روس کے علاقے سائبیریا میں یاکو ستک (Yakotsk) نام کا ایک ریجن ہے‘ اس میں تین لاکھ لوگ رہتے ہیں اور یہ دنیا کی سرد ترین آبادی ہے‘ سردیوں میں اس کا درجہ حرارت پچاس ڈگری تک گر جاتا ہے‘یاکوستک کا ایک گائوں اومیا کون (Omyakon) دنیا کا سرد ترین گائوں ہے‘ اس کا درجہ حرارت منفی 71 اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ تک بھی چلا جاتا ہے‘ سردیوں کے عام دنوں میں بھی
اس کا ٹمپریچر منفی 47 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور یہ درجہ حرارت اس حد تک کم ہے کہ لوگوں کا لعاب دہن تک منہ میں جم جاتا ہے اور یہ بات تک کرنے کے قابل نہیں رہتے‘ آنکھوں کا پانی پتلیوں میں جم جاتا ہے اور ڈیڑھ منٹ باہر نکلنے کے بعد جسم کے حصے سنو بائٹ کی وجہ سے جھڑنے لگتے ہیں‘ لوگ ساری سردیاں اپنی گاڑیاں سٹارٹ رکھتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ گاڑی اگر ایک بار بند ہو جائے تو یہ پھر دوبارہ سٹارٹ نہیں ہوتی‘ انجن سیز ہو جاتا ہے‘ بیٹری جم جاتی ہے اور ریڈی ایٹر پھٹ جاتا ہے‘ لوگ گھروں میں واش رومز نہیں بنا سکتے‘ کیوں؟ کیوں کہ بول وبراز جم جاتا ہے اور یہ پائپس کے ذریعے باہر نہیں نکل پاتا‘ ریجن میں اموات کے بعد قبر کھودنا مشکل ترین کام ہوتا ہے‘ پورا گائوں مل کر پہلے قبر کی جگہ پر آگ جلاتا ہے‘ سات آٹھ دن کی آگ کے بعد وہ جگہ نرم ہوتی ہے اور پھر درجنوں لوگ مل کر ایک ایک انچ زمین کھودتے ہیں اور اس کے بعد سوگ کا عمل شروع ہوتا ہے‘ لوگ مُردہ دفن کرنے سے پہلے قبر میں آگ جلا کر اسے گرم رکھتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ مُردے کی تدفین سے قبل قبر برف سے اٹ جاتی ہے اور یہ برف صرف برف نہیں ہوتی یہ چٹان سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے‘ اسے توڑنا ممکن نہیں ہوتا لہٰذا یہ لوگ قبر میں آگ جلا کر رکھتے ہیں‘ ریجن میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت ممکن نہیں‘کیوں؟ کیوں کہ سگنل بھی جیم ہو جاتے ہیں اور موبائل کی بیٹریاں بھی کام نہیں کرتیں‘ کیمرے سے تصویر بنانا بھی آسان نہیں ہوتا‘ کیوں؟ کیوں کہ لینز اور شٹر کے اندر آکسیجن جم جاتی ہے اور یہ موو نہیں ہوتے لیکن آپ انسان کا کمال دیکھیے‘ اس ریجن میں بھی سیکڑوں ہزاروں سال سے لائف چل رہی ہے‘ سڑکیں بھی موجود ہیں‘ مارکیٹیں بھی ہیں‘ ریستوران اور بارز بھی ہیں‘ سرکاری دفاتر بھی ہیں اور سکول بھی اور یہ سب اس ایکسٹریم ویدر میں بھی رواں دواں ہیں‘ اومیا کون میں سکول صرف اس وقت بند ہوتے ہیں جب گائوں کا درجہ حرارت منفی 55 ڈگری ہو جاتا ہے ورنہ اس سے قبل
سکول اور دفتر دونوں کھلے رہتے ہیں اور لوگ اور بچے حاضر بھی ہوتے ہیں‘ ان لوگوں کے لیے سردیوں کا موسم آئیڈیل بھی ہوتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ راستے کے تمام دریا اور جھیلیں جم جاتی ہیں ‘ یہ سڑکیں بھی بن جاتی ہیں اور ان پر ٹرک چل کر پورے علاقے کے لیے سال بھر کی خوراک اور ایندھن کا بندوبست کر دیتے ہیں جب کہ گرمیوں میں درمیان میں دریا اور جھیلیں حائل ہو جاتی ہیں اور یہ علاقے کو باقی روس سے کاٹ دیتی ہیں۔
