فواد حسن فواد ملک کے نامور بیورو کریٹ تھے‘ یہ 33سال بیوروکریسی میں گزار کر جنوری 2020ء میں ریٹائر ہو ئے اور اب انتہائی مزے دار اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں‘ کتابیں پڑھتے ہیں‘ شاعری کرتے ہیں‘ دوستوں کے ساتھ گپ لگاتے ہیں اور نیب کے مقدمات بھگتتے ہیں‘ آپ ان سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن آپ ان کے کریکٹر‘ ایمان داری‘ حب الوطنی اور پروفیشنل ازم پر انگلی نہیں اٹھا سکتے
‘ یہ حقیقتاً عزت دار اور ہر قسم کی آلائشوں سے پاک شخص ہیں‘ میں جب بھی لاہور جاتا ہوں‘ ان سے وقت لیتا ہوں اور گھنٹہ آدھ گھنٹہ ان کی گفتگو سنتا ہوں‘ یہ بیورو کریسی اور حکومت کاری کی لائبریری ہیں‘ ملک کے ہر اہم واقعے نے ان کے سامنے پرورش پائی تھی یا یہ اس کا پارٹ رہے تھے لہٰذا ہم انہیں عینی شاہد کہہ سکتے ہیں‘ یہ سروس کے آخری اڑھائی سال وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور اس سے پہلے سیکرٹری ٹو پی ایم رہے‘ یہ ملک کی اہم ترین سرکاری پوزیشن تھی چناں چہ پی ٹی آئی کے دھرنے سے لے کر ڈان لیکس تک اور پانامہ سے لے کر 2018ء کے الیکشنز تک ملک کا ہر اہم واقعہ فواد صاحب کے سامنے پیدا اور جوان ہوا‘ میری ان سے سروس کے دوران ملاقاتیں نہیں تھیں لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نیاز مندی شروع ہوئی اور یہ تاحال قائم ہے‘ مجھے ان کی ایک اور خوبی نے بھی بہت حیران کیا‘ ان سے جب بھی اور جو بھی پوچھا فواد صاحب نے بلاخوف اور تردید من وعن بتا دیا اور یہ ذرا سے بھی ابہام کا شکار نہیں ہوئے‘ یہ ایک سال اورچھ ماہ نیب کی قید میں بھی رہے‘ قید ان کی زندگی کا خوف ناک ترین واقعہ تھی‘ یہ بتاتے ہیں ان برسوں نے انہیں سسٹم کی ساری خرابیاں اور سنگ دلیاں سمجھا دیں‘ یہ برملا کہتے ہیں ہمارا ملک ہمارے بچوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا‘ ان کا کہنا ہے میں پوری زندگی مصروف رہا‘ میں اس دوران اپنے بچوں کے ساتھ وقت نہیں گزار سکا‘ مجھے اب اس ’’گناہ‘‘کا بہت احساس ہوتا ہے‘ میں اپنی بیٹی کے ساتھ بھی وقت نہیں گزار سکا اور بیٹے کے بچپن اور جوانی کو بھی انجوائے نہیں کر سکا‘ مجھے اگر اپنی زندگی ریوائنڈ کرنے کا موقع ملے تو میں 18 گھنٹے اپنی فیملی کے ساتھ گزاروں گا اور اپنے پروفیشن کو صرف چھ گھنٹے دوں گا‘ ان کا صاحب زادہ امریکا میں کام کرتا تھا‘ وہ ان کے کیس کے دوران پاکستان آ گیا‘ یہ اسے روز قائل کرتے ہیں آپ واپس چلے جائو‘ کام کرو اور مزے سے اپنی زندگی گزارو لیکن یہ اپنے والد کو اکیلا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں‘
فواد صاحب اس پر بہت پریشان ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں بیٹا اگر لاہور میں باہر نکلا‘ اس سے کوئی غلطی ہو گئی یا کسی نے اس کے ساتھ زیادتی کر دی تو میرے سارے گناہ بھی اس کے کھاتے میں درج ہو جائیں گے اور اس کی زندگی خراب ہو جائے گی لیکن بیٹا‘ بیٹا ہے اور یہ فواد صاحب کا بیٹا ہے‘ یہ والد کا یہ حکم ماننے کے لیے تیار نہیں لہٰذا فواد صاحب دن رات بیٹے کے لیے پریشان رہتے ہیں۔
