ایکسٹینشن اور ایوان صدر کی ملاقاتیں

1  جنوری‬‮  2023

27 اکتوبر 2022ء کی صبح ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ ایک تہلکہ خیز پریس کانفرنس کی تھی‘یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ڈی جی آئی کی پہلی پریس کانفرنس تھی‘لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے اس میں انکشاف کیا‘

عمران خان نے مارچ میں آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع کی پیش کش کی تھی‘یہ پیش کش میرے سامنے ہوئی تھی‘ جنرل ندیم انجم نے ا س کے بعد عمران خان کی ایوان صدر میں جنرل باجوہ سے ملاقاتوں کا ریفرنس بھی دیااور کہا’’ آپ اگر یہ سمجھتے ہیں آپ کا سپہ سالار غدار‘ میر جعفر اور میر صادق ہے تو پھر آپ اس سے رات کی خاموشی میں بند دروازوں کے پیچھے ملتے کیوں ہیں؟‘‘ پی ٹی آئی نے اس پریس کانفرنس کے بعد آج تک ان دونوں واقعات کی کوئی وضاحت یا تردید نہیں کی۔ ہم پہلے غیر معینہ مدت کی ایکسٹینشن کی طرف آتے ہیں ‘ اپوزیشن نے جب عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دی تو عمران خان نے بچائو کی کوششیں شروع کر دیں‘ یہ ایم کیو ایم کو راضی کرنے کے لیے بہادر آباد بھی گئے‘ چودھری شجاعت سے ملاقات کے لیے لاہوربھی آئے اور انہوں نے اپنے ایم این ایز کو منانے اور خریدنے کی کوشش بھی کی(7اکتوبر2022ء کو اس سے متعلق ایک ویڈیو بھی لیک ہوئی تھی جس میں عمران خان پانچ ایم این ایز کی خریداری کا ذکر کر رہے تھے)لیکن جب یہ تمام حربے ناکام ہو گئے تو عمران خان نے جنرل باجوہ کو راضی کرنا شروع کر دیا‘ پی ٹی آئی کی طرف سے آرمی چیف کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں تین بار ایکسٹینشن کی آفر کی گئی‘ مارچ2022 کے مہینے میں دو بار آفر کی گئی‘ پہلی پیش کش اسد عمر آرمی چیف کے پاس لے کر آئے تھے‘

ان کا کہنا تھا آپ نئے قانون کے مطابق 65 سال کی عمر تک آرمی چیف رہ سکتے ہیں‘ ہم نوٹی فکیشن جاری کر دیتے ہیں‘آپ آرمی چیف رہیں اور ہمیں حکومت میں رہنے دیں‘ جنرل باجوہ نے یہ پیش کش ٹال دی‘ اس کے چند دن بعد پرویز خٹک ڈی جی آئی ایس آئی کے دفتر گئے‘ ڈی جی کے سامنے بیٹھ کر محفوظ فون کے ذریعے جنرل باجوہ سے بات کی اور انہیں غیر معینہ مدت تک (تاحیات) ایکسٹینشن کی آفر کر دی‘ یہ آفر عدم اعتماد سے چند دن پہلے کی گئی تھی یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے امریکا کا سائفر اس وقت تک عمران خان کے پاس پہنچ چکا تھا اوریہ جنرل باجوہ کے’’ میرجعفر‘‘ اور’’ میر صادق‘‘ کردار سے بھی اچھی طرح واقف ہو چکے تھے

لہٰذا پھروہ شخص جو آپ کے بقول غدار بھی ہے اور امریکا کے ساتھ مل کرآپ کی عوامی حکومت کا تختہ بھی الٹنا چاہتا ہے‘ آپ اسے غیر معینہ مدت( تاحیات)کے لیے آرمی چیف کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ مجھے آج تک یہ نقطہ سمجھ نہیں آیا‘یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے یہ آفر پرویز خٹک سے کیوں کرائی گئی؟ جنرل باجوہ دراصل پرویز خٹک کا بہت احترام کرتے ہیں‘ یہ عمران خان کو ہمیشہ کہتے تھے آپ پرویز خٹک کی وجہ سے کے پی میں دوسری مرتبہ حکومت بنانے میں کام یاب ہوئے ہیں‘ آپ انہیں وزیراعلیٰ بنا دیں‘

