یہ دو خطوں کی کہانی ہے‘ پہلا خط شریف فیملی نے 15 نومبر 2016ء کو سپریم کورٹ میں پیش کیا‘ یہ قطر کے شہزادے اور سابق وزیراعظم اور وزیرخارجہ حمد بن جاسم الثانی کا پاکستانی عدلیہ کے نام تھا اور اس خط میں اعتراف کیا گیا تھا‘ میاں محمد شریف نے 1980ء میں قطر کے الثانی گروپ میںایک کروڑ20 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کی‘ منافع سے ایون فیلڈ بلڈنگ میں چار فلیٹس خریدے ‘
میاں شریف نے وصیت کی یہ فلیٹس پوتے حسین نواز کو دے دیے جائیں‘ 2006ء میں الثانی خاندان اور حسین نواز کے درمیان معاملات طے پائے اور یہ چاروں فلیٹس ان کے نام کردیے گئے ‘ یہ خط آیا اور پورے ملک میں مذاق بن گیا‘ عدلیہ نے اسے قبول کیا اور نہ سیاسی جماعتوں اور عوام نے‘ یہ خط آج بھی سیاست اور میڈیا میں ’’قطری خط‘‘ جیسی جگت بنا ہوا ہے‘ آج بھی کوئی شخص اسے سچ ماننے کے لیے تیار نہیںاور یہ خط کہاں سے آیا تھا؟ یہ ایک اسلامی ملک سے آیا تھا اور یہ اس اسلامی ملک کے شاہی خاندان کے شہزادے اور سابق وزیراعظم حمد بن جاسم الثانی نے جاری کیا تھا اور یہ باقاعدہ دو حکومتوں قطر اور پاکستان کا تصدیق شدہ تھا لیکن یہ اس کے باوجود ناقابل قبول تھا۔دوسرا خط گلگت اور بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے 15 نومبر کو جاری کیا اور اس پر لندن کے ایک عام سے نوٹری پبلک کی مہر لگی تھی‘ آپ اس خط کی قسمت ملاحظہ کیجیے‘ یہ صرف میڈیاکے ذریعے جاری ہوا اور ملک کے کسی فورم پر اس کے اصل ہونے کو چیلنج نہیں کیاگیاتاہم یہ سوال ضروراٹھائے جا رہے ہیں رانا شمیم کو اپنا حلف نامہ لندن سے نوٹری پبلک کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد سے بھی کراسکتے تھے یالندن کے نوٹری پبلک ’’چارلس ڈروسٹن گیتھری‘‘ نے رانا شمیم اور شریف فیملی دونوں کی دستاویزات کی تصدیق کی لہٰذاثابت ہوتا ہے حلف نامے کے پیچھے شریف فیملی ہے یا یہ خط مریم نواز کے کیس کی سماعت سے دو دن پہلے کیوں جاری کیا گیا اوراس میں اس جج کو کیوں متنازع بنایا گیا جس نے 17 نومبر کو اپیل سننی تھی وغیرہ وغیرہ‘ یہ سارے سوال ضرور اٹھائے گئے لیکن کسی شخص نے اس حلف نامے کو جعلی‘ لندنی خط یا ردی کا ٹکڑا قرار نہیں دیا‘ کیوں؟ آخر ان دو خطوں میں کیا فرق ہے؟ ان دونوں میں مذہب کا فرق ہے‘ قطری خط ایک اسلامی ملک سے آیا تھا جب کہ لندن کا تصدیق نامہ برطانوی نوٹری پبلک نے جاری کیا تھااور آپ دونوں کی وقعت کا اندازہ کرلیجیے‘ اسلامی ملک کا شاہی خط بھی مذاق ہے جب کہ کرسچین ملک کی عام نوٹری پبلک مہر بھی مقدس ہے۔ہم اس فرق کو عام زبان میں کریڈیبلٹی کا
فرق کہہ سکتے ہیں‘میں نے چند دن قبل مریم نواز کو کہتے سنا‘ لندن کے نوٹری پبلک نے رانا شمیم کے حلف نامے کی تصدیق کی اور انگلینڈ کے نوٹری پبلک اور جج ہمارے جیسے نہیں ہیں‘ وہ ہمیشہ حق اور سچ پر مبنی فیصلے کرتے ہیں‘آپ کو یاد ہو گا 27 ستمبر 2021ء کو نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے)نے میاں شہبازشریف اورسلیمان شہباز کے حق میں فیصلہ دیا تھا‘ اس وقت میاں شہباز شریف نے بھی فرمایا تھا برطانیہ کی عدالتیں ہماری جیسی نہیںہیں وہاں اس طرح فیصلے نہیں ہوتے‘
