کالج میں میرے ساتھ ایک بغلول قسم کا لڑکا ہوتا تھا‘ ہم سب نالائق تھے مگر وہ نالائقی میں ہمارا بھی استاد تھا‘ پورے کالج کی متفقہ رائے تھی قسمت کی دیوی کسی اندھے‘ لنگڑے یا لولے پر مہربان ہو سکتی ہے مگر اس کی نظر اس بغلول پر نہیں پڑ سکتی لیکن وقت نے ہمیں غلط ثابت کر دیا اور یہ بغلول عملی زندگی میں ہم سب سے آگے نکل گیااور کھرب پتی ہو گیا‘ میں نے ایک دن اس سے اس کام یابی کی وجہ پوچھی تو اس کا جواب تھا کالج سے نکلنے کے بعد میں نے یونیورسٹیاں تلاش کرنا شروع کیںلیکن کسی یونیورسٹی نے مجھے لفٹ نہ کرائی‘ میں نے مایوس ہو کر اعلیٰ تعلیم کا ارادہ ترک کر دیا اور گائوں واپس آ کر حرام خوری کا لطف اٹھانے لگا‘ میں نے دو سال کچھ نہیں کیا لیکن پھر خاندان اور گائوں والوں کا دبائو بڑھ گیاتو میں نے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ آپ یقین نہیں کرو گے مگر مجھے بزنس دنیا کا آسان ترین کام محسوس ہوتاتھا‘ مجھے لگتا تھا میں یہ کام آسانی سے کر جائوں گا چناں چہ میں نے آڑھت کا کام شروع کر دیا‘ چار پیسے اکٹھے ہوئے تو جنرل سپلائر بن گیا‘ میں نے اس کے بعد ٹھیکے داری سٹارٹ کر دی‘
اس سے پیسے اکٹھے ہوئے تو چھوٹی سی فیکٹری لگا لی‘ وہ کام یاب ہو گئی تو جرمنی سے ٹیکسٹائل یونٹس امپورٹ کر کے فیصل آباد میں بیچنا شروع کر دیے اور یوں آہستہ آہستہ آگے بڑھتا چلا گیا‘ میں نے اس سے پوچھا‘ بزنس ایک خالص ٹیکنیکل کام ہوتا ہے جب کہ تم سدا کے نالائق ہو‘ تم نے بزنس کی تکنیکس کہاں سے سیکھیں؟ اس کا جواب حیران کن تھا‘ اس کا کہنا تھا بزنس سپورٹس کی طرح ٹیم ورک ہوتا ہے اگر تم کیپٹن یا کوچ کی طرح اچھی ٹیم بنا لو تو تم کام یاب ہو جائو گے‘ میں نے شروع میں ہی سیکھ لیا تھا مجھے کارآمد ملازم چاہییں لہٰذا میں کارآمد اور باصلاحیت لوگ جمع کرتا رہا اور یہ لوگ مجھے کما کر دیتے رہے‘ میں نے پوچھا ’’مثلا‘‘ اس کا جواب تھا مثلاً فرض کرو تمہیں کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ چاہیے اور تمہارا پورا بزنس اس پر ڈیپینڈ کرتا ہو تو تم کیا کرو گے‘ کیا تم پرانا یا سستا کمپیوٹر خریدو گے؟ میں نے فوراً جواب دیا’’ میں اگر افورڈ کر سکتا ہوں تو میں بیسٹ لوں گا‘‘ اس کا جواب تھا‘ بزنس میں ہیومین ریسورس کے لیے بھی یہی اپروچ ہونی چاہیے‘ لوگ آپ کو کما کر دیتے ہیں‘ آپ اگر افورڈ کر سکتے ہو تو مارکیٹ سے سب سے بہترین شخص چوز کرو‘ وہ تمہیں کما کر دے گا اور اس سے تمہارے بزنس میں اضافہ ہو گا‘میں نے کارآمد‘ لائق اور تجربہ کار لوگوں کا انتخاب کیا اور یوں میں کام یاب ہوتا چلا گیا۔
میں نے اس سے پوچھا ’’اور تمہیں کیسے پتا چلا تم بزنس کر سکتے ہو؟‘‘ اس کا جواب تھا’’ دنیا میں چار چیزیں انتہائی آسان ہیں‘ کام یابی‘بزنس‘ پرسنیلٹی اور سمارٹ نیس‘ یہ چاروں کام دنیا میں سب سے آسان ہیں لیکن لوگ انہیں مشکل سمجھتے ہیں جب کہ مشکل کام ناکام رہنا‘ ملازمت کرنا‘ مستقل بیمار رہنا اور جسمانی طور پر بھدا ہونا ہوتا ہے مگر دنیا کے 95 فیصد لوگ یہ مشکل کام آسانی سے کرتے ہیں‘ آپ کو میری بات عجیب محسوس ہو گی لیکن آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں اگر ایک کام دنیا کے ہر حصے میں لاکھوں کروڑوں لوگ روزانہ کر رہے ہوں تو وہ کام آسان ہو گا یا مشکل؟ یقینا آپ کا جواب ہو گا ’’آسان ہو گا‘‘ اور دنیا میں روزانہ لاکھوں لوگ کام یاب ہوتے ہیں‘لاکھوں لوگ کاروبار کرتے ہیں‘ لاکھوں کروڑوں لوگ بیماریوں کا مقابلہ کر کے صحت یاب بھی ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنا وزن کم کر کے سمارٹ بھی ہو رہے ہوتے ہیں چناں چہ جو کام دنیا بھر میں روزانہ ہو رہے ہیں تو پھر وہ مشکل کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں بزنس چھوڑ کر ملازمت میں آنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے‘ لوگ کاروبار میں ناکام ہو کر ملازمت کرتے ہیں لیکن یہ بہت جلد جاب چھوڑ کر واپس کاروبار شروع کردیتے ہیں اور کام یاب ہو جاتے ہیں‘ دنیا میں کوئی شخص بیمار بھی نہیں ہونا چاہتا‘ ہر شخص صحت کے معاملے میں محتاط ہوتا ہے‘
بیمار شخص سے گھر والے بھی پرہیز کرتے ہیں‘ ناکام لوگ بھی پورے شہر‘ پورے محلے کے لیے نشان عبرت ہوتے ہیں اوربھدا ‘موٹا اور بے ڈھنگا جسم لے کر پھرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا لیکن دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو یہ مشکل کام آسانی کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں‘ کتنے لوگ ہیں جو موٹاپے کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں‘ کتنے لوگ ہیں جو ناکام ہیں اور کام یابی کے لیے کوشش نہیں کر رہے‘ کتنے لوگ بیمار ہیں اور یہ بیماری سے چھٹکارے کے لیے کوشش نہیں کر رہے ہیں اور کتنے لوگ ہیں جو بزنس کا آپشن ہوتے ہوئے بھی ملازمت کر رہے ہیں؟آپ کو اپنے دائیں بائیں بے شمار ایسے لوگ نظر آئیں گے‘ اب اگلا سوال ہے اگر کام یابی‘ بزنس‘ صحت اور سمارٹ نیس آسان ہے تو پھر ہم لوگ یہ آسان کام کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب بھی بہت آسان ہے‘ فرض کریں آپ ڈرائیونگ سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کیسے سیکھیں گے؟ آپ ڈرائیونگ کے بارے میں معلومات لیں گے‘ ڈرائیوروں اور گاڑی کا مشاہدہ کریں گے‘ ڈرائیونگ ٹیچر کا بندوبست کریں گے اور آخر میں پریکٹس کریں گے اور یوں آپ ایک دو ماہ میں اچھے ڈرائیور بن جائیں گے‘
کام یابی کے لیے بھی یہی فارمولا ہے‘ آپ پہلے فیلڈ کا تعین کریں‘ فرض کریں آپ کام یاب صحافی بننا چاہتے ہیں لہٰذا آپ کو شروع میں صحافت کے بارے میں مکمل معلومات جمع کرنا ہوں گی‘ اس کے بعد آپ کو کام یاب صحافیوں کا تعین کر کے ان کا مشاہدہ کرنا ہو گا اور پھر اس کے بعد کسی ایک کو اپنا استاد بنانا ہو گا اور آخر میں پریکٹس آپ کو پرفیکٹ بنائے گی‘ آپ جتنی پریکٹس کرتے جائیں گے آپ اتنے ہی پرفیکٹ ہوتے جائیں گے‘ اب آپ فرض کریں آپ بزنس مین بننا چاہتے ہیں تو فارمولا وہی ہے‘ آپ پہلے بزنس کا تعین کریں‘ پھر اس کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کریں‘ اس فیلڈ کے کام یاب لوگوں کا مشاہدہ کریں‘ کسی ایک کو اپنا