یہ صوبے کو سنبھال لیں گے مگر عمران خان کا جواب ہوتا تھا ’’یہ میری بات نہیں مانتا‘‘ اور اس پر جنرل باجوہ ہنس کر کرکٹ اور فوج کی مثال دیا کرتے تھے‘ یہ کہتے تھے کرکٹ میں جب کوئی کھلاڑی زیادہ اچھا کھیل رہا ہو تو اسے زیادہ مواقع دیے جاتے ہیں لیکن آپ نے کے پی میں اپنے بیسٹ پلیئر کو پویلین میں بٹھا دیامگر کیوں کہ مرشد پرویز خٹک سے بھی مطمئن نہیں تھی لہٰذا یہ بھی ساڑھے تین سال محروم رہے‘ بہرحال پرویز خٹک کے ذریعے پی ٹی آئی کا آخری وقت تک جنرل باجوہ سے رابطہ رہا‘ جنرل باجوہ نے عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن کو تحریک واپس لینے کا مشورہ بھی پرویز خٹک کی درخواست پر دیا تھا۔

ہم اب ایوان صدر کی ملاقاتوں کی طرف آتے ہیں‘ حکومت تبدیل ہو گئی اور عمران خان نے جنرل باجوہ کو غدار ‘ میر جعفر اور میر صادق بھی قرار دے دیالیکن پھر عمران خان نے اسی میر جعفر اور میر صادق سے ایوان صدر میں دو ملاقاتیں کیں‘یہ دونوں ملاقاتیں عمران خان کی خواہش اور اصرار پر ہوئی تھیں‘ صدر عارف علوی عمران خان کا پیغام لے کر جنرل باجوہ کے پاس آئے تھے اور ان کا اصرار تھا ’’آپ ایک بار خان سے ضرور مل لیں‘‘ جنرل باجوہ نے جواب دیا‘ عمران خان کسی بھی وقت آرمی چیف ہائوس آ سکتے ہیں مگر یہ آپشن عمران خان کو سوٹ نہیں کرتا تھا‘

صدر کے ذریعے پیش کش کی گئی جنرل باجوہ پرویز خٹک کے گھر آ جائیں‘ جواب دیا گیا‘ آرمی چیف کے ساتھ سیکورٹی ہوتی ہے‘ یہ جب پرویز خٹک کے گھر جائیں گے تو پوری دنیا کو علم ہو جائے گا‘اس کے بعد فیصلہ ہوا یہ ملاقات ایوان صدر کے رہائشی زون میں ہو گی‘ وینیو اور تاریخ کے تعین کے دوران ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب صدر عارف علوی کو بتایا گیا ’’ سرآپ کو جانوروں سے ملنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اور دوسری طرف سے ہنسی کی آواز آئی بہرحال ایوان صدر کے رہائشی علاقے میں رات کے وقت آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان دو ملاقاتیں ہوئی‘

دونوں ملاقاتوں میں عمران خان کے ساتھ شبلی فراز جب کہ جنرل باجوہ کے ساتھ میجر جنرل محمد عرفان تھے تاہم یہ دونوں حضرات ملاقات کے کمرے میں داخل نہیں ہوئے‘ عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی اور یہ دونوںپینتالیس پینتالیس منٹ کی ملاقاتیں تھیں‘ عمران خان دونوں مرتبہ جلدی میں تھے‘ ملاقاتوں میں کیا ہوا یہ میں سردست نہیں بتا سکتا تاہم دو نقطے ضرور بیان کیے جا سکتے ہیں‘ عمران خان سے پوچھا گیا‘ سر کیا میں آپ کو واقعی میر جعفر اور میر صادق محسوس ہوتا ہوں‘

عمران خان کا جواب تھا‘ یہ میں نے آپ کو نہیں کہا تھا‘ میں ہمیشہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر جعفر اور میر صادق کہتا ہوں‘ دوسرا نقطہ عمران خان نے فرمائش کی‘ جنرل صاحب آپ بس اس حکومت کو گرا دیں‘ انہیں فارغ کر دیں‘ جنرل باجوہ نے جواب دیا‘ سر میں یہ کیسے کر سکتا ہوں‘یہ الیکٹڈ گورنمنٹ ہے‘ میں یہ غیرآئینی کام کیسے کر سکتا ہوں؟ آپ صدر کا مشورہ مانیں‘ اسمبلی واپس جائیں‘ اتحادیوں کو دوبارہ اپنے ساتھ ملائیں اور اپنی حکومت بنا لیں‘ آپ کے پاس جمہوری راستہ موجود ہے‘ ہم آپ کی مدد نہیں کر سکیں گے اور یوںیہ دونوں ملاقاتیں کسی نتیجے کے بغیرختم ہو گئیں۔

