اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا ہے کہ 37 ارکان پارلیمنٹ کے حوالے سے سامنے آنے والی دستاویز جعلی ہے‘ میڈیا کے کسی حصے پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتے ٗ پیمرا قانون کے مطابق جعل سازی کی تحقیقات ہورہی ہیں ٗجن ممبران کا فہرست میں نام آیا ہے ان کی تشویش درست ہے ۔ پیر کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایوان کے 37 ممبران کے خلاف ایک نجی ٹی وی چینل پر الزام لگانے کے حوالے سے آگاہ کیا کہ اس بارے میں حقائق سامنے لانا ضروری ہے،
ٹی وی پروگرام پر ایک دستاویز لہرائی گئی کہ وزیراعظم ہاؤس نے آئی بی سے کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلق کے حامل اراکین کی فہرست مانگی ہے‘ جب یہ پروگرام چلا تو اگلے روز آئی بی نے اس کی تردید کی اور کہا کہ یہ دستاویز جعلی ہے۔ اسی روز کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں جن وزراء کے اس فہرست میں نام تھے انہوں نے یہ معاملہ اٹھایا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘ وزیراعظم ہاؤس سے ایسا کوئی خط جاری نہیں ہوا جبکہ ساتھ ہی آئی بی کو ہدایت کی گئی کہ وہ پیمرا کو شکایت کرے کہ یہ جعلی دستاویز ہے اور ایک قومی ادارے اور لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جن ممبران کے نام رپورٹ میں شامل تھے انہیں بھی کہا گیا کہ وہ بھی پیمرا میں اس حوالے سے شکایت کریں کہ انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ آئی بی کو ہدایت کی کہ اس جعلی دستاویز کے معاملے پر ایف آئی آر درج کرائے کہ کس نے یہ جعل سازی کی، پیمرا اس حوالے سے کارروائی کر رہی ہے، آئی بی نے بھی کارروائی شروع کردی ہے۔ یہ بات عوام کے سامنے آنا ضروری ہے کہ ایک ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کیوں کی گئی‘ اس سے ممبران اور ہاؤس کی بدنامی ہوئی۔ اس حوالے سے بعض ممبران کی تحریک استحقاق بھی آئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کا موقف ہے کہ استحقاق کی تحریک کمیٹی کو ارسال کردیں تاکہ کمیٹی کارروائی کر سکے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے وضاحت پر شکرگزار ہیں اگر یہ وضاحت ہو گئی تھی تو وفاقی وزیر نے اس معاملے کو دوبارہ کیوں اٹھایا اور اراکین نے واک آؤٹ کیوں کیا؟۔ اس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ انہیں شاہ محمود قریشی کی پریشانی کا احساس ہے اور وہ ان کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اس پر تشویش ظاہر کی کہ ارکان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ پی ایم ہاؤس نے کوئی ایسا خط لکھا نہ آئی بی سے ایسی رپورٹ طلب کی ہم نے کابینہ کے اجلاس میں پیمرا میں شکایت کی‘
ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس نے یہ خط لہرایا اور نہ ہی ہم کسی میڈیا پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ حکومت کے نام پر ایک جعلی دستاویز لہرائی گئی‘ ہم اس کی تحقیقات چاہتے ہیں پیمرا کا قانون موجود ہے اور اس کے پاس شکایت درج ہے جس کے تحت کارروائی ہو رہی ہے۔قبل ازیں وزیر اعظم کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں آئی بی کے مبینہ خط کے معاملے پر غور کیا گیا۔نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئی بی کے مبینہ خط کے معاملے پر پالیسی بیان دیں گے۔
متاثرہ رکن پارلیمنٹ بلال ورک نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آئی بی کے مبینہ خط کا معاملہ آج حل ہوگیا ہے ٗ وزیر اعظم ایوان میں اس حوالے سے پالیسی بیان دیں گے اور اجلاس میں آئی بی کے لسٹ کے معاملے پر تحریک استحقاق لانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے جس کے بعد یہ مسئلہ اب حل ہوگیا ہے۔ویاقی وزیر ریاض پیرزادہ کا کہنا تھا وہ آئی بی کے خلاف تحریک استحقاق نہیں لائیں گے، دیگر ارکان اگر تحریک استحقاق لانا چاہتے ہیں تو بیشک لائیں۔انہوں نے کہاکہ میرا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سرکاری طور پر اس خط کو جعلی قرار دیا جائے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے دورہ امریکا سے متعلق بریفنگ دی۔ذرائع نے کہا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے لیگی ارکان کو متنازع بیانات دینے سے روک دیا۔انہوں نے کہاکہ ایسا کوئی بیان نہ دیا جائے جس سے محاذ آرائی کا تاثر ملے، ملک کو اس وقت قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