفورس کی وحشیانہ بمباری میں شہید حافظ قرآن میں سے بیشتر کے ہاتھوں میں شہادت کے بعد بھی قرآن پاک کے نسخے موجود تھے۔قرآن پاک حفظ کرنے کی خوشی میں دیے جانے والے تحائف ننھے شہدا کی نعشوں کے درمیان بکھرے ہوئے پائے گئے۔یہ مناظر دیکھ کر امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچنے والے مقامی افراد کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ اس درد ناک سانحے پر مقامی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔دوسری طرف افغان وزارت دفاع کے حکام اور گورنر قندوز عبدالجبار نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وحشیانہ کارروائی کو طالبان جنگجوؤں ہی کے خلاف قرار دینے پر مصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد و مدرسہ میں حفاظ کرام کی دستار بندی کی تقریب نہیں ہو رہی تھی بلکہ وہاں طالبان جنگجوؤں کی کوئٹہ شوریٰ کا ایک اہم عسکری اجتماع منعقد کیا جا رہا تھا تاہم دشت ارچی کے علمائے کرام اور عوام نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کردیا۔ سانحے کے بعد جاری کی جانے والی تصاویر میں واضح طور پر علمائے دین اور ننھے حفاظ کی بڑی تعداد کو سفید لباس میں ملبوس پھولوں کے ہار پہنے مدرسے سے متصل صحن میں بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔ادھر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گورنر عبدالجبار نے قندوز ہسپتال کا دورہ کرکے تمام زخمیوں پر دباؤ ڈالا ہے کہ اگر انہوں نے علاج کرانا ہے تو اپنا بیان تبدیل کرنا ہوگا اور یہ کہنا پڑے گا کہ مدرسے میں طالبان کمانڈرز اور جنگجو بھی موجود تھے۔

اگر ان کا بیان حکومت کے خلاف ہوا تو علاج روک دیا جائے گا۔ اس حوالے سے قندوز میں موجود فضل خان نامی نوجوان نے ٹویٹر پر کہا کہ دارالعلوم الہاشمیہ العمریہ میں 300 کے قریب شہادتیں ہوئی ہیں لیکن افغان حکومت حقائق کو چھپا رہی ہے۔ شمالی افغان صوبے قندوز میں کی گئی فضائی کارروائی کے بعد حملے میں بچ جانے والے عینی شاہدین اور دیہاتیوں نے بتایا ہے کہ صوبہ قندوز میں طالبان کے زیر کنٹرول دشتِ آرچی کے ضلعے میں شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا،

جس کے نتیجے میں درجنوں شہری ہلاک ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں، جو ایک مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے جمع تھے۔افغان میڈیا کے مطابق اجتماع میں طالبان کا کوئی رکن موجود نہیں تھا، جب کہ سینکڑوں افراد دستاربندی کی ایک محفل میں شریک تھے، جس میں قرآن مجید کو حفظ کرنے پر نوجوان لڑکوں کو گریجوئیشن کی ڈگری دی جارہی تھی۔صوبائی دارالحکومت قندوز کے ایک اسپتال کے سامنے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر حکومت کا احتساب نہیں ہوتا، تو میں اپنی جان لے لوں گا۔

ایک اور شخص نے چیخ کر کہا کہ میرا بھانجا ہلاک ہوگیا ہے۔آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے ایک شخص نے چیختے ہوئے فریاد کی کہ یہ کافروں کی حکومت ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکی دہشت گردی کیخلاف کسی بھی ملکی اور غیرملکی میڈیا نے آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی اتنی بڑی تعداد میں مسلمان حافظ قرآن بچوں کی ویسی آہ و بکا کی گئی جیسی یہودی ایجنٹ ملالہ پر متنازع اور خودساختہ حملے پر کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر حافظ قرآن بچوں کی شہادت پر مسلمان امریکہ اور دیگر یہود ی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اور اقوام متحدہ کیخلاف کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

دو اپریل کو اتنا بڑا واقعہ ہونے کے باوجود پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز اپنی اپنی دکان سجا کر بیٹھے رہے، حافظ قرآن بچوں کی شہادتوں کو نظرانداز کرنے اور میڈیا پر کوریج نہ دینے پر فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا پر پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی رہی سہی ساکھ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ضلع دشت ارچی کے پولیس سربراہ نیاز محمد عمر خیل نے کہا ہے کہ بمباری امریکی طیاروں نے کی، افغان فوج نے دعویٰ کیا کہ بمباری میں طالبان کو نشانہ بنایا گیا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان اس طرح جلسے منعقد نہیں کرتے، انہوں نے قندوز کے شہداء کا بدلہ لینے کا بھی اعلان کیا۔پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے خاموش اپنانے پر سوشل میڈیا پر کھلے عام یہ بات کی جا رہی ہے کہ اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے میڈیا مالکان اور بیشتر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یہودی ممالک اور این جی او ز کی طرف سے مختلف ذرائع پیسہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ خاموش رہیں اور امریکی دہشت گردی کیخلاف اپنی زبان بند رکھیں۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…