میں نے دو دن قبل فواد صاحب کو فون کیا اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے درمیان موجود کشمکش کے بارے میں پوچھا‘ فواد صاحب کا کہنا تھا میں موجودہ کنٹروورسی کے بارے میں نہیں جانتا لیکن یہ دونوںلوگ غلط ہیں‘ میں نے پوچھا’’کیا رانا شمیم واقعی ایکسٹینشن چاہتے تھے‘‘ فواد صاحب کا کہنا تھا ’’سو فیصد اور رانا صاحب نے
اس کے لیے سفارشیں بھی کرائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ ایکسٹینشن کیوں چاہتے تھے؟‘‘ فواد صاحب نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’میں پانچ سال وزیراعظم آفس میں رہا‘ مجھے اس دوران ایک بھی ایسا سرکاری افسرنہیں ملا جس نے ایکسٹینشن کے لیے کوشش نہ کی ہو‘ صدر پاکستان سے لے کر چپڑاسی تک سرکار کا کوئی عہدیدار نوکری چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘یہ موت تک اپنے عہدے سے چپکے رہنا چاہتا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’شاید سرکاری ملازمین کی زندگی میں ملازمت کے
علاوہ کوئی تفریح‘ کوئی چارم نہیں ہوتا‘ رانا شمیم بھی اس چارم کا شکار تھے لہٰذا انہوں نے ایکسٹینشن کے لیے سرتوڑ کوشش کی‘ پارٹی کے عہدیداروں سے بھی سفارش کرائی‘ ڈاکٹر آصف کرمانی بھی ان کے سفارشی تھے‘ وزیراعظم نے میری رائے لی‘ میں نے انکار کر دیا‘ میرا خیال تھا ایکسٹینشن نہیں بنتی‘ یہ میرٹ کا قتل ہو گا‘ وزیراعظم نے’’ایکسٹینشن ری جیکٹ‘‘ کر دی‘ رانا شمیم میرے ساتھ ناراض ہو گئے‘ یہ جج تھے‘ انہوں نے کابینہ کے کسی فیصلے کو جوازبنا کر مجھے توہین عدالت کا
نوٹس دے دیا‘یہ مجھے اپنی عدالت میں بھی دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی خواہش پوری ہونے سے پہلے مجھے نیب نے گرفتار کر لیا‘ میں نیب کی حراست میں تھا لیکن رانا صاحب کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے مجھے گلگت طلب کر لیا‘ ڈی جی نیب لاہور نے ان کا نوٹس پہنچا یا‘ رات تین بجے مجھے گاڑی میں اسلام آباد پہنچایا گیا‘ ہم اگلی صبح فلائیٹ کے ذریعے گلگت پہنچے‘ وہ رات لاک اپ میں گزاری اور اگلے دن مجھے رانا شمیم کی عدالت میں پیش کر دیا گیا‘ میں نے اپنی شکل دکھائی اور
مجھے واپس جانے کی اجازت دے دی گئی‘‘ میں نے ان سے پوچھا اور جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟ یہ بولے’’ میں ان پر تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن پوری دنیا جانتی ہے میاں نواز شریف کو کیوں اور کیسے نااہل کیا گیا تھا اور 2018ء کے الیکشنز کیسے ہوئے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ درست ہے آپ کو جسٹس ثاقب نثار نے پرنسپل سیکرٹری کی حیثیت سے دو بار عدالت طلب کیا تھا‘‘ فواد صاحب ہنس کر بولے ’’یہ درست ہے مجھے پہلی بار دل کے سٹنٹس کی قیمت کم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا‘
میں عدالت میں حاضر ہوا‘ چیف جسٹس میرے ساتھ شائستگی اور تہذیب کے ساتھ پیش آئے‘ طلب کرنے پر معذرت کی اور فرمایا‘ ہم آپ کی مدد لینا چاہتے ہیں‘ دل کے سٹنٹ چار ساڑھے چار لاکھ روپے میں مل رہے ہیں اور غریب مریض یہ رقم ادا نہیں کر سکتے‘ آپ درمیان میں آئیں‘ امپورٹرز اور مینوفیکچررز کو وزارت صحت کے فیصلہ سازوں کے ساتھ بٹھائیں اور مسئلہ حل کرا دیں‘ میں نے دو دن مانگے‘
