اسلام آباد(اے این این) سابق وزیراعظم نواز شریف نے ملک میں رہ کر اپنے خلاف تمام مقدمات کاسامناکرنے کاواضح عندیہ دیتے ہوئے کہاہے کہ اہلیہ کی تیمارداری کرنے کیلئے لندن جانا پڑا تومخالفین نے پروپیگنڈاشروع کردیا ،میری واپسی لندن روانگی کے ساتھ ہی طے ہوگئی تھی ، عدالتوں سے فرار ہونا ہمارا طریقہ نہیں ، میں نے حالات کی سنگینی کا سامنا پہلے بھی کیا اور اب بھی کر رہا ہوں ،پاناما کیس میں نشانہ میں اور میرا خاندان ہے
لیکن سزا پاکستان کو دی جا رہی ہے، مجھ پر ایک پائی کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی ، عدلیہ نے مجھے بہرصورت نااہل کرنا تھا اس لیے اقامہ کی آڑ لے گئی ، فیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو عدالتوں کی ساکھ بھی نہیں رہتی، جانتا ہوں کہ میرا اصل جرم کیا ہے، 70سالہ کینسر کا علاج تجویز کرنے کا وقت آگیا ورنہ پاکستان خدنخواستہ کسی سانحے کا شکار نہ ہوجائے ، خدارہ ملک کوچلنے دیاجائے ، قائداعظم کے پاکستان، ووٹ کے تقدس اور 70 برس میں نشانہ بننے والے وزرائے اعظم کا بڑامقدمہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے ، آخری فتح عوام اور پاکستان کی ہوگی ۔ منگل کی سہ پہرپنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے اپنی پیشی کے موقع پراحتساب عدالت میں صحافیوں پر ہونے والے تشدد کے واقعہ پر اظہار افسوس کیا ،میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں ، عدالت میں صحافیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی تحقیقات کیلئے طلال چوہدری کی ڈیوٹی لگا دی ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کے ساتھ مل کر ایسا طریقہ کار اختیار کریں جس سے صحافیوں کے حقوق پامال نہ ہوں اوراس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔انہوں نے کہاکہ مجھے اہلیہ کی تیمارداری کرنے کے لئے لندن جانا پڑا، ان کی بیماری کی نوعیت اور علاج کے مرحلوں کی تفصیل سب کے سامنے آچکی ہے
مگر ہمارے سیاسی مخالفین نے اس پر بھی پروپیگنڈا شروع کردیا اور پورے پاکستان میں کہنے لگے کہ شریف خاندان اب واپس نہیں آئے گا، میرے قریبی رفقا ء اچھی طرح جانتے تھے کہ میری جلد از جلد واپسی لندن روانگی کے ساتھ ہی طے ہوگئی تھی ، میں ان سیاسی مخالفین کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ شریف خاندان کا ایک ایک فرد نہ صرف اپنے خلاف عائد الزامات کا سامنا کرے گا اور ملک آکر ان مقدمات کا سامنا کرے گا ۔
انہوں نے کہاکہ کلثوم نوازکی صحت یابی کیلئے دعاؤں پر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا ، پہلے بھی مشکلات برداشت کیں لیکن کبھی آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا، عدالتوں سے فرار ہونا ہمارا طریقہ نہیں، ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس میں نشانہ میں اور میرا خاندان ہے لیکن سزا پاکستان ، پوری قوم کو اور ان کی نسلوں کو دی جارہی ہے،
پاناما تاریخ کا پہلا کیس ہے جس میں دفاع کرنے والے کے حقوق سلب کرلیے گئے اور عدل و قانون کا پورا وزن درخواست گزار کے پلڑے میں ڈال دیا گیا اس کیس نے سیاسی انتقام کی کوکھ سے جنم لیا مجھ پر ایک پائی کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی چونکہ عدلیہ نے مجھے بہرصورت نااہل کرنا تھا اس لیے اقامہ کی آڑ لے گئی، انصاف کے عمل کو انتقام کا عمل بنادیا جائے تو پہلی سزا کسی فرد کو نہیں بلکہ عدالت کو ملتی ہے، فیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو عدالتوں کی ساکھ بھی نہیں رہتی،
تمیزالدین سے نواز شریف تک تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری ہے جن پر ندامت ہوتی ہے، 70سالہ کینسر کا علاج تجویز کرنے کا وقت آگیا ورنہ پاکستان خدنخواستہ کسی سانحے کا شکار نہ ہوجائے ۔ انہوں نے کہاکہ پہلے اور اب میں فرق یہ ہے کہ پہلے آمریت تھی لیکن اب جمہوری دور ہے، آمرانہ دور میں دہشت گردی کی عدالتوں سے سزائیں پانے کے بعد بھی مجھے دودواپیلوں کا حق حاصل تھا لیکن آج اس جمہوری دور میں مجھے اس حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے،
