اسلام آباد (آئی این پی)سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان نے پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہوگا، رپورٹ کے کسی ایک حصے کو درست یا غلط کیسے قرار دیں ، تفتیشی رپورٹ نہیں سامنے آنے والے مواد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ سامنے آنے والے مواد ہی اصل چیز ہے۔ ہم جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ نہیں کریں گے۔
کوئی چیز خفیہ نہیں رکھنا چاہتے، ضرورت پڑی تو والیم 10 کھول دیں گے، تحقیقات اب ختم ہوچکی ہے جے آئی ٹی کو صرف دفتر خالی کرنے کی مہلت دی، اب جے آئی ٹی کی مزید دستاویزات نہیں آسکتیں، وزیراعظم کا کام تھا لندن فلیٹس کے ذرائع بتاتے، وزیراعظم نے تقریر میں کہا تھا وسائل کا ریکارڈ موجود ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ منی ٹریل آج تک ایک راز ہے۔ لندن فلیٹ کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہوگا، اصل بات منی ٹریل کا سراغ لگانا ہے، وزیراعظم نے اپنے خالو سے بھی لاتعلقی کا اظہار کردیا، دیکھنا ہوگا دستاویزات قانون شہادت کے مطابق ہیں یا نہیں،جے آئی ٹی کا مقصد شریف خاندان کو ایک اور موقع دینا تھا، جسٹس شیخ عظمت سعیدنے ریمارکس دیئے کہجے آئی ٹی جو بہتر سمجھتی تھی سفارش کردی سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیں فیصلہ عدالت کرے گی، ہم جے آئی ٹی سفارشات کے پابند نہیں، دیکھنا یہ تھا منروا کے ساتھ معاہدہ کس نے کیا تھا، یہ دستاویزات آج تک کسی نے پیش نہیں کیں، اصل مسائل شروع ہی یہاں سے ہوتے ہیں۔ منگل کو سپریم کورٹ میں پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے 20اپریل کے فیصلے میں تحقیقات کی سمت کا تعین کیا تھا۔ عدالت نے تحقیقات کے لئے 13 سوالات اٹھائے تھے جے آئی ٹی کو تحقیقات کرنے اور شواہد اکٹھے کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی کو پہلے سے موجود مواد کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔
نیب اور ایف آئی اے میں مختلف نوعیت کے مقدمات زیر التواء تھے۔ جے آئی ٹی نے تیرہ سوالات کی بجائے 15 کردیئے۔ جے آئی ٹی نے آمدن سے زائد اثاثوں کو بھی سوال بنا دیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا مزید جائیداد کی نشاندہی کرے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جو مقدمات ختم ہوچکے تھے ان کی جانچ پڑتال بھی کی گئی۔ عدالت نے بھی کسی کیس کی دوبارہ تحقیقات کا حکم نہیں دیا تھا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل دائر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ تیرہ سوالات کی روشنی میں حدیبیہ پیپر ملز دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ لندن فلیٹ پہلے مقدمات کا بھی حصہ رہے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ختم مقدمات کو دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تمام مقدمات کا ایک دوسرے سے تعلقا تھا۔ تمام مواد کا جائزہ لئے بغیر تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکتیں منی ٹریل آج تک ایک راز ہے۔ لندن فلیٹ کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہوگا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے ہونے والی شخصیات کا تیرہ سوالوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل بات منی ٹریل کا سراغ لگانا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کو مقدمات کھولنے کی سفارش کا اختیار نہیں تھا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی جو بہتر سمجھتی تھی سفارش کردی سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیں فیصلہ عدالت کرے گی۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ رپورٹ کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہوگا۔
