مجھے چند دن قبل ایک دوست کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا‘ میں ان کا واش روم استعمال کرنے کے لیے گیا تو میں نے وہاں عجیب نوٹس دیکھا‘ واش روم کے دروازے پر لکھا تھا‘ واش روم میں موبائل فون لے جانے پر سخت پابندی ہے‘ مہربانی فرما کر اپنا موبائل فون سامنے ریک میں رکھ کر اندر داخل ہوں۔
میں نے نوٹس پر درج ہدایت کے مطابق فون ریک میں رکھ کر واش روم استعمال کیا اور پھر اپنے دوست سے اس عجیب وغریب نوٹس کے بارے میں پوچھا‘ اس کے جواب نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے‘ اس کا کہنا تھا‘ ہم میں سے اکثر لوگ فون کے ذریعے دوسرے لوگوں کو قرآنی آیات‘ احادیث اور اسلامی واقعات بھجواتے رہتے ہیں‘ ہم لوگ آیات‘ بیانات‘ احادیث اور نعتوں کو ’’رنگ ٹون‘‘ کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔
آپ ذرا تصور کریں آپ کموڈ پر بیٹھے ہیں‘ کپڑے بدل رہے ہیں یا پھر ہاتھ دھو رہے ہیں اور آپ کے موبائل سے آیات نشر ہونے لگیں یا آپ نے کسی کا فون نمبر ڈائل کیا اور دوسری طرف سے کوئی مقدس پیغام نشر ہونے لگے تو کیا آپ توہین یا گناہ کے مرتکب نہیں ہو جائیں گے۔
میرے لیے یہ نقطہ نیا بھی تھا اور اس میں جان بھی تھی‘ ان کاکہنا تھا میں اکثر اس صورت حال سے گزرتا تھا‘ میں نے واش روم کے دوران موبائل فون کھول لیا اور مجھے عین اس وقت کوئی مقدس پیغام آ گیا‘ میں نے اسے جلدی سے بند کرنے کی کوشش کی مگر افراتفری میں وہ مجھ سے بند نہ ہوا اور میں خوف ناک شرمندگی‘ افسوس اور دکھ میں مبتلا ہو گیا۔
میں بعض اوقات کسی کو فون کر بیٹھتا تھا تو دوسری طرف کی ’’رنگ ٹون‘‘ مجھے گناہ گار بنا دیتی تھی لہٰذا میں نے سب سے پہلے فون واش روم سے باہر رکھنا شروع کیا‘ پھر اپنے دوست احباب‘ فیملی کے لوگوں اور جاننے والوں کو اطلاع دی اور پھر میں نے اپنے دفتر میں نوٹس لگا دیا‘ لوگوں نے شروع میں منہ بنایا لیکن جب انھیں حالات کی نزاکت کا علم ہوا تو یہ پھر مجھے دعائیں دینے لگے۔
مجھے ان کی بات اچھی لگی‘ واقعی ہم لوگ نادانستگی میں روزانہ قرآن مجید اور احادیث کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مجھے اسی طرح چند برس قبل لاہور میں ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا‘ انھوں نے اپنے صحن میں ایک خوب صورت مزار بنا رکھا تھا‘ مزار کے اوپر پھولوں کا سایہ تھا اور اس پر پودے بھی لگے ہوئے تھے‘ میں نے ان سے مزار کے بارے میں پوچھا تو ان کے جواب نے بھی ہلا کر رکھ دیا‘ ان کا کہنا تھا میرے گھر اخبارات اور رسائل آتے ہیں‘ ان میں آیات اور احادیث درج ہوتی ہیں۔
ہم جن لفافوں میں سودا سلف لاتے ہیں ان پر بھی اکثر اوقات آیتیں اور مقدس ہستیوں کے بارے میں مضامین شایع ہوتے ہیں‘ یہ اوراق گھر‘ ردی ہاؤس اور صحن میں پڑے رہتے تھے‘ میں نے ایک دن محسوس کیا ہم لوگ بلاوجہ گناہ گار ہو رہے ہیں چناں چہ میں اپنے امام صاحب کے پاس گیا اور ان سے پوچھا‘ کیا ہم مقدس اوراق کی تدفین کر سکتے ہیں۔