انہوں نے مجھے ایک ہفتہ دے دیا‘ میں نے میٹنگ کی اور تین دن میں مسئلہ حل کرا دیا‘جسٹس ثاقب نثار نے بھری عدالت میں میری تعریف کی‘ ان کا کہنا تھا افسر ہوں تو فواد حسن فواد جیسے ہوں‘ میرے کولیگز نے مجھے مبارک باد دی اور میں مطمئن ہو کر آفس آ گیا لیکن پھر 48 گھنٹے بعد 3فروری 2018ء کو مجھے عطاء الحق قاسمی صاحب کی تقرری کے ’’جرم‘‘ میں نوٹس آ گیا‘ مجھے چیف جسٹس کی عدالت میں طلب کیا گیا‘ میں پیش ہوا تو صورت حال بالکل مختلف تھی‘ چیف جسٹس نے بھری عدالت میں کہا‘
کون ہے یہ فواد حسن فواد؟ میں کھڑا ہوا اور پھر میرے ساتھ وہ ہوا جسے میں آج تک بھلا نہیں سکا‘ مجھ پر الزام لگایا گیا میں نے عطاء الحق قاسمی کو چیئرمین پی ٹی وی بنوایا تھا‘ میں نے عرض کیا‘ سر ہم نے وزرات اطلاعات اور پی ٹی وی کے بورڈ کو تجویز بھجوائی تھی‘ فیصلہ متعلقہ وزارت اور بورڈ نے کیا ‘ آپ انہیں بلا کر پوچھ لیں لیکن وہ دن اور پچھلا دن سو فیصد مختلف تھا‘ میں آج بھی چار سال بعد اس کیس میں پیشیاں بھگت رہا ہوں‘‘ میں نے ان سے پوچھا’’کیا آپ رانا شمیم اور ثاقب نثار دونوں کو
غلط سمجھتے ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ میں فیصلہ کرنے والا کون ہوتا ہوں‘ عدالتیں جانیں اور ان کے جج جانیں لیکن سچائیاں اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں‘‘۔میں فواد صاحب کے ساتھ بحث کرنا چاہتا تھا لیکن میں نہ کر سکا لیکن ہمیں بہرحال ماننا پڑے گا معاشروں کی عمارتیں انصاف کی بنیادوں پرکھڑی ہوتی ہیں‘ انصاف جتنا زیادہ اور اچھا ہو گا ملک اتنا ہی ترقی کرے گا اور اس میں امن و امان اور سکون بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا لیکن اگر یہ بنیاد کم زور ہو گی تو پھر عمارت بن سکے گی اور نہ کھڑی رہ سکے گی
اور ہمارے ملک میں انصاف سرے سے ہی موجود نہیں‘ ہم بچپن میں سنتے تھے پاکستان میں انصاف فقط امیر اور طاقتور کو ملتا ہے‘ غریب صرف سزا پاتا ہے لیکن ہم آج کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں امیر ہو یا غریب پاکستان میں یہ دونوں انصاف سے محروم ہیں‘ افتخار محمد چودھری‘ جنرل پرویز مشرف‘ آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ جسٹس فائز عیسیٰ اور فواد حسن فواد اس کی تازہ ترین مثال ہیں‘
یہ تمام لوگ طاقتور تھے لیکن یہ بھی جب عدالتوں میں پہنچے توعبرت کی نشانی بن گئے اور اگر اب جسٹس ثاقب نثار اور چیف جج رانا شمیم کو بھی عدالت نے طلب کر لیا تو آپ ان کا حشر بھی دیکھ لیجیے گا لہٰذا پھر سوال پیدا ہوتا ہے ہم جب یہ جانتے ہیں معاشرے کفر کے ساتھ سلامت رہ سکتے ہیں لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں اور ملک کو ایک غیر جانب دار اور شفاف نظام عدل ہی بچا سکتا ہے تو ہم ایک ہی بار ملک میں انصاف قائم کیوں نہیں کر دیتے؟ ایک ایسا نظام عدل کیوں نہیں لے آتے جو صرف جرم دیکھے مجرم کا چہرہ نہ دیکھے‘ ہم آخر کب تک کھلی آنکھوں سے مکھیاں کھاتے رہیں گے؟۔