اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے اپنے کزن کا انتخاب کیوں کیا؟ واجد ضیاء نے ایسا جواب دیدیا کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا، تفصیلات کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء نے تسلیم کیا ہے کہ برطانیہ میں جس لاء فرم کی خدمات حاصل کیں وہ ان کے کزن کی ہی ہے۔ واجد ضیاء نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس لاء فرم کی خدمات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران سے مشورے،
اپیکس کورٹ کے حکم کے مطابق اور ایجنسیز کی جانب سے کلیئر کرنے کے بعد حاصل کی گئیں۔ ایک نجی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس لاء فرم کی نیک نامی، پیشہ ورانہ موافقت کو دیکھتے ہوئے ان کی خدمات حاصل کی گئیں اور فیس میں بھی کمی کرائی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اختر راجہ میرا فرسٹ کزن ہے اور برطانیہ لاء فرم ’Quist Solicitors‘ اس کی ہے۔ مذکورہ لاء فرم کی خدمات کیوں حاصل کی گئیں اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے پاس مشکل کام کرنے کے لیے وقت کی کمی تھی، اس لئے اپیکس کورٹ سے عام حکومتی طریقہ کار اور رسمی کارروائیوں سے متعلق استثنیٰ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جو وقت ضائع کرنے کا باعث تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام حکومتی طریقہ کار کے تحت غیرملکی یا مقامی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اشتہار دینا پڑتا ہے، جس کے بعد درخواستوں کی وصولی ہوتی ہے اس کے بعد پارٹیوں کی شارٹ لسٹنگ کی جاتی ہے اور پھر اہل اتھارٹی سے منظوری لینا پڑتی ہے یہ سب ایک لمبا چوڑا عمل ہوتا ہے۔ واجد ضیاء نے مزید کہا کہ سست اور وقت طلب طریقہ کار کے علاوہ، عام حالات میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی ہر کارروائی کے بارے میں معلوم ہوتا اور اس وجہ سے راز داری کا عنصر جو کامیاب تحقیقات کا حصہ ہے، ختم ہو جاتا اور پھر تحقیقات کے ساتھ ہی سمجھوتہ ہو جاتا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے مطابق ان ہی وجوہات کے تحت جے آئی ٹی نے عملدرآمد بینچ کے معزز ججز سے درخواست کی کہ جے آئی ٹی کو رسمی کارروائیوں سے مستثنیٰ کیا جائے۔ 11 مئی 2017ء کو عدالت نے اپنے فیصلے کے تحت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر سمجھا۔ اس کے علاوہ ٹیم کے سربراہ ہونے کے ناتے کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اضافی اختیارات بھی دے دیے۔
انہوں برطانوی لاء فرم کے بارے میں کہا کہ جے آئی ٹی کو قانونی معاملات کے لیے برطانوی فرم کے قانونی ماہرین کی مدد اور رائے درکار تھی، اس معاملے میں جے آئی ٹی کے تمام ممبران میں مناسب فرم کے بارے میں بات چیت ہوئی کہ کیسے مناسب فرم کا انتخاب کیا جائے جو نہ صرف نیک نام ہو بلکہ راز داری کے معاملے پر بھی اس پر اعتبار کیا جا سکے، واجد ضیاء نے بتایا کہ گفتگو کے دوران ہی انہوں نے رائے دی کہ ان کے کزن اختر راجہ جو کہ قابل اور جانے پہچانے وکیل ہیں ان کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
واجد ضیاء نے مزید کہا کہ میں آغاز میں ہی بتا دیا تھا کہ اختر راجہ میرے فرسٹ کزن ہیں اس کے علاوہ میں نے ممبران سے بالخصوص انٹیلی جنس ایجنسیز سے اختر راجہ کی سیکیورٹی کلیئرنس حاصل کرنے اور ان کی قانونی حیثیت سے متعلق معاملات دیکھنے کو کہا، انہوں نے انکشاف کیا کہ جب انہوں نے فیس مانگی تو میں نے انٹیلی جنس ایجنسی سے تعلق رکھنے والے جے آئی ٹی ممبرز سے ریٹ کنفرم کرنے کی درخواست کی۔
تمام تر تصدیق اور انٹیلی جنس ایجنسیز سے مثبت رپورٹس ملنے کے بعد میں نے اختر راجہ سے فیس کم کرنے کو کہا جس پر انہوں نے اپنی فیس 35 فیصد کم کر دی۔ واجد ضیاء نے مزید کہا کہ حالات کو دیکھتے ہوئے تمام کام چند دنوں میں مکمل کر لیا گیا، لاء فرم کی کارکردگی کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے واجد ضیاء نے کہا کہ انہوں نے فزانزک ماہر رابرٹ ڈبلیو ریڈلے سے ماہرانہ رائے حاصل کرنے میں بھرپور مدد کی، اس کے ساتھ ساتھ اس لاء فرم نے ہمیں قانونی رائے دی۔