اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگار حامد میر نے اپنے کالم انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لاہور میں تین دن کے قیام کے دوران بہت سی کہانیاں سننے کوملیں۔ زیادہ تر کہانیوں میں مریم نواز کا کردار مرکزی تھا۔ ان کہانیوں کی تفصیل پھر سہی لیکن شریف خاندان کے اندرونی اختلافات سے جڑے قصے ہر خاص و عام کی ز بان پر ہیں میڈیا پر کنٹرول اتنا زیادہ ہے کہ اکثر’’حریت پسند‘‘ صحافیوں کی مزاحمت مریم نواز کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہے
کیونکہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور جب سے مریم نواز لاہور میں اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلارہی تھیں خادم اعلیٰ شہباز شریف زیادہ تر لاہور سے غائب رہے۔ شہباز شریف کو قریب سے جاننے والے کہتے ہیں کہ لاہور میں اصل خبر این اے120کے ضمنی الیکشن کا نتیجہ نہیں بلکہ شہباز شریف کی بے چینی ہے اور اس بے چینی کو پریشانی میں چوہدری نثار نے تبدیل کیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ چوہدری نثار جو بھی کہتے ہیں اس میں شہباز شریف کی خاموش تائید شامل ہوتی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے چوہدری نثار اور شہباز شریف کے درمیان کئی معاملات پر اختلاف رائے پیدا ہوچکا ہے تاہم شہباز شریف نے اپنے اختلافات کا کھل کر اظہار نہیں کیا کیونکہ کچھ معاملات پر دونوں میں اتفاق بھی پایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر چوہدری نثار جن خواتین و حضرات کو ناپسند کرتے ہیں ان کے شہباز شریف کے ساتھ بھی معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ دونوں اپنی جماعت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی نہ کی جائے تاہم فرق یہ ہے کہ چوہدری نثار نے اپنی جماعت کے اندر کچھ لوگوں سے محاذ آرائی کو’’اعلان‘‘ کی شکل دے دی ہے لیکن شہباز شریف نے ایسا نہیں کیا۔ چوہدری نثار نے سب سے پہلیمریم نواز کو ایک’’بچی‘‘ اور غیر سیاسی‘‘ قرار دیا۔
اس کے بعد انہوں نے وزیر خارجہ خواجہ آصف پر حملہ کیا اور اب وہ خواجہ آصف کے ساتھ ساتھ احسن اقبال کا بھی رگڑا نکال رہے ہیں۔ چوہدری نثار نے گزشتہ دنوں خواجہ آصف کو ملک دشمن قرار دیااور کہا کہ آرمی چیف دنیا کو ڈو مور کہہ رہے ہیں جبکہ خواجہ آصف اپنے ہی ملک پاکستان کو ڈو مور کہہ رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چوہدری نثار نے خواجہ آصف پر تنقید کے ذریعے سول اور ملٹری قیادت میں اختلافات کا تاثر دیا ہے حالانکہ خواجہ آصف نے آرمی چیف کی دنیا سے ڈو مور کے مطالبے کی سو فیصد حمایت کی تھی۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار سے ان کے اختلافات کی وجہ2012میں اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بنا جب چوہدری نثار نے عدالت کے فیصلے کو مسترد کیا اور انکوائری کی مخالفت کی لیکن انہوں نے فیصلے کی تائید کی۔یہ صرف ایک وجہ ہوسکتی ہے، میمو گیٹ اسکینڈل میں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف درخواست گزار بننے کا فیصلہ کیا تو چوہدری نثار اور جاوید ہاشمی نے مخالفت کی تھی جبکہ خواجہ آصف نے حمایت کی تھی۔
چوہدری نثار نے مشرف کا ٹرائل نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا خواجہ آصف ٹرائل کے حامی تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ خواجہ آصف وہی کہتے ہیں جو نواز شریف چاہتے ہیں لہٰذا چوہدری نثار کی اصل لڑائی خواجہ آصف سے نہیں نواز شریف سے ہے۔ چوہدری صاحب صاف گوئی کے دعویدار ہیں لیکن حکمت کے تحت نواز شریف پر براہ راست تنقید سے گریز کرتے ہیں۔ کبھی مریم نواز کا نام لیتے ہیں کبھی خواجہ آصف کا نام لیتے ہیں۔ چوہدری نثار اگر واقعی ایک اصول پسند انسان ہیں تو نواز شریف کو خدا حافظ کہہ دیں اور2018کا الیکشن کسی اور جماعت کے ٹکٹ پر لڑیں یا پھر آزاد امیدوار بننے کی جرا?ت کریں۔
مریم نواز صاحبہ بھی مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کے وسائل استعمال کرکے فوج اور عدلیہ کے خلاف مزاحمت کے دعوے نہ کریں ان کا اصل امتحان اس وقت آئے گا جب وہ ریاستی وسائل کے بغیر الیکشن لڑیں گی اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے سرکاری اشتہارات کی طاقت ان کے پاس نہیں ہوگی۔ چوہدری نثار کو نواز شریف کے نام کے بغیر سیاست کرکے دکھانی ہے اور مریم نواز کو ریاستی اداروں کے وسائل اور طاقت کے بغیر سیاست کرکے دکھانی ہے۔ پتہ چل جائے گا کون کس کا جانثار ہے اور کون کتنے پانی میں ہے۔