دو اگست 2021ء کولندن ہائی کورٹ نے نیب کو براڈ شیٹ کمپنی کوساڑھے22ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیااور پاکستان کویہ رقم ادا کرنا پڑی‘ میں نے اس وقت حکومتی وزراء کو یہ کہتے سنا برطانوی عدالتیں آزاد فیصلے کرتی ہیں اور انہیں قبول کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا‘ آپ کو الطاف حسین کیس بھی یاد ہو گا‘سکارٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کو گرفتار کر لیا اور اس کے بعد ایم کیوایم کے پاس بھی اس فیصلے کو ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا اور عالمی عدالت انصاف نے
جولائی 2019ء میں کلبھوشن یادیو کو نظر ثانی کی اپیل کا حق دینے کا فیصلہ کیا اور پاکستان اپنا قانون بدلنے پر مجبور ہو گیا‘ کیوں؟ ہمیں آج ماننا ہوگا ہم 58 اسلامی ملکوں میں ایک بھی ایسا ملک نہیں جس کے عدالتی فیصلے یا نوٹری پبلک کے تصدیق نامے کو جینوئن اور سچا تسلیم کر لیا جائے جب کہ کرسچین ملکوں کے عام سے نوٹری پبلک کے تصدیق نامے بھی پوری دنیا میں تسلیم کیے جاتے ہیں‘
کیا یہ ہم مسلمانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟۔یہ معاملہ صرف انصاف تک محدود نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے ہرشعبے میں ساکھ کا یہی حال ہے‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے آپ علاج کہاں کرانا چاہیں گے‘ سعودی عرب یا امریکا؟ آپ کس ڈاکٹر‘ کس سرجن کو اہمیت دیں گے‘ مسلمان یا عیسائی؟ آپ اپنے بچوں کو اسلامی ملکوں میں تعلیم دلاناچاہیں گے یا ہارورڈ‘ سٹینفورڈ‘ کولمبیا‘ آکسفورڈ‘ کیمبرج یا ہائیڈل برگ میں؟ آپ کسی اسلامی ملک کی شہریت لینا چاہیں گے ‘ یورپ‘ برطانیہ‘ امریکا یا کینیڈا کی
یا سعودی عرب کی؟ آپ ادویات کس ملک کی استعمال کریں گے‘ کورونا ویکسین کہاں سے منگوائیں گے‘ کپڑے اور جوتے کس ملک سے خریدنا چاہیں گے‘ کتابیں اور ریسرچ پیپر کہاں سے منگوائیں گے اور جائے نماز اور تسبیح کس ملک سے خریدنا چاہیں گے؟ ان سوالوں کے جواب ہمارا حال اور مستقبل دونوں طے کریں گے‘ جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف دونوں لندن میں ہیں تو محفوظ ہیں‘
یہ اگر کسی اسلامی ملک میں ہوتے تو آج ان کی کیا حالت ہوتی؟ میاں نواز شریف چھ سال سعودی عرب میں رہے‘ میاں صاحب نے پھر بریگیڈیئر نیاز اور پرنس عبداللہ کی مدد سے دیار حبیبؐ سے لندن جانے کی اجازت لے لی اور مسجد نبوی میں شکرانے کے نفل پڑھ کر لندن چلے گئے‘ جنرل پرویز مشرف دوبئی میں تھے‘ یہ لندن پہنچے اور یہ اب خود کو آزاد اور محفوظ سمجھتے ہیں‘ عرب شہزادے بھی
اپنی دولت کویورپ میں محفوظ سمجھتے ہیںاور اسلامی ملکوں کے ڈاکٹرز اور انجینئرز کو بھی اگر اسلامی ملک اور یورپ دونوں میں سے کسی ایک کا آپشن دیا جائے تو یہ کرسچین ملک کا انتخاب کرتے ہیں لہٰذا ہمیں پھر ماننا ہوگا اسلام دنیا کا شان دار ترین مذہب ہے‘ یہ قدرت کا ماسٹر پیس ہے لیکن بدقسمتی سے یہ بدترین لوگوں میں آ پھنسا ہے‘ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا یعنی آپ اگر صرف صاف ستھرے ہو جائیں تو آپ آدھے ایمان کے حق دار ہو جاتے ہیں اور جنت کے
لیے ایک فیصد ایمان بھی کافی ہوتا ہے لیکن آپ مسلمانوں کی ذاتی صