سینٹ کے الیکشن ہو چکے ہیں‘ یہ الیکشن کتنے فیئر‘ کتنے جمہوری تھے آپ یہ سیاستدانوں کے اپنے منہ سے سنئے‘ ملک کے سب سے بڑے ایوان کے الیکشن میں کھل کر پیسہ خرچ ہوا‘ ارکان اسمبلی باقاعدہ خریدے بھی گئے اور یہ باقاعدہ بکے بھی‘ دوسرا ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا مختلف صوبوں میں رویہ مختلف تھا‘ پاکستان تحریک انصاف کے 12 سے 17 ایم پی ایز نے کے پی کے میں مخالف جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیئے
لیکن اسی پی ٹی آئی کے امیدوار چودھری سرور نے پنجاب میں 14 اضافی ووٹ لئے چنانچہ وہ حرکت جو کے پی کے میں گناہ تھی وہ پنجاب میں ثواب بن گئی‘ بلوچستان کے چھ امیدوارآزاد الیکٹ ہو گئے‘ کے پی کے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سات ایم پی ایز ہیں لیکن پارٹی نے یہاں سے دو سینیٹر منتخب کرا لئے اور بلوچستان کے وہ آٹھ سینیٹر جو کل تک ن لیگ کے ساتھ تھے‘ وہ اب پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ جوڑ توڑ کر رہے ہیں‘ یہ ساری صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے‘ یہ وہ ایوان ہے جس نے آنے والے کل میں ملک کیلئے قانون سازی کرنی ہے اگر اس کی اپنی صورت حال یہ ہو گی کہ لوگ کروڑوں روپوں سے ایم پی ایز کے ووٹ خرید کر یہاں آئے ہوں گے تو پھر اس کے بنائے قانون کی کیا حیثیت ہو گی‘ وہ قانون کتنا صاف‘ شفاف اور پاک ہو گا لہٰذا میری درخواست ہے کیونکہ ملک کا اعلیٰ ترین ایوان اب پاک صاف نہیں رہا چنانچہ آئین سے 62 اور 63 دونوں شقیں ختم کر دینی چاہئیں اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر سینیٹ میں ووٹوں کی خریداری کو قانونی شکل دے دی جائے تاکہ لوگ کھل کر یہ کھیل کھیلیں‘ کوئی چیز خفیہ نہ رہے اور زیادہ بہترتو یہ ہے آپ سینٹ کے الیکشن کو سٹاک ایکس چینج کا حصہ بنا دیں تاکہ عوام بھی اس کے شیئرز خرید کر سرمایہ کاری کر سکیں۔ کیا قوم کیلئے یہ صورت حال قابل قبول ہے‘ اگر نہیں تو حل کیا ہے؟ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا اور الیکشن کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے جو ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے ۔کیا اسے بھی کوئی نہیں روک سکتا؟ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