فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے اسے بلایا‘ شعر سنے اور وعدہ کیا تم جب شاہ نامہ مکمل کر لو گے تو میں تمہیں ہر شعر کے عوض سونے کی ایک اشرفی دوں گا‘ فردوسی خوش ہو گیا‘ اس نے دن رات ایک کر کے شاہ نامہ مکمل کیا اور اسے گھوڑے پر لاد کر غزنی پہنچ گیا‘ اس دن بادشاہ کا موڈ خراب تھا‘ اس نے فردوسی کو چاندی کے 20 ہزار سکے دے کر ٹرخا دیا‘اس کا دل ٹوٹ گیا‘ وہ سیدھا حمام میں گیا۔
مساج کرایا اور 20 ہزار سکے مالشیے کو دے کر طوس واپس آ گیا اور باقی زندگی محمود غزنوی کی ہجو میں گزار دی‘ اللہ کی کرنی یہ ہوئی محمود غزنوی ایک بار ہندوستان کی مہم سے واپس آ رہا تھا‘ راستے میں اسے کسی مصاحب نے ایک شعر سنا دیا‘ وہ شعر سے انتہائی متاثر ہوا اور پوچھا یہ کس کی تخلیق ہے؟
مصاحب نے بتایا اس کا خالق فردوسی ہے‘ محمود غزنوی کو اپنا وعدہ یاد آ گیا‘ وہ بہت نادم ہوا اور اس نے اسی وقت 80 ہزار سونے کے سکے گھوڑوں پر لدوائے اور طوس بھجوا دیے لیکن غزنوی کی رقم فردوسی کے نصیب میں نہیں تھی‘ سونے سے لدے وہ گھوڑے جب طوس پہنچے تو شہر کے دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ نکل رہا تھا۔
فردوسی کا مقبرہ طوس شہر کے قدیم حصے میں ایک بڑے باغ میں قائم ہے‘ شہر میں داخل ہوتے ہی فردوسی اور ہارونیہ کے سائن بورڈ نظر آنے لگتے ہیں‘ مقبرہ شان دار ہے اور یہ ایران کی قدیم عمارتوں کی طرح چکور ہے‘ شاہ نامہ کے اشعار مقبرے کی سنگی سلوں پر کندہ ہیں‘ عمارت کے ساتھ سیڑھیاں تہہ خانے میں اترتی ہیں‘ فردوسی کی قبر ’’بیسمنٹ‘‘ میں ہے۔
پورا کمپلیکس ستونوں پر کھڑا ہے جو اس کی مضبوطی کی دلیل ہے‘ قبر کے ساتھ ساتھ دیواروں پر شاہ نامہ کے مختلف کردار پینٹ ہیں‘ رستم اور سہراب کی لڑائی اور پھر زخمی سہراب بھی کندہ ہے‘ مقبرے کے ساتھ فردوسی کا میوزیم ہے جس میں اس زمانے کی اشیاء رکھی ہیں‘ شاہ نامہ کے قدیم والیم اور رستم اور سہراب کی پینٹنگز بھی ہیں‘ کمپلیکس کے آخر میں شہر کی قدیم فصیل کے کچھ حصے قائم ہیں‘ اس زمانے میں اینٹوں کی آٹھ دس فٹ چوڑی فصیل بنا کر اس پر مٹی کا لیپ کر دیا جاتا تھا‘ وہ دیوار آج بھی موجود ہے اور دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے‘ ہم واپس جانے لگے تو کچھ لوگوں کو عقیدت سے زمین پر بیٹھے دیکھا‘ پتا چلا یہ ایران کے مشہور گلوکار محمد رضا شجریان کی قبر ہے۔
وہ ماڈرن اور لبرل گلوکار تھا اور مذہبی پابندیوں کے خلاف تھا‘یہ 2020 میں فوت ہوا اور اسے اس کی وصیت کے مطابق فردوسی کے کمپاؤنڈ میں دفن کر دیا گیا‘ درجنوں لڑکے اور لڑکیاں روزانہ اس کی قبر پر آتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں‘ امام الغزالی بھی طوس سے تعلق رکھتے تھے اور یہ اسی شہر میں مدفون ہوئے‘ ان کی قبر شہر کی فصیل سے باہر ان کے گاؤں میں تھی‘ امام غزالی کا گاؤں ختم ہو گیا‘ صرف ان کی قبر بچی ہے اور یہ بھی ہمیں بڑی مشکل سے ملی‘ قبر کی حالت خراب اور تعویز شکستہ تھا۔
