کراچی(نیوز ڈیسک) ڈالر کی قیمت میں اضافے پر ماہرین نے اس شک کا اظہار کیا کہ اس کی وجہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کیے گئے وعدے ہیں، ڈالر کی قدر میں اضافے کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ مارکیٹ میں اس کی بڑھتی ہوئی طلب ہے لیکن سٹیک ہولڈرز اسے قابل قبول نہیں سمجھ رہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف اس بات کی جانب اشارہ کرتا رہا ہے کہ ڈالر کی موجودہ قیمت اس کی قدر کی صحیح عکاسی نہیں کرتی اور آئی ایم ایف کے مطابق ڈالر کی قدر کو 120 سے 125 روپے تک لے جانا ہوگا۔ ظفر پراچہ نے کہا کہ میرے خیال میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ اسی سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ اس موقع پر ظفر پراچہ نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اہلکار غیر ملکی دوروں میں بین الاقوامی اداروں سے وعدے کرکے آ تو جاتے ہیں لیکن ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ عوام کو سچ بتا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں پانچ فیصد اضافے کا نتیجہ مہنگائی کے طوفان کی صورت میں آئے گا، انہوں نے کہا کہ جب پٹرول مہنگا ہو گا تو وہ اپنے ساتھ مہنگائی کا طوفان بھی لائے گا، آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے حوالے سے ماہر اقتصادیات صفیہ آفتاب نے کہا کہ اس میں واضح طور پر درج تھا کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہت کمی آ گئی ہے جس سے انھیں قرضوں کی ادائیگی میں دشواریکا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماہر اقتصادیات نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ سٹیٹ بینک کی طرف سے کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید درآمدات کچھ کم ہو جائیں اور برآمدات میں اضافہ ہو مگر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی،
دریں اثناء ڈالر کی قدر میں اضافے سے پاکستانی معیشت پر بھی بوجھ پڑا ہے اور بیرونی قرضوں کا حجم 800ارب تک بڑھ گیا ہے۔ یورو، پاؤند اور دیگر کرنسیوں کی قدر میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، ڈالر اور دیگر طاقتور کرنسیوں کی قیمت میں اضافے پر لاہور چیمبر آف کامرس نے وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہنگامی اقدامات نہ کئے گئے تو معیشت کو نقصان پہنچے گا جبکہ فاریکس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت ایسے جھٹکے کی متحمل نہیں ہو سکی۔ دوسری جانب ڈالرز اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کی قیمت میں غیر معمولی اضافے کے باعث مہنگای کے طوفان کی آمد کا بھی مژدہ سنا دیا گیا ہے۔
پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ 92نیوز کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافہ اور مصنوعی بحران پیدا کرنے کے پیچھے اہم حکومتی شخصیات ملوث ہیں، تحقیقاتی اداروں کو مافیا کیساتھ گٹھ جوڑ کے اہم ثبوت مل گئے ہیں، دو روز میں اربوں مالیت کے ڈالر خریدے گئے۔ کرنسی مافیا نے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے صرف 2روز میں 80ارب روپے کمائے، کچھ اہم افراد نے تو سونا بھی ڈالرز میں خریدا ہے۔ 2حکومتی افراد، 3سابق بینکرز، 5کاروباری اور دبئی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے کا علم تھا۔ اہم ترین حکومتی شخصیت ڈالر مافیا کی بھرپور سپورٹ کر رہی ہے،
ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل بھی اس کی سفارش پر کارروائی روک دی گئی تھی۔ رپورٹ میں باوثوق ذرائع کے مطابق بتایا گیا ہے کہ دبئی سے تعلق رکھنے والی دو اہم ترین شخصیات سمیت ڈالر مافیا کے خلاف انکوائری شروع ہو گئی ہے۔ انویسٹی گیشن کرنے والے اداروں کو ڈالر کا مصنوعی بحران پیدا کر کے قیمت میں اچانک اضافہ کرنے والے مافیا کے انٹرنیشنل مافیا کیساتھ رابطوں کے حوالے سے بھی اہم ثبوت مل گئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کا علم پاکستان کے تین سابق بینکرز، پانچ معروف کاروباری شخصیات، دبئی سے تعلق رکھنے و الی معروف ترین کاروباری شخصیات کیساتھ حکومت سے تعلق رکھنے والے 2افراد کو بھی تھا۔
یہ بات سامنے آئی ہے کہ باقاعدہ یہ مافیا دو روز سے اس قدرمتحرک تھا کہ اربوں روپے کے ڈالرز خریدے گئے۔ مافیا کے کچھ اہم افراد نے تو سونے کو بھی دو روز پہلے ڈالرز میں خریدا۔ اہم ترین اداروں کی ابتدائی انویسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق ڈالر مافیا نے صرف دو روز کے اندر 80ارب روپے سے زائد کی رقم صرف ڈالر مہنگا ہونے سے کمائی۔ اس میں ڈالر مافیا کیساتھ حکومتی حلقوں سے تعلق رکھنے والی اہم ترین شخصیات بھی شامل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل بھی جب ڈالر کی اچانک قیمت میں اضافہ ہوا تھا تو اس وقت بھی اسی مافیا کے اہم افراد اس میں شامل تھے۔ اس وقت ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ایک اہم ترین حکومتی شخصیت جو کہ اس وقت اہم ترین عہدہ پر فائز تھی کی سفارش پر اس مافیا کے خلاف کارروائی کو روک دیا گیا تھا، وہ اب بھی ڈالر مافیا کی بھرپور سپورٹ کر رہی ہے۔