جمعہ‬‮ ، 14 جون‬‮ 2024 

میں تو نواز، عمران ،جہانگیر ترین کیسز میں پھنس گیا ، چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کھل کربول پڑے،حیرت انگیزانکشافات

datetime 16  دسمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ میں تو نواز شریف ، عمران خان اور جہانگیر ترین کیسز میں پھنس گیا اوراے ڈی آر سسٹم پر کام نہ کر سکنے کی وجہ سے ہر دن اپنے لئے شرمندگی محسوس کی ،لاء اینڈ جسٹس کمیشن کوآزاد کیا جائے اور اس کیلئے میں اپنی پاورسرنڈرکرنے کو تیار ہوں،یہ ان لوگوں کو دیاجائے جو اسے فل ٹائم دے سکیں ،عدلیہ کے کندھوں پر پہلے ہی بہت زیاد ہ بوجھ ہے

اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ ادا رہ اللہ نہ کرے کولیپس ہو جائے گا لیکن ہمارے ہوتے ایسا نہیں ہوگا میں مایوس ہوں اور نہ آپ کو مایوس ہونے دوں گا ،اگر کسی وجہ سے مقننہ قوانین میں اصلاحات نہیں کر پا رہی تو اس کے اوربہت سارے راستے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں اے ڈی آر سسٹم کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ ، ماتحت عدلیہ کے ججز صاحبان اوربار زکے عہدیداران بھی موجود تھے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نے اپنے قانون کوجدید تقاضوں کے مطابق بہتر نہیں کیا،ہم قانون کے سقم کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔معاشرے سے کرپشن کی لعنت کو ختم کرنا ہے،مقدمہ سازی میں تاخیرپربہت دکھی ہوتاہوں،اللہ تعالی نے منصف بناکربھیجاہے،کام کوعبادت سمجھ کرکریں،سوسائٹی کی بیماری کرپشن اورجھوٹ ہیں لیکن اس سے بڑاعذاب مقدمہ سازی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج تک لاء اینڈ جسٹس کمیشن ڈلیور نہیں کر سکا ، اس کی سربراہی بھی چیف جسٹس کے پاس ہے جس کی پہلے ہی اتنی ذمہ داریاں ہیں۔ اگر کسی نے چھٹی بھی لینی ہوتی ہے تو وہ چیف جسٹس کے پاس آئے گا۔ میں اپنی پاور سرنڈر کرنے کو تیار ہوں کون ہے جو ایسا کرتا ہے ۔ اس کو آزاد کیا جائے اور اسے ایسے لوگوں کو دیا جائے جو کل وقتی کام کریں اور اصلاحات کریں ۔ اس کیلئے ٹیمیں بنائی جائیں ، وکلاء ججز کام کریں۔

ہمیں ایسی اصلاحات دیں جن پر فوری عملدرآمد کر سکیں ۔ اگر مقننہ کسی وجہ سے نہیں کر پا رہی تو اور بہت سارے راستے ہیں ۔ جب تک ہم اپنی سوسائٹی کو شعور نہیں دیں گے اے ڈی آر سسٹم کی افادیت ہو گی اور نہ یہ سسٹم کامیاب ہوگا ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ جب میں ہال میں داخل ہو رہا تھاکہ تو احسن بھون تقریر کرتے ہوئے رک گئے اورانہوں نے بعد میں اپنی تقریر میں کہا کہ ہم اس کی کامیابی کے لئے تعاون کریں گے جو انتہائی خوش آئند بات ہے ۔

میں نے اے ڈی آر سسٹم سے متعلق ریسرچ کی ہے اس کے لئے کتابیں دیکھیں ، سٹرکچر پر غورو خوض کیا اور منٹس تیار کئے ۔ انہوں نے کہا کہ میں بیرون ملک گیا تو مجھے بتایا گیا کہ ہم 15سال سے اس سسٹم کی کامیابی کیلئے کاوشیں کر رہے ہیں اور اب یہ نافذ العمل ہوا ہے ۔ میں نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے بتایا کہ بارز کی مزاحمت کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا لیکن میں شکر گزار ہوں کہ ہمیں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ۔ انہوں نے احسن بھون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو وعدہ کیا ہے اسے نبھانا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے کندھوں پر پہلے ہی بہت بوجھ ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مجھے ڈر ہے کہ یہ ادارہ اللہ نہ کرے ایسا ہو گا نہیں ادارہ کولیپس نہ کر جائے ،ہمارے ہوتے ہوئے ایسا ہوگا نہیں ، میں مایوس ہوں نہ آپ کو مایوس ہونے دوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ججز ، وکلاء او رمیڈیا کے تعاون اورمدد کی ضرورت ہے ۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کریمینل قانون میں اس کی کہاں گنجائش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پنجاب کی حد تک محدود نہیں رہنا چاہیے ۔

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے جو علم ، وژن دیا ہے یہ پورے پاکستان کی عوام کیلئے تحفہ ہونا چاہیے ۔ انہوں نے چیف جسٹس لاہو رہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جس محبت اور درد سے اس پر کام کیا ہے آپ مجھ پر بازی لے گئے ہیں ۔ میں تو نواز شریف ، عمران خان اور جہانگیر ترین کیسز میں پھنس گیا ۔ آپ نے وہ کام کر دیا جو ہمیں پہلے دن سے کرنا چاہیے تھا لیکن میری اپنی مجبوریاں تھیں ۔ میں قوم کو اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ایک دن بھی اس سے غافل نہیں رہا بلکہ نہ کرنے کی وجہ سے ہر آنے والے دن اپنے لئے شرمندی محسوس کی۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ججز کو مصنف بناکر بھیجا ہے اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کریں۔ لوگ جعلی دستخطوں سے جائیدادیں ایک دوسرے کے نام کردیتے ہیں ،ہم نے اپنے قوانین کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق جدید نہیں کیا،ہمارا سسٹم بوسید ہ ہوچکا ہے اس میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔متفقہ کی ڈیوٹی ہے کہ قانون بنائے مگرمتفقہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی ہے۔قوانین میں اصلاحات نہیں کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے ۔ آ ج سے اپنا وقت سسٹم کو بہتر کرنے پر لگانا ہے ۔عدالتوں کے چکر لگانے والے بڑے کرب سے گزرتے ہیں ،جس بچے کا باپ مر گیا اسے کون انصاف دے گا،سیکسینشن سرٹیفکیٹ لینے کے لیے 7ماہ لگ جاتے ہیں ،اس کی بیوہ کو پنشن نہیں ملتی کیا یہ انصاف ہے ؟۔

موضوعات:



کالم



شرطوں کی نذر ہوتے بچے


شاہ محمد کی عمر صرف گیارہ سال تھی‘ وہ کراچی کے…

یونیورسٹیوں کی کیا ضرروت ہے؟

پورڈو (Purdue) امریکی ریاست انڈیانا کا چھوٹا سا قصبہ…

کھوپڑیوں کے مینار

1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…

صرف ایک زبان سے

میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…

ایک نئی طرز کا فراڈ

عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…

آئوٹ آف دی باکس

کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…