ہم نے وہاں کھڑے کھڑے دعا کی‘ غزالی دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے بجٹ کا تصور دیا تھا اور علم کو دین اور دنیا دو حصوں میں تقسیم کیا‘وہ اپنے دور میں بھی لوگوں سے مار کھاتا رہا اور مرنے کے بعد بھی اس کی قبر زمانے کے تھپیڑے کھا رہی ہے‘یہ دیکھ کر دل بوجھل ہو گیا‘ ہم واپسی پر ہارونیہ رک گئے‘ یہ ہارون الرشید کے زمانے کی خوب صورت عمارت تھی‘ اس میں کبھی درس گاہ ہوتی تھی‘ امام غزالی بھی اس درس گاہ میں پڑھتے اور پڑھاتے رہے تھے‘ عمارت کے صحن میں غزالی کی علامتی قبر تھی لیکن اصل قبر اس سے دور شہر کی فصیل سے باہر ہے‘ یہ عظیم شہر طالع آزماؤں اور وقت نے برباد کر دیا صرف دو قبریں اور ہارون الرشید کا محل بچا ہے اور بس۔
ہم واپسی پر مشہد میں نادر شاہ افشار کے مزار پر بھی رکے‘ نادر شاہ ، امام رضاؒ کے حرم سے آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر مدفون ہے‘ عمارت کے سامنے نادر شاہ کا سیاہ رنگ کا سنگی مجسمہ لگا ہے جس میں وہ گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا میں کلہاڑا لہرا رہا ہے اور اس کے دشمن اسے رسیوں سے کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ افشار قبیلے سے تعلق رکھتا تھا‘ گڈریا تھا‘ صفوی بادشاہ سلطان حسین کی فوج میں بھرتی ہوا اور ترقی کرتا ہوا ایران کا بادشاہ بن گیا‘ وہ اپنے زمانے کی سب سے بڑی فوج کا مالک تھا‘ اس کا لشکر چار لاکھ جوانوں پر مشتمل تھا۔
اس نے 1739 میں ہندوستان پر حملہ کیا‘ کرنال کے مقام پر جنگ ہوئی‘ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو شکست ہوئی اور دلی پکے ہوئے پھل کی طرح نادر شاہ کی گود میں آ گری‘ وہ دلی پہنچا اور محمد شاہ سے تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا لے لیا‘ اس کے سپاہیوں نے بھی جی بھر کر دلی کو لوٹا‘ تاریخ لکھتی ہے دلی میں اتنا خون بہا کہ نادر شاہ کے گھوڑے کے سم انسانی خون میں ڈوب گئے‘ نادر شاہ کے قیام کے دوران بھی بے شمار واقعات پیش آئے‘ مثلاً محمد شاہ نے اسے انتہائی مقوی معجون پیش کی‘ اس کی آدھ چمچ ایک دن کے لیے کافی تھی لیکن نادر شاہ اسے حلوہ سمجھ کر پورا مرتبان کھا گیا جس کے نتیجے میں اسے خونی پیچش لگ گئے‘ دلی کے ایک بزرگ حکیم کو بلایا گیا۔
حکیم صاحب نے سب سے پہلے نادر شاہ کو ڈانٹ کر اس کی طبیعت ٹھیک کر دی‘ وہ حیرت سے اسے دیکھتا رہا کیوں کہ شہر میں لاشوں کے انبار لگے تھے اور اس فضا میں ایک بوڑھا طبیب بادشاہ کو لعن طعن کر رہا تھا‘ نادر شاہ اس کی جرات سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اسے ایران آنے کی دعوت دے دی مگر حکیم نے صاف انکار کر دیا‘ نادر شاہ کا کہنا تھا مجھے پوری دلی میں صرف ایک مرد ملا اور وہ یہ حکیم تھا باقی سب خواجہ سرا تھے‘ وہ اس حکیم کے بعد دلی کی ایک کنیز سے بھی بہت متاثر ہوا‘ محمد شاہ نے اسے اپنی ایک کنیز پیش کر دی۔
وہ انتہائی خوب صورت اور سلیقہ شعار تھی‘ نادر شاہ اس کا عاشق ہو گیا اور اسے بھی ایران لے جانے کا قصد کر لیا مگر کنیز نے بھی دلی چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ نادر شاہ نے اسے لالچ بھی دیا اور ڈرایا دھمکایا بھی مگر کنیز کا جواب تھا ظل الٰہی آپ خواہ میرے ٹکڑے کر دیں لیکن میں دلی نہیں چھوڑوں گی۔ نادر شاہ اس کی جرات کو بھی سلام کرنے پر مجبور ہو گیا۔
