اسلام آباد( آن لائن ) افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے بارے میں امریکی صدر کی متنازعہ پالیسی کے بعد دفترخارجہ نے کمر کس لی۔ عید کے بعد 7ستمبر کو سفراء کانفرنس کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوگا ، منتخب ممالک سے پاکستانی سفیروں کو وزارت خارجہ نے طلب کرلیا ، وزیر اعظم اجلاس کی صدارت کرینگے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیاء پالیسی میں پاکستان کی دی گئی دھمکیوں کے بعد امریکی صدر کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے اتحادی ممالک کے ساتھ رابطے جاری۔
ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ خواجہ آصف روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ لے رہے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے کہاہے کہ پاکستان نے امریکی صدر کے پالیسی کے اعلان کے بعد اتحادی ممالک کے ساتھ رابطے جاری ہیں۔وزیر خارجہ خواجہ آصف بہت جلد ترکی، روس ، چین اور خطے کے اتحادی ممالک کا دورہ کرینگے اور امریکی صدر کی پالیسی کے بارے میں مزاکرات کرینگے۔ امریکہ، برطانیہ، بھارت، افغانستان، چین،روس، ترکی، فرانس ، جرمنی اور مڈل ایسٹ سے منتخب ممالک سے پاکستانی سفیروں کو اسلام آباد طلب کرلیا گیا ہے ، اسلام آباد میں 7ستمبر کو اسلام آباد میں انوائے کانفرنس منعقد ہوگی اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اجلاس کی صدارت کرینگے۔جس میں خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال، افغانستان میں امن وامان کی صورتحال اور امریکی صدر کی پالیسی کے بارے بحث کی جائے گی اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اور امریکہ باہم رابطے میں ہیں اور افغانستان اور جنوبی ایشیاء کی پالیسی کے بعد باہمی مشاورت جاری ہے۔ سابق سفیروں نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرے گا، بلکہ درمیانی راستہ اختیار کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چونکہ اندرونی سیاسی خلفشار کا بھی شکار ہے اور آئندہ سال الیکشن بھی متوقع ہیں، لہذا موجودہ حکومت امریکہ کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار نہیں کرسکتی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے جمعرات کو روز ہفتہ وار بریفنگ میں اعتراف کیا کہ واشنگٹن اوراسلام آباد باہم رابطے میں ہیں اور تبادلہ خیال جاری ہے۔واضع رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکیوں کے بعد پاکستان نے پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے سخت ردعمل کااظہارکیااور اتحادی ممالک سے رابطے شروع کردیے۔ امریکی صدر کی پالیسی پر ملک بھر کے مظاہرے کیے گئے اور امریکی صدر کے پتلے اور پلے کارڈز کے ذریعے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ، مگر پاکستان نے ابھی پالیسی شفٹ کا فیصلہ نہیں کیا۔شمیم محمود