اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں برطانیہ فرانزک لیبارٹری کے سربراہ رابرٹ ریڈلے نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے بتایا کہ 1976ء سے اس شعبے سے وابستہ ہوں کو ٹسٹ سالٹر نے میری خدمات حاصل کیں۔ 19جون2017ء کو مجھ سے رابطہ کیا گیا جس کے بعد30جون کو خدمات دینا شروع کیں تو مجھے تیس جون2017ء کو ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں موصول ہوئیں ۔
فرانزک لیبارٹری لندن کے سربراہ کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا میرا کام دستخطوں کا موازنہ کرنا اور دستاویزات میں تاریخ کے رد و بدل کو دیکھنا تھا جس کے معائنے کے بعد پہلی رپورٹ چار جولائی 2017ء کو تیار کی دوران سماعت رابرٹ ریڈلے کو نیب پراسیکیوٹر نے رپورٹ کی کاپیاں دکھاتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ آپ کی تیار کردہ رپورٹس ہیں؟ جس پر رابرٹ ریڈلے نے بتایا یہ میرے ہی تیار کی گئی رپورٹ ہے دوسری طرف لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر ابن عباس نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے دو گواہوں کو شناخت کروائی ۔ ہائی کمشنر کے بائیں جانب فرانزک ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے اور دائیں طرف اختر ریاض براجمان تھے جبکہ کمرہ عدالت میں شریف فیملی کے دو نمائندے سعد ہاشمی اور بیرسٹر امجد ملک بھی ہائی کمیشن میں موجود تھے استغاثہ کے دو نمائندے ڈپٹی پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی اور احمد مجید اولکھ ڈائریکٹر انوسٹی گیشن بھی موجود تھے ۔ شریف خاندان کے قانونی مشیر خواجہ حارث کی جانب سے دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر کے ہائی کمیشن میں موجودگی پر اعتراضات اٹھائے گئے جس کے جواب میں سردار مظفر نے احتساب عدالت کے تیرہ فروری کے فیصلے کا حوالہ دیا جس کے مطابق نیب پراسیکیوٹر کو ہائی کمیشن میں بیٹھنے کی اجازت دی گئی رابرٹ ریڈلے نے عدالت کو مزید بتایا مجھے دو ڈکلیریشن دیئے گئے تھے دوسرے اور تیسرے صفحے پر تاریخ میں تبدیلی پائی گئی ۔ خواجہ حارث نیر ابرٹ ریڈلے پر جرح کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی رائے سے پہلے تمام دستاویزات کو پڑھا تھا میری جاب ان کا فرانزک کے معائنہ کرنا تھا کیا آپ نے ان سے اصل دستاویزت مانگی تھی ؟