محمد شاہ نے اپنی ایک شہزادی نادر شاہ کے صاحب زادے کے عقد میں دے دی تھی‘ نکاح کی رسم شروع ہوئی تو محمد شاہ کے وکیل نے مغل سلطنت کا پورا شجرہ بیان کر دیا‘ وہ شاہ ابن شاہ قسم کا تھا لیکن جب دولہے کی باری آئی تو شجرہ ایک نسل کے بعد رک گیااور دولہا شرمندہ ہو گیا‘ یہ دیکھ کر نادر شاہ اٹھا‘ تلوار نکالی اور ہوا میں لہرا کر نکاح خوان سے بولا ’’لکھو شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر‘‘ اس کے کہنے کا مطلب تھا دنیا میں طاقت سے بڑا کوئی شجرہ نہیں ہوتا۔
نادر شاہ نے ایران میں افشار سلطنت کی بنیاد رکھی‘ اس کی سلطنت میں ایران‘ عراق‘ آدھا افغانستان اور ہندوستان شامل تھا لیکن نادر شاہ کی اس سلطنت کا اختتام بہت افسوس ناک ہوا‘ اس کی فوج کے دو حصے تھے‘ ایک حصے کا کمانڈر احمد شاہ ابدالی تھا‘ یہ حصہ افغان سپاہیوں پر مشتمل تھا‘ دوسرا حصہ ایرانیوں پر مشتمل تھا اور اس کا کمانڈرایرانی تھا‘ نادر شاہ کو خطرہ تھا کمانڈرز اسے قتل کر دیں گے چناں چہ وہ زرہ بکتر پہن کر‘ ہاتھوں میں تلوار لے کر اور خیمے میں گھوڑا تیار کر کے سوتا تھا لیکن اس بندوبست کے باوجود وہ 20 جون 1747 کو قوچان شہر کے قریب اپنے خیمے میں سویا اور اسے اس کے اپنے گارڈز نے قتل کر دیا۔
اس کا سر قلم کر کے خیمے سے باہر پھینک دیا گیا اور تین گھنٹے بعد صورت حال یہ تھی پورے میدان میں صرف ایک خیمہ تھا اور اس میں نادر شاہ کی لاش پڑی تھی جب کہ ساری فوج خیمے اکھاڑ کر اپنے اپنے وطنوں کو روانہ ہو چکی تھی‘ نادر شاہ نے اپنی زندگی میں مشہد میں اپنا مزار بنوایا تھا‘ اسے قوچان سے لا کر مشہد میں دفن کر دیا گیا‘ اس کے بعد اس کے بیٹے علی قلی نے عادل شاہ کے نام سے سلطنت سنبھالی مگر ایک سال میں اس سلطنت کے تین بادشاہ تبدیل ہو گئے اور اس کے بعد پوری سلطنت تتر بتر ہو گئی۔
اس کے بعد زند اور قاچار خاندان آئے اور قاچاروں نے اس کا پورا مقبرہ اکھاڑ دیا‘ یہ مقبرہ بار بار تباہ ہوتا رہا یہاں تک کہ شاہ ایران نے اپنے آرکی ٹیکٹ دوست ہوشنگ سہون (Hooshang Seyhoun) کو ذمے داری سونپی اور اس نے 1963 میں نیا مقبرہ بنایا‘ مقبرے کی تعمیر کے دوران دنیا کے امیر ترین اور مضبوط ترین کمانڈر کی گلی سڑی ہڈیاں نکل آئیں‘ ان ہڈیوں کو تابوت میں جمع کر کے دوبارہ جنازہ پڑھاکر دفن کر دیا گیا۔
میں بڑی دیر تک اس کی قبر پر کھڑا رہا اور یہ سوچتا رہا انسان بھی کیا چیز ہے‘ یہ خود کو خدا سمجھ کر شمشیر ابن شمشیر کے نعرے لگا بیٹھتا ہے اور آخر میں کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ یہ خاک کی مٹھی بن کر زمین پر پڑا ہوتا ہے اور میرے جیسے معمولی لوگ جوتوں سمیت اس کی قبر پر کھڑے ہوتے ہیں‘ وہاں اس دن کسی اسکول کا ٹور آیا ہوا تھا‘ میں دیکھ رہا تھا بچے اس کی قبر بھی پھلانگ رہے تھے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر تصویریں بنوا رہے تھے‘ یہ تھی نادر شاہ افشار کی اصل اوقات۔