استاد بنا ئیں اور اس سے ڈرائیونگ کی طرح بزنس سیکھنا شروع کر دیں اور آخر میں پریکٹس آپ کو بہتر سے بہتر بناتی چلی جائے گی‘ اسی طرح فرض کریں آپ کو شوگر کا مرض ہے توآپ کو سب سے پہلے اس مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوں گی‘ یہ کیوں ہوتی ہے‘ کب سے ہو رہی ہے‘ کون کون سی خوراک میں کارب زیادہ ہوتے ہیں اور یہ کارب جسم کے اندر جا کر کیا کرتے ہیںاور آپ کی شوگر کس کھانے سے بڑھ جاتی ہے؟ آپ اس کے بعد ان مریضوں کو دیکھیں جو شوگر کے باوجود شان دار اور صحت مند زندگی گزار رہے ہیں‘ آپ ان کا مشاہدہ کریں ‘
اس کے بعد ان میں سے کسی ایک کو اپنا استاد بنا لیں‘ اس سے ایڈوائس لیں اور اس ایڈوائس پر عمل کرتے جائیں ‘ آپ کی شوگر کنٹرول ہوتی چلی جائے گی اور اسی طرح اگر آپ کا وزن زیادہ ہے یا آپ کا جسم بے ڈھنگا ہے تو آپ پہلے موٹاپے کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں‘ اس کے بعد ایسے لوگ تلاش کریں جنہوں نے موٹاپے سے جان چھڑا لی تھی‘ ان لوگوں کے معمولات کا مشاہدہ کریں‘ ڈیٹا جمع کریں‘ ان میں سے کسی کو اپنا استاد بنا لیں اور آخر میں وزن کم کرنے کے طریقوں میں سے کسی ایک کی پریکٹس شروع کر دیں‘ آپ دنوں میں سمارٹ ہو جائیں گے‘ آپ یہ یاد رکھیں دنیا بھر میں لاکھوں لوگ روزانہ اپنا وزن کم کر رہے ہیں‘ یہ سمارٹ ہو رہے ہیں‘ لاکھوں لوگ روزانہ بیماریوں کو شکست دے کر صحت یاب ہو رہے ہیں‘ لاکھوں لوگ ملازمتیں چھوڑ کر بزنس سٹارٹ کرتے ہیں اور روزانہ خوش حال ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ ناکامی سے کام یابی کی طرف سفر کرتے ہیں لہٰذا یہ کام مشکل نہیں ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے پوچھا ’’اور استاد کہاں سے ملیں گے؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’ سوشل میڈیا نے اب استادی آسان کر دی ہے‘ آپ یوٹیوب‘ فیس بک یا گوگل پر جائیں اور وہاں ڈائیٹ کنٹرول‘ ویٹ لاس‘ سکسیس فل پیپل اور بزنس سٹارٹ اپس ٹائپ کریں اور اس کے بعد کمال دیکھیں‘ آپ کے سامنے سینکڑوں مثالیں آ جائیں گی‘ آپ ان میں سے دو تین لوگوں کا انتخاب کر لیں‘ آپ ان کی کتابیں پڑھیں‘ ان کے انٹرویوز دیکھنا شروع کر دیں یا ان سے متعلق دوسرے لوگوں کی رائے سن لیں آپ کو پورا فارمولا مل جائے گا‘ آپ اس کے بعد پریکٹس شروع کر دیں اور پھر معجزہ دیکھیں‘ سوشل میڈیا نے کام یابی‘ کاروبار‘ صحت اور سمارٹ نیس کو بہت آسان کر دیا ہے‘ میں جس جم میں جاتا ہوں وہاں ایک خاتون ایکسرسائز کرتی ہیں‘ انہیں چند سال قبل پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا تھا اور یہ بستر کے ساتھ لگ گئی تھیں لیکن پھر انہوں نے یوٹیوب پر پھیپھڑوں کے کینسر کو شکست دینے والے لوگوں کی ویڈیوز دیکھنا شروع کردیں‘ ان کی ٹپس ڈائری میں لکھیں‘ ایکسرسائز سٹارٹ کی اورپھر انہوں نے نہ صرف دو سال میں کینسر کو شکست دے دی بلکہ یہ اب ہم سب سے زیادہ ایکسرسائز کرتی ہیں اگر یہ کرسکتی ہیں تو باقی لوگ کیوں نہیں کرتے؟ میرا خیال ہے زیادہ تر لوگ آسان کاموں کو مشکل سمجھ بیٹھے ہیں‘‘۔