عمران خان نے ان ملاقاتوں کے بعد 12 ستمبر کو کامران خان کے شو میں عندیہ دیا‘ قمر جاوید باجوہ الیکشن تک ایکسٹینشن لے لیں‘ نئی حکومت آئے اور یہ نئے آرمی چیف کا تعین کر لے‘ خان صاحب ملک کی بہتری کے لیے ایکسٹینشن کا راستہ نکالنے کے لیے بھی تیار تھے‘ کامران خان کے انٹرویو کے بعد پریشر آیا تو پی ٹی آئی نے اس بیانیے کو غلط اور سیاق وسباق سے ہٹ کر قرار دے دیا مگر چند دن بعد اس سے ملتی جلتی آفر صدر عارف علوی نے بھی جنرل باجوہ کو کر دی اور یہ ایکسٹینشن کی تیسری آفر تھی‘ صدر کی خواہش تھی جنرل باجوہ ایک ’’ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن‘‘ بنائیں اور اپنی نگرانی میں اس کی رپورٹ مکمل کرائیں‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن ضرور بننا چاہیے‘

ہم سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے لیکن یہ کمیشن اگر میں نے بنایا تو یہ سمجھا جائے گا میں ایکسٹینشن لینا چاہتا ہوں اور میں مزید توسیع نہیں لینا چاہتا اور یوں ایکسٹینشن کی تیسری کوشش بھی ضائع ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے اس کے بعد ملک محمد احمد کے ذریعے نواز شریف اور کور کمانڈرز کی میٹنگ میں سینئر آفیسر کو بھی صاف کہہ دیا ’’میں کسی قسم کی ایکسٹینشن نہیں لے رہا‘‘ اورپانچ اکتوبر 2022ء کو واشنگٹن میں بھی ایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان کر دیا‘

پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کو جب یقین آ گیا ایکسٹینشن نہیں ہو رہی تو دونوں طرف سے نیا مطالبہ سامنے آ گیا‘ حکومت جنرل فیض حمید اور پی ٹی آئی جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں دیکھنا چاہتی تھی‘ جنرل باجوہ عاصم منیر کو پسند کرتے تھے‘ یہ سمجھتے تھے ان کے ساتھ 2018ء میں زیادتی ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا خیال تھا اگر جنرل عاصم منیر آرمی چیف بن جاتے ہیں تو عمران خان کی نفرت اگلی قیادت تک چلی جائے گی‘ ان کا خیال تھا جنرل عاصم منیر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دیا جائے اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کو آرمی چیف‘ ملک محمد احمد یہ پیغام لے کر میاں نواز شریف کے پاس لندن گئے ‘

میاں نواز شریف نے جواب دیا آپ ناموں کی سمری بھجوا دیں‘ یہ فیصلہ وزیراعظم کریں گے تاہم اس دوران شاہد خاقان عباسی بھی آرمی چیف سے ملے‘ جنرل باجوہ نے انہیں بھی صورت حال سمجھائی اور انہیں جنرل ساحر شمشاد مرزا کا نام دیا لیکن چند دن بعد میاں نواز شریف نے اپنا ایک کاروباری دوست جنرل باجوہ کے پاس بھجوا دیا‘اس دوست کے دونوں کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے‘

اس نے آرمی چیف سے دو سوال کیے‘ایک ‘دونوں امیدواروں میں سے زیادہ دبائو کون برداشت کر سکتا ہے؟ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ جنرل عاصم منیر‘ دوسرا سوال تھا‘ عربوں کے ساتھ کس کے تعلقات زیادہ اچھے ہیں؟ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ جنرل عاصم منیر اور یوں جنرل عاصم منیر کا فیصلہ ہو گیا‘میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کو جنرل عاصم منیر کا نام دیا اور چھٹیوں پر یورپ چلے گئے‘

فائنل تقرری سے پہلے ملک محمد احمد لاہور سے خواجہ آصف کو لے کر اسلام آباد آئے‘ عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے راولپنڈی اسلام آباد کے راستے بند تھے‘ یہ دونوں وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جی ایچ کیو پہنچے‘ جنرل باجوہ سے آخری مشورہ کیا اور وزیراعظم نے اگلی صبح اپنی تجویز ایوان صدر بھجوا دی‘ وزیراعظم نے اس کے بعد صدر عارف علوی کو اپنا طیارہ دیا‘ یہ لاہور گئے‘ عمران خان کو منایا‘ نئے آرمی چیف کا اعلان ہو ا اور وزیراعظم ترکی کے دورے پر چلے گئے۔
نوٹ: میں نے جمعہ 30 دسمبر کو ان حقائق کی تصدیق کے لیے ملک محمد احمد سے رابطہ کیا‘ انہوں نے اپنے حصے کے واقعات کی تصدیق کر دی۔

موضوعات:



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…