چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعظم کی کل کی ملاقات بھی بدقسمتی سے افواہوں کی فیکٹری بن چکی ہے‘ لوگ سرعام کہہ رہے ہیں پہلے میاں شہباز شریف اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات کی خبر‘ پھر میاں نواز شریف کی طرف سے اداروں کو مذاکرات کی پیش کش‘
پھر چیف جسٹس اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات اور پھر آج جے آئی ٹی کے سربراہ کی طرف سے نیب کورٹ میں یہ اعتراف کہ ان کے پاس میاں نواز شریف کے بینی فیشل اونر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں‘ افواہ سازوں کا خیال ہے یہ تمام واقعات محض اتفاق نہیں ہو سکتے‘ یہ تاثر اس قدر گہرا ہے کہ اپوزیشن بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ این آر او ہوا تو ہم سڑکوں پر ہوں گے، بعض لوگ نہال ہاشمی کی معافی کو بھی ان اتفاقات کا حصہ قرار دے رہے ہیں لیکن مجھے یہ تھیوری درست نہیں لگتی کیونکہ میرا خیال ہے چیف جسٹس اصولوں پر کمپرومائز نہیں کریں گے اور اگر میاں نواز شریف کو اس ملاقات سے تھوڑا سا بھی آسرا مل رہا ہوتا تو یہ آج چیف جسٹس اور اپنے خلاف کیس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہ کرتے، میاں نواز شریف کا یہ رویہ ثابت کر رہا ہے یہ بھی کمپرومائز کے موڈ میں نہیں ہیں‘ باقی رہی وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات تو یہ ملاقات ہونی چاہیے تھی اور یہ ہوتی بھی رہنی چاہیے‘ یہ ملاقاتیں ملک اور سسٹم کیلئے ضروری ہیں ورنہ اداروں کے درمیان فاصلوں سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے اور بہت نقصان ہوگا‘ یہ ملاقات اتنی کنٹرورشل کیوں ہو گئی‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ ہم آج ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر بھی بات کریں گے، فوج اس پریس کانفرنس پر کیوں مجبور ہوئی‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