مولوی صاحب کا جواب تھا‘ ہم اگر یہ کام مقدس اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے کریں تو پھر یہ جائز ہے‘ اسلامی دنیا کے بے شمار ملکوں میں مذہبی کتابوں کو قبرستانوں میں دفن کیا جاتا ہے چناں چہ اس میں کوئی حرج نہیں لہٰذا میں نے مولوی صاحب کی اجازت سے یہ مزار بنایا اور میں اب پورے احترام کے ساتھ اخبارات سے مقدس الفاظ اور پیرا گراف کاٹ کر اکٹھے کرتا ہوں اور انھیں اس مزار میں دفن کر دیتا ہوں‘کیا ان کا یہ فعل درست ہے یا غلط یہ فیصلہ علماء کرام نے کرنا ہے لیکن مجھے بھی اس میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔
آپ کو یاد ہوگا لاہور میں چند برس قبل لوگوں کو نہر سے قرآن مجید کے اوراق ملے تھے‘ کسی نے یہ نہر میں قصداً یا پھر شرارتاً پھینک دیے تھے‘ اس وقت اس پر خاصا احتجاج ہوا تھا‘ یہ خبر جب عام ہوئی تو محکمہ اوقاف پنجاب نے 27 اضلاع میں قرآن محل بنانے اور قرآن مجید ری سائیکلنگ یونٹ لگانے کا فیصلہ کیاتھا‘ حکومت نے اس کے لیے فنڈز بھی مختص کیے مگر بعدازاں یہ منصوبہ بھی دیگر پروجیکٹس کی طرح سردخانے کا شکار ہو گیا۔
چناں چہ آج بھی ملک میں قرآن مجید اور احادیث کے پرانے اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کا کوئی بندوبست نہیں‘ آج بھی روزانہ اخبارات اور رسائل میں آیات اور احادیث شایع ہوتی ہیں اور یہ اوراق بعدازاں کچرا گھروں میں بے حرمتی کا نشانہ بنتے ہیں‘ ملک میں ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ کسی نے شہید اوراق ندی‘ نہر یا جھیل میں ڈال دیے اور وہ تیرتے ہوئے کنارے پر آ گئے اور کسی غیر مسلم کچرا چننے والے نے انھیں اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈال لیا‘ کسی مسلمان نے یہ اوراق دیکھے اور اس پر توہین کا الزام لگا دیا اور ہجوم نے اس شخص کو قتل کر دیا۔
میں نے کسی جگہ یہ خبر بھی پڑھی تھی کسی نے مقدس اوراق کسی جگہ پھینک دیے‘ کسی کوڑا چننے والے غیر مسلم نے انھیں ردی سمجھ کر اٹھا لیا اور پھر وہ ہجوم کا نشانہ بن گیا‘ گوجرانوالہ میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس میں کسی شخص نے ایک حافظ قرآن پر قرآن مجید کی توہین کا الزام لگادیا اور لوگوں نے ملزم کو قتل کیا اور پھر وہ اس کی لاش گلیوں میں گھسیٹتے رہے اور آخر میں یہ واقعہ حسد اور دشمنی کا شاخسانہ نکلا‘ ہمسائے نے حسد کی وجہ سے مقتول کے بارے میں غلط اطلاعات پھیلائی تھیں۔
آپ کو سیالکوٹ کا واقعہ بھی یاد ہو گا‘ سری لنکا کے منیجر نے فیکٹری میں پینٹ کے دوران شیشوں اور دیواروں پر لگے اسٹیکرز اتارے اور مزدوروں نے اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے قتل کر دیا اور بعدازاں اس کی لاش جلا دی جب کہ وہ بے چارہ یہ تک نہیں جانتا تھا ان اسٹیکرز میں لکھا کیا تھا اور اس کے معانی کیا تھے؟ آپ اس سری لنکن کو سائیڈ پر رکھ دیں اور صرف اس سوال کا جواب دیں۔
ہم اپنی دیواروں‘ شیشوں اور ڈیسک پر آیات‘ احادیث اور اقوال زریں لگاتے ہیں‘ ہم جب یہ اسٹیکرز اتارتے ہیں تو پھر یہ کہاں جاتے ہیں؟ کیا ہم انھیں پھینک نہیں دیتے اور کیا یہ اللہ اور رسولؐ کے کلام کی توہین نہیں اور کیا ہمیں اس کا کوئی مستقل بندوبست نہیں کرنا چاہیے؟ حکومت نے بہرحال 2016میں قرآن مجید اور احادیث کی شہید کتابوں کا ری سائیکلنگ یونٹ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس یونٹ میں مقدس اوراق کو ’’ری سائیکل‘‘ کر کے نئے پیپرز بننے تھے اور ان پیپرز پر دوبارہ قرآن مجید اور احادیث کی چھپائی ہونی تھی مگر یہ پروجیکٹ بھی دوسرے پروجیکٹس کی طرح درمیان ہی میں رہ گیا‘ حکومت نے قرآن محلات بنا کر بھی مقدس اوراق کو محفوظ بنانا تھا لیکن یہ بھی نہ ہو سکا۔