آپ اس علاقے کی تاریخ اور جغرافیہ دیکھ لیں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اس پورے علاقے میں منفی 71 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھی کسی دور میں 23 لوگ نہیں مرے جب کہ ہم نے مری سے منفی دو سینٹی گریڈ پر8جنوری کو 23 لاشیں اٹھائیں‘ کیوں؟ مری اور اومیا کون میں اتنا فرق کیوں ہے؟ آپ نے سوچا؟ یہ یاد رکھیں دنیا میں موسم ایشو نہیں ہوتا‘ موسم کی تیاری ایشو ہوتی ہے‘
آپ اگر سردی یا گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں اور آپ نے اگر ذہنی اور جسمانی طور پر تیاری نہیں کی تو پھر آپ لاہور‘ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں گے یا کراچی میں ہیٹ سٹروک کا شکار ہو کر دو ہزار مُردوں میں شامل ہو جائیں گے یا پھر سیلاب میں بہہ جائیں گے‘ اصل ایشو تیاری ہے اور میں 87 ملکوں کی سیاحت اور نارتھ پول
اور سائوتھ پول کے تجربات سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں ہم لوگ تیاری کے معاملے میں بدترین لوگ ہیں‘ دنیا میں لوگ سردی اور گرمی کا چھ ماہ پہلے بندوبست شروع کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے پاس اگلے دن کے لیے ماچس‘ موم بتی اور چائے کی پتی نہیں ہوتی لہٰذا یہ واقعہ تیاری کی کمی کی بدترین مثال ہے‘ مری کا واقعہ افسوس ناک بلکہ عبرت ناک ہے لیکن سوال یہ ہے جس قوم نے مشرقی
پاکستان کے سانحے سے کچھ نہیں سیکھا وہ مری کے واقعے سے کیا سیکھے گی لیکن میں اس کے باوجود وِسل بجانا اپنا فرض سمجھتا ہوں ‘ میری بات کوئی سنے یا نہ سنے لیکن میں ٹین ڈبہ ضرور بجائوں گا‘ ہو سکتا ہے کوئی ایک کان یا کوئی ایک ضمیر زندہ ہو اور یہ اپنے لیے یا دوسروں کے لیے کوئی پالیسی بنا لے‘ شاید کسی ایک شخص کی وجہ سے کوئی ایک خاندان بچ جائے۔
سانحہ مری کے تین ذمہ دار ہیں‘ سیاح‘ مری کے لوگ اور حکومت‘ہم سب سے پہلے سیاحوں کی کوتاہیاں ڈسکس کرتے ہیں‘ ہمیں ماننا ہوگا ہماری آبادی کا نوے فیصد حصہ گرم علاقوں سے تعلق رکھتا ہے‘ ہم برف اور پہاڑی علاقوں کے ایشوز سے سرے سے واقف نہیں ہیں‘ پاکستان میں پچھلے بیس برسوں میں سڑکوں کا جال بچھ گیا اور لوگوں کے پاس گاڑیاں بھی آ گئیں لیکن قوم ابھی ذہنی طور پر
گاڑیوں اور سڑکوں کے قابل نہیں ہوئی چناں چہ لوگ اچانک پورے خاندان کو گاڑیوں میں ٹھونستے ہیں اور کسی تیاری اور انفارمیشن کے بغیر مری‘ کاغان‘ سوات اور گلگت بلتستان کی طرف نکل جاتے ہیں اور گرمی ہو یا سردی کسی نہ کسی آفت کا شکار ہو جاتے ہیں‘ میرا ہر ویک اینڈ مری میں گزرتا ہے لہٰذا میں سات برسوں سے لوگوں کو بچوں سمیت سڑکوں پر خوار ہوتا دیکھ رہا ہوں‘ لوگ سلیپر‘ کھلے جوتوں اور ہلکے پھلکے کپڑوں میں چھوٹی گاڑیوں اور ویگنوں میں سوار ہوتے ہیں اور جگہ جگہ
پھنستے اور دھنستے چلے جاتے ہیں‘ بچے سڑکوں پر رو رہے ہوتے ہیں‘ خواتین قے کر رہی ہوتی ہیں اور بزرگ سر پکڑ کر کناروں پر بیٹھے ہوتے ہیں چناں چہ میں اس سانحے کا سب سے بڑا ذمہ دار عام لوگوں کو سمجھتا ہوں‘ آپ خود سوچیے جس شہر میں صرف اڑھائی تین ہزار گاڑیوں کی پارکنگ ہو اس میں اچانک لاکھ گاڑیاں آ جائیں گی اور شہر میں صرف دو ہزار کمرے ہوں گے اور وہاں چار لاکھ لوگ آ جائیں گے تو اس شہر کا کیا بنے گا؟ یہ اتنے لوگوں کی کیسے ٹیک کیئر کرے گا؟ دوسرا برف کا
ایک پروٹو کول ہوتا ہے‘ آپ کے پاس جب تک فور بائی فور جیپ نہ ہو یا گاڑی کے چاروں پہیوں پر زنجیر نہ چڑھی ہو‘ آپ کے پاس اضافی پٹرول‘ برف ہٹانے کے لیے بیلچہ‘ دو دن کی تیار خوراک‘ پانی ‘ دودھ‘ کمبل‘ واٹر پروف جیکٹس‘ اونی ٹوپیاں‘ مفلر‘ دو دو سویٹر‘ واٹر پروف دستانے‘ واٹر پروف اینٹی سلیپری لانگ شوز‘ ٹارچ اور ٹریکنگ سٹکس نہ ہوں آپ کو کسی قیمت پر برفانی علاقے کا رخ نہیں کرنا چاہیے بالخصوص اس وقت جب آپ کے ساتھ بارہ سال سے کم عمر بچے یا ستر سال سے بڑے
بزرگ بھی ہوں‘ تیسری بات ویک اینڈز یا چھٹیوں کے دن برفانی علاقوں یا سیاحتی مقامات کی وزٹ کے لیے بدترین دن ہوتے ہیں‘ کسی سمجھ دار شخص کو ان دنوں میں فیملی کے ساتھ کسی سیاحتی مقام کا رخ نہیں کرنا چاہیے اور آپ کو اگر زیادہ ہی شوق ہو تو پھر کمرے‘ ہوٹل اور باقی ضروریات کا بندوبست کریں اور پھر گھر سے نکلیں ورنہ یہ سیدھی سادی خودکشی ہو گی‘چوتھی بات برسات کے موسم میں بھی پہاڑی علاقوں میں ہرگز نہ جائیں‘ بارش میں دنیا کے تمام پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ
ہوتی ہے اور پہاڑی تودے اور چٹانیں گرنے سے ہر سال سیکڑوں خاندان دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں‘ گاڑیاں بھی ہفتہ ہفتہ لینڈ سلائیڈنگ میں پھنسی رہتی ہیں‘ آپ اس پروٹوکول کو بھی پلے باندھ لیں اورپانچویں بات آپ اگر برف باری میں پھنس گئے ہیں تو گاڑی میں محصور نہ رہیں‘ گاڑی سائیڈ پر لگائیں اور خاندان کو لے کر پیدل نکل جائیں اور آپ کو جہاں بھی پناہ ملتی ہے آپ فوراً لے لیں‘ گاڑی کی
قربانی دے دیں لیکن اپنے آپ اور خاندان کو بچا لیں اور یہ اگر ممکن نہ ہو تو ہر پندرہ منٹ بعد گاڑی سے اتر کر اس کے تمام دروازوں کی سائیڈز اور سائیلنسر سے برف ہٹا دیں ورنہ دروازوں کے باہر برف جمع ہو جائے گی‘ یہ مکمل بند ہو جائیں گے اور آپ گاڑی سے باہر نہیں نکل سکیں گے‘ یہ بھی یاد رکھیں مسلسل ہیٹر چلنے سے گاڑی کے اندر آکسیجن کم ہو جاتی ہے اور اگر اس دوران سائیلنسر کے سامنے برف جمع ہو جائے تو کاربن مونو آکسائیڈ واپس گاڑی کے اندر آ جاتی ہے اور یہ گیس خاموش قاتل ہے‘
اس کی بو یا ذائقہ نہیں ہوتا‘ یہ جب آتی ہے تو گاڑی میں موجود لوگوں کو محسوس ہوتا ہے ہمیں نیند آ رہی ہے جب کہ یہ بڑی تیزی سے موت کی وادی میں گر رہے ہوتے ہیں لہٰذا گاڑی کا ہیٹر چلائیں تو شیشے ہلکے سے نیچے ضرور رکھیں اور اگر برف میں پھنس جائیں تو ہر دس پندرہ منٹ بعد نیچے اتر کر دروازوں کے ساتھ ساتھ سائیلنسر کے سامنے سے بھی برف ہٹاتے رہیں اور آخری بات آپ جہاں بھی جا رہے ہیں خدا کے لیے جانے سے پہلے موسم کا حال ضرور جان لیا کریں‘ گوگل نے موسم کو اب راز نہیں رہنے دیا‘ یہ آپ کو منٹ بائی منٹ کا حساب بھی دے دیتا ہے‘آپ یہ حساب ضرور دیکھ لیا کریں‘ آپ کو اگر راستے
میں پولیس یا انتظامیہ بھی روکے تو اسے قدرت کی طرف سے اشارہ سمجھ کر رک جایا کریں‘ آپ جب ضد کرتے ہیں تو یہ ضد آپ اور آپ کے خاندان کی جان لے لیتی ہے‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے مری میں بہت اچھا گھر دے رکھا ہے لیکن میں درجنوں مرتبہ راستے سے واپس آیا ہوں‘ مجھے اگر مری پہنچ کر بھی رش محسوس ہو تو میں چپ چاپ واپس آ جاتا ہوں یا گاڑی سائیڈ پر لگا کر پیدل گھر چلا جاتا ہوں‘ کیوں؟ کیوں کہ میں سمجھتا ہوں دنیا میں قدرت کے اشاروں سے ٹکرانے سے بڑی بدبختی کوئی نہیں ہوتی۔
میں ان شاء اللہ اگلے کالم میں مری کے لوگوں اور حکومت کے ظلم کا ذکر کروں گا۔