عدالت نے کہا اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر رائے نہیں دینا چاہتے۔ 184/3 کے مقدمات میں عدالت پہلے کئی بار حکم جاری کرچکی ہے۔عدالتنے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کرنی ہے یا نہیں فیصلہ ٹرائل کورٹ کرے گی۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ رپورٹ کے کسی ایک حصے کو درست یا غلط کیسے قرار دیں۔ وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کو حدیبیہ پیپر ملز کھولنے کی سفارش کا اختیار نہیں تھا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی بات ہم نے سن لی اور نوٹ بھی کرلی وکیل نے کہا کہ شریف خاندان کے خلاف مقدمات کی تمام تفصیلات طلب کی گئیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت خود بھی اپنے حکم سے باہر نہیں جاسکتی جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم نظر ثانی کی درخواست نہیں سن رہے خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے آمدن سے زیادہ ہوں تو بھی صفائی کا موقع ملتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہی بات تو ہم ایک سال سے کررہے ہیں۔
ہمیں تو منی ٹریل اور ذرائع آمدن کا پہلے دن سے انتظار ہے۔ وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی فریق سے دستاویزات پر وضاحت ہی نہیں مانگی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ اپنا جواب ہمارے پاس دے دیں۔ آپ نے اپنے جواب میں کسی دستاویز کی تردید نہیں کی۔ جے آئی ٹی نے سفارش کردی تو کیا برا کیا جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے صرف سفارش کی ہے حکم نہیں دیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کی سفارش سے زیادہ عدالت کا حکم اہم ہوگا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت چاہے تو معاملے پر از خود نوٹس لے سکتی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تمام مقدمات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ہر مقدمے کا ریکارڈ منگوا کر الگ جائزہ لے۔ کسی مقدمے کا تیرہ سوالات سے تعلق نہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم جے آئی ٹی سفارشات کے پابند نہیں۔ 184/3 میں جے آئی ٹی نہیں عدالت حکم دے سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ تفتیشی رپورٹ نہیں سامنے آنے والے مواد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ سامنے آنے والے مواد ہی اصل چیز ہے۔ ہم جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ نہیں کریں گے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے آخر کیا ہی کیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حسن ‘ حسین اور مریم کو طلب کیا گیا۔ نواز شریف سمیت سب نے کہا ہمیں کچھ نہیں پتا جے آئی ٹی کو کہا گیا ہمارے کائونٹنٹ کو پتا ہوگا۔ اتنے مواقع دینے پر بھی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔
منی ٹریل سمیت کوئی دستاویز نہیں دی گئیں۔ نواز شریف نے جے آئی ٹی کو کہا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے قطری خطوط بھی نہیں دیکھے۔ خواجہ حارث نے کہا کسی دستاویز کی وضاحت نہیں مانگی گئی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ وزیراعظم نے صاف کہہ دیا انہیں کچھ علم نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ گلف اسٹیل ملز سے متعلق شریف خاندان کے بڑوں سے سنا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی دستاویزات کا بھی واضح جواب نہیں دیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کے بچوں کا موقف تھا ہمیں کچھ نہیں پتا۔ وزیراعظم اور ان کے بچے کہتے تھے ہم کچھ نہیں مانتیں گے۔ بچوں نے کہا جے آئی ٹی خود تلاش کرے۔ وزیراعظم نے اپنے خالو سے بھی لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کے خالو کا چالیس سال پہلے انتقال ہوا تھا 1995 سے وزیراعظم کاروبار سے تعلق ہوگئے تھے۔ وزیراعظم کی تنخواہ والے معاملے پر ابھی بات نہیں کروں گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میرے آمدن گوشواروں میں موجود ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ان کے اور ثاثے ہیں تو سامنے لائیں جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف نہیں۔ وزیراعظم سے دستاویزات پر موقف نہیں لیا گیا۔ عدالت ایسی رپورٹ پر حکم ہی نہیں جاری کرسکتی۔ جے آئی ٹی نے کہا 27ملین وزیراعظم کو پارٹی سے واپس ملے۔ وزیراعظم سے یہ سوال پوچھا ہی نہیں گیا۔ ریکارڈ کے مطابق 100ملین نہیں 145 ملین پارٹی کو دیا گیا۔ 45 ملین روپے قرضہ تھا۔