ہم اب سویڈن کے واقعے کی طرف آتے ہیں‘ 29 جون2023کو بدبخت عراقی نژادسلوان مومیکا نے اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن مجید کو نذر آتش کیا‘ اس نے اس توہین کے لیے باقاعدہ عدالت سے اجازت لی تھی‘ 24 جولائی کو یہ واقعہ ڈنمارک میں بھی پیش آیا‘ پورا عالم اسلام ان واقعات کے بعد آتش فشاں کی طرح ابل رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے مسلمان خواہ کتنا ہی لبرل یا غیر مذہبی کیوں نہ ہو لیکن وہ قرآن مجید اور نبی اکرم ؐ کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کر سکتا لہٰذا اسلامی ملکوں نے سویڈن کی مصنوعات اور سفارتی بائیکاٹ شروع کر دیا ہے‘ او آئی سی تمام اسلامی ملکوں میں سویڈن کے سفارت خانے بند کرانا چاہتی ہے‘ پاکستان نے بھی او آئی سی کو اپنی رضا مندی سے مطلع کر دیا ہے۔
یہ ہونا چاہیے تاکہ مغربی دنیا کو مسلمانوں کے جذبات کی خبر ہو سکے اور یہ آیندہ ایسی حرکت کی اجازت نہ دیں مگر سوال یہ ہے ہم مسلمان روزانہ جو توہین کر رہے ہیں‘ قرآن مجید کے اوراق کے ساتھ جو سلوک ہم کرتے ہیں۔
آیات کی جتنی بے حرمتی ہمارے ہاتھوں سے ہوتی ہے یا ہم رنگ ٹونز یا واٹس ایپ میسجز کے ذریعے ان کی جتنی توہین کر رہے ہیں اس کا کیا جواب ہے؟ لہٰذا میری ریاست سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر آیات‘ احادیث اور نعتوں کی رنگ ٹونز پر پابندی لگا دیں کیوں کہ جب واش رومز میں بیٹھے لوگوں کے فونز پر یہ رنگ ٹونز بجتی ہیں تو یہ لوگ اور سننے والے دونوں گناہ گار ہو جاتے ہیں۔
دوسرا‘ لوگوں کو سمجھایا جائے آپ مہربانی فرما کر اپنے عزیز‘ رشتے دار اور دوستوں کو آیات‘ احادیث اور بیانات واٹس ایپ نہ کیا کریں‘ عین ممکن ہے آپ کا سننے یا دیکھنے والا اس پیغام کو پڑھنے یا سننے کی پوزیشن میں نہ ہو‘ تیسرا ملک کے ہر شہر میں شہید قرآن مجید اور احادیث کی تدفین کا بندوبست کیا جائے‘ یہ انتظام اگر حکومت نہیں کرتی تو اہل خیر اپنی مدد آپ کے تحت کر لیں‘ اگر قبرستانوں یا مساجد میں جگہ مختص کر دی جائے اور لوگوں کو باقاعدہ تربیت دے دی جائے تو یہ احسان ہو گا۔
چوتھا حکومت تمام اضلاع میں قرآن مجید کے ری سائیکلنگ یونٹس لگوا دے‘ یہ اگر ممکن نہ ہو تو حکومت ری سائیکلنگ یونٹس کو ڈیوٹی فری کر دے اور عام لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یہ یونٹس لگا لیں‘ پورا شہر مقدس اوراق جمع کر کے یونٹ کے حوالے کر دے اور یونٹ انھیں دوبارہ کاغذ بنا دے اور یہ کاغذ قرآن مجید اور احادیث کی چھپائی میں استعمال ہو جائے گا‘ ہم اس معاملے میں ترکی‘ انڈونیشیا اور ایران سے مدد بھی لے سکتے ہیں‘ ان ممالک نے اچھے سسٹم بنا رکھے ہیں۔
ہم اگر خود اپنے ملک میں قرآن مجید کی تکریم کا خیال نہیں رکھ سکتے تو پھر ہمیں غیر مسلموں سے اس کی توقع نہیں رکھنی چاہیے‘ خدا کی پناہ ہم ایک طرف سویڈن کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے اپنے موبائل فونز اور ہاتھوںسے روزانہ قرآن مجید کی توہین ہوتی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