اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان نے سعودی فوجی اتحاد میں باضابطہ طور پر شمولیت کے لیے نئی شرائط سامنے لانے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ پاکستان کی طرف سے اِس فوجی اتحاد کو الوداع کہنے پر کسی کومنفی ا قدام کا تاثر نہ ملے اور پاکستان کے ہمسایہ اسلامی ملک ایران کے ساتھ بھی تعلقات پر بھی کوئی آنچ نہ آئے یعنی کہ پاکستان کی طرف سے اِس فوجی اتحاد میں شمولیت کے لیے آخری حد کھینچ دی گئی ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس 41 رکنی ممالک فوجی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں اہم ردعمل سامنے آیاہے
جب پاکستان نے اپنے سابق آرمی چیف کو اس اتحاد کی سربراہی کے لیے رواں سال اپریل میں اجازت نامہ جاری کرچکاہے۔پاکستانی حکام کا اس کے بارے میں کہنا ہے کہ ابھی تک پاکستان نے سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والے اِس فوجی اتحاد میں شمولیت کا کوئی فیصلہ نہیںکیاہے ۔ پاکستان اس فوجی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں اس وقت سوچنے پر مجبور ہوا جب ریاض میں گزشتہ دنوں ہونے والی امریکہ سعودی عرب کانفرنس کے دوران سعودی حکام نے بیانات جاری کیے کہ یہ اتحاد ایران کا مقابلہ کرنےاور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کا شروع سے ہی اس حوالے سے یہ اصولی موقف رہا ہے کہ اس اتحاد میں صرف اس صورت میں شمولیت اختیار کی جائے گی اگر یہ اتحاد صرف دہشتگردی کے خلاف کے لیے تشکیل دیا گیا۔ حکام کے مطابق سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کے لیے رہنما اصول یعنی ٹی اور آرز اس اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے والے ممالک کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں طے کر لیے گئے ہیں۔ سعودی فوجی اتحاد کے بارے میں ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدار نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے مزیدپیش رفت کے بارے میں بتایا کہ پاکستان ریاض میں ہونے والی آئندہ وزرائے دفاع کے اجلاس میں اپنی حتمی تجاویز پیش کرے گا۔
اس اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ سعودی فوجی اتحاد کا واضح مقصد بنایا جائے کہ آیا یہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے؟۔ اگر اس مقصد سے ہٹ کر یہ اتحاد بنایا جا رہا ہے تو ایک طرف اِس اتحاد کی تشکیل پر انگلیاں اْٹھیں گی اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں مزید دوریاں پیدا ہونگی۔ اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ ” ہمارا اس حوالے سے نقطہ نظر بالکل واضح ہے اور حکومت اپنے موقف پر قائم ہے” ۔دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا بھی اس حوالے سے یہ کہنا تھا کہ پاکستان نے ابھی سعودی اتحاد میں شمولیت کا حتمی فیصلہ کرنا ہےاور اس اتحاد میں شمولیت ٹی او آرز فائنل ہونے کے بعد کیا جائے گا جو کہ ابھی تک سعودی عرب اور اس اتحاد کے دیگر رکن ممالک نے فائنل نہیں کیے ہیں اور سعودی اتحاد کے ٹی او آرز سامنے آنے کے بعد اتحاد میں شمولیت کے بارے میں پاکستان فیصلہ کرے گا، نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ کسی کو اِس حوالے سے مفروضات پر بات نہیں کرنی چاہیے۔حکومت پاکستان اس فوجی اتحاد کے بارے میں پہلے ہی عوام کو مطلع کو چکی ہے کہ اگر یہ اتحاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے علاوہ دیگر مقاصد جن میں ایران کو نشانہ بنانا بھی ہے ایسی صورت میں اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بھی اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشکیل پانے والے اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس سے قبل سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے سے پہلے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس اتحاد کی سربراہی صرف اس صورت میں کریں گے یہ صرف دہشتگردی کے خلاف ہو ناکہ کسی مخصوص اسلامی ملک کے خلاف۔پاکستان کا اسی حوالے سے موقف بھی واضح ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے گا اور پاکستان یہ تجویز بھی دے چکا ہے کہ اس اتحاد میں ایران کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ تاہم تمام کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی ہیں
جب تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان علاقائی جھگڑے بالخصوص خلیجی ممالک میں جاری جنگ ختم نہ ہو جائے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں حکومت کو یہ مشورہ دے چکی ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جھگڑے میں پاکستان کا کردار نیوٹرل ہو۔ حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کئی دہائیوں سے جاری قریبی تعلقات کے باوجود پاکستان اس فوجی اتحاد سے علیحدہ بھی ہو سکتا ہے۔