ایک عدالت نے پہلے پٹیشن کو فضول اور ناکارہ قرار دیا اور پھر اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت شروع کر دی، کوئی ثبوت نہ ملا تو اسی عدالت نے پراسرار طریقے سے جے آئی ٹی بنا دی اور اسی عدالت نے اس جے آئی ٹی کی نگرانی بھی سنبھال لی اسی عدالت نے کبھی پانچ اور کبھی تین معزز جج صاحبان کے ساتھ فیصلے بھی سنا دئیے اور پھر اسی عدالت نے نیب کو حکم دیا کہ اپنے سارے ضابطے توڑ کر براہ راست ریفرنس دائر کرو۔
پھر اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، پھر وہی عدالت احتساب کورٹ کی نگران بھی بن گئی اور اگر ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی۔ کیا ایسا ہوتا ہے انصاف، کیا اسے کہتے ہیں قانون کی پاسداری، کیا آئین کا آرٹیکل 10 اے یہی کہتا ہے، کیا شفاف ٹرائل اسے ہی کہتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ میں نے وکلا کنونشن میں 12 سوالات اٹھائے تھے، ایک ماہ گزر گیا کسی ایک بھی سوال کا جواب نہیں آیا ،
جواب آ بھی نہیں سکتا کیونکہ 70 سالہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا کیس ہے کہ جس میں ثبوتوں کا تمام بوجھ مدعی کے بجائے دفاع کرنے والے پر ڈال کر اس کے تمام آئینی و قانونی حقوق صلب کرلیے گئے۔انہوں نے کہا کہ عوام اور تاریخ کی عدالتوں میں اپیلیں لگتی رہتی ہیں، میری پہلی اپیل پر پہلا فیصلہ جی ٹی روڈ پر نکلنے والی ریلی نے سنایا اور پھر میری اپیل پر فیصلہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120 لاہور میں سنایا گیا جو ایک دو ٹوک اور واضح عوامی فیصلہ ہے،
یہ فیصلے آتے رہیں گے اور ایک بڑا فیصلہ انشا اللہ 2018 میں آئے گا اہلیت یا نا اہلیت کا فیصلہ 20 کروڑ عوام کو کرنے دیں اورخدارہ ملک کوچلنے دیاجائے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حالات کی سنگینی کا سامنا پہلے بھی کیا اور اب بھی کر رہا ہوں ، جھوٹ کی سیاست کرنیوالوں نے جھوٹے الزامات لگائے، کال کو ٹھڑی سے لیکر جلاوطنی کی سزا کاٹنی ۔10سال پہلے مجھے ائیرپورٹ سے باہرنہیں نکلنے دیاگیا
اس وقت بھی توہین عدالت کاایک مقدمہ درج ہواتھاجواب بھی عدالت کی کسی الماری میں پڑاہے ۔ا نہوں نے کہاکہ ہم قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں، ہم نے جائز اور ناجائز سب تسلیم کیا لیکن ملک میں ہر صورت قانون کی پاسداری اور انصاف ہونا چاہیے، قانون کی بالادستی نہ ہونے سے اداروں میں تصادم کا خدشہ پیدا ہوتا ہے، میں جھوٹ پر مبنی بے بنیاد مقدمے لڑ رہا ہوں اور سزائیں بھی پا رہا ہوں لیکن اس سے بڑھ کر میں نے ایک بڑا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے
اور یہ مقدمہ ہے، قائداعظم کے پاکستان، ووٹ کے تقدس اور 70 برس میں نشانہ بننے والے وزرائے اعظم کا مقدمہ اور مجھے یقین ہے کہ آخری فتح عوام اور پاکستان کی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم جان چکی ہے کہ میری نااہلی کا سبب یہ بتایا گیا کہ میں نے جو تنخواہ اپنے بیٹے سے وصول نہیں کی، وہ میرا اثاثہ تھی، میں نے وہ اثاثہ ظاہر نہ کرکے خیانت کی لہذا صادق اور امین نہیں رہا ۔کاش میرے اثاثے کھنگالنے والوں کی نظر کچھ اور اثاثوں پر بھی پڑتی
جو میرے سیاسی اکاؤنٹ میں جمع ہیں میرا ضمیر اور دامن صاف ہے، عوام میرے ساتھ کھڑے ہیں، امید ہے کہ کہیں نہ کہیں انصاف زندہ ضرور ہے۔ نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں کیے گئے کاموں اور اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے سوال کیا دنیا بھر کی مخالفت، ہر طرح کی لالچ اور دھمکیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا اعلان کس نے کیا، پاکستان کو سڑکوں، بندرگاہوں اور موٹرویز کے اثاثے کس نے دیے ،گیس کی قلت اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ، کیا یہ معمولی اثاثے ہیں؟ ۔