100ملین چندہ دیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت جب چاہے تمام دستاویزات کا جائزہ لے سکتی ہے۔ وزیراعظم سے ایف زیڈ کمپنی سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کہا جاتا ہے گھر میں ہر بات ہوتی ہے صرف کہا گیا لندن فلیٹس کس کی ملکیت ہے علم نہیں۔ وزیراعظم نے کہا فلیٹس حسن یا حسین کی ملکیت ہیں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دستاویزات سے ثابت ہے سو ملین پارٹی کو چندہ دیا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ہل میٹل سے آمدن کا گوشواروں میں ذکر ہے۔ ایف زیڈ ای کے مالک نوز شریف ہیں نہ کبھی تنخواہ لی۔ ایف زیڈ ای حسن نواز کی ملکیت ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ حسن نواز کا وزیراعظم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وزیراعظم حسن کے والد اور ایف زیڈ ای کے چیئرمین نہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا وزیراعظم نے اقامہ نہیں لیا تھا؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جو باتیں جے آئی ٹی نے نہیں پوچھیں تھیں آج ہم نے پوچھ لیں۔
کیا وزیراعظم کا سعودی بینک میں اکائونٹ ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کا الراجی بینک میں اکائونٹ موجود ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ رپورٹ کا والیم 10 سیل کیوں ہے معلوم نہیں۔ رپورٹ میں لکھا ہے قانونی مدد کی درخواست کس ملک کو کب کی گئی۔ والیم نمبر10 میں شواہد نہیں آپ اعتراض کریں گے تو ہم والیم 10کو بھی کھول دیں گے شاید آپ کی وجہ سے ہی والیم نمبر10 کو بند رکھا گیا ہو۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کل بھی کہا تھا کوئی چیز خفیہ نہیں رکھنا چاہتے۔
ضرورت پڑی تو والیم 10 کھول دیں گے۔ تحقیقات اب ختم ہوچکی ہے جے آئی ٹی کو صرف دفتر خالی کرنے کی مہلت دی خواجہ حارث نے کہا کہ اب کوئی دستاویزات جمع ہوئی تو تحقیقات مکمل کیسے ہوئی؟ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اب جے آئی ٹی کی مزید دستاویزات نہیں آسکتیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوئٹزر لینڈ اور دیگر ممالک ساٹھ دن دیڈ لائن کے پابند نہیں جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اگر بیرون ملک سے دستاویزات آئیں تو آپ کو دے دیں گے۔
جے آئی ٹی کو کہا تھا کچھ آئے تو عدالت کو دیا جائے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آمدن میں زائد اثاثوں میں دوسرا ریفرنس بھی دائر ہوسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں۔ عدالت نے کہا کہ کیا اس بنیاد پر دستاویزات تسلیم نہ کرے کہ حکومت نے نہیں دیں؟ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیا اس بنیاد پر دستاویزات کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ غیر ملکی حکومت کو دستاویزات کے حصول کے لئے درخواست کی جاسکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون میں لفظ غیر ملکی حکومت کی تعریف نہیں کی گئی۔ عدالت نے کہا کہ نیب قانون کہتا ہے حکومتی زیر اثر ادارے‘ افراد ہی حکومتی زمرے میں آتے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ قانونی معاونت افراد نہیں ریاست کے درمیان ہوتی ہے۔ وفاقی حکومت یا نامزد ادارہ قانونی معاونت کا معاہدہ کرسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانونی معاونت کے معاہدے کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
دیکھنا ہوگا دستاویزات قانون شہادت کے مطابق ہیں یا نہیں۔ وکیل نے کہا کہ سفارتخانے کی تصدیق کے بغیر دستاویزات کو درست نہیں مانا جاتا۔ عدالت نے کہا کہ دستاویزات اصل ہوں تو سفارتخانے کی تصدیق ضروری نہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سری لنکا کے ایک ریسٹورنٹ کا نام منسٹری آف کریب ہے۔ عدالت نے کہا کہ کیکٹروں کی وزارت کے خط کا جواب یہاں کونسی وزارت دے سکتی ہے؟ وکیل نے کہا کہ نجی فرم سے حاصل دستاویزات کی متعلقہ حکومت سے تصدیق ضروری ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ قانونی مدد کے بغیر ملنے والی دستاویز کی کوئی اہمیت نہیں؟ عدالت نے کہا کہ ایسی دستاویزات کو پاکستان لانے کے طریقہ کار کو مسترد کیا جاسکتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ قانون کے مطابق ایسی دستاویزات مسترد کی جاتی ہیں جے آئی ٹی نے دستاویزات کا حصول نجی فرم کے ذریعے کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سعودی اور برطانوی نجی فرم نے دستاویزات فراہم کیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ تصدیق کے بغیر کوئی دستاویزات قابل قبول نہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکتا۔ دستاویزات فراہم کرنے والے گواہ کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کو مکمل تحقیقاتی رپورٹ نہیں کیا جاسکتا جے آئی ٹی رپورٹ عدالت کے باہر پھینکنے کے قابل ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ رپورٹ کے کسی حصے کی تردید بھی نہیں کی گئی۔ تمام اثاثوں کو تحقیقات کے دوران تسلیم کیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم‘ مریم ‘ حسن نے کہا تھا دستاویزات پیش کریں گے۔
ثبوت فراہم کرنے کا خود شریف خاندان نے کہا تھا تاحال واضہ نہیں کیا گیا پیسہ کہاں سے آیا۔ جے آئی ٹی کا مقصد شریف خاندان کو ایک اور موقع دینا تھا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دیکھنا یہ تھا منروا کے ساتھ معاہدہ کس نے کیا تھا۔ یہ دستاویزات آج تک کسی نے پیش نہیں کیں۔ اصل مسائل شروع ہی یہاں سے ہوتے ہیں۔ حسین نواز کے فلیٹ کے مالک ہونے کا ایک بھی دستاویز نہیںدیا گیا۔ عدالت میںصرف ٹرسٹ ڈیڈ پیش کی گئی ملکیت کے بغیر ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی اہمیت نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ثبوت عدالت کو نہیں تو جے آئی ٹی کو ہی فراہم کردیتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے تمام دستاویزات دینے سے انکار کیا خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت تقریر میں تضاد پر کوئی حکم جاری نہیں کرسکتی۔ عدالت اپنے ہی حکم پر نظر ثانی نہیں کرسکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مزید اطمینان کے لئے آپ کو موقع فراہم کیا تھا آپ دستاویزات نہیں دیں گے تو کوئی اور نکال لائے گا۔ ہم نے آپ کے لئے دروازے بند نہیں کئے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویزات وزیراعظم کو کیوں نہیں دکھائے گئے۔ عدالت نے کہا کہ وزیراعظم خود دستاویزات دینے کے بیان سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالتی احکامات میں ایسا کچھ نہیں تھا وزیراعظم کے اثاثے آمدن سے زیادہ تھے تو جے آئی ٹی بتاتی۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ وزیراعظم کا کام تھا لندن فلیٹس کے ذرائع بتاتے عدالت نے کہا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے وقت بچوںکی آمدن نہیں تھی۔
جسٹس اعجاز افضل خاننے کہا کہ وزیراعظم نے تقریر میں کہا تھا وسائل کا ریکارڈ موجود ہے عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے معاملہ احتساب عدالت کو بھیجنا ہے یا خود فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ یہاں دستاویزات سے ثابت کریں یا ٹرائل کورٹ میں ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سارے ثبوت شریف خاندان پر ہی ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے نواز شریف سے یہ نہیں پوچھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک سال سے پوچھ رہی ہے اب بتا دیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت موقع دے گی تو ضرور بتائوں گا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ حکم جاری کرنے سے پہلے ہی کسی فورم نے تو ہمیں سننا ہے جرح کے بغیر دستاویزات تسلیم ہوسکتے ہیں نہ حکم جاری ہوسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ کے مطابق جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا؟ آپ کا ایک جواب سارا معاملہ ختم کرسکتا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے خود کہا لندن فلیٹس ہمارے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا تھا وہ خود وضاحت دیںگے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم نے کبھی یہ نہیںکہا وہ فلیٹس کے مالک ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم کو وضاحت کا موقع نہیں دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب وضاحت دے دیں ہم سننے کو تیار ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وضاحت تحریری صورت میں جمع کرائوں گا تحقیقاتی رپورٹ کو بطور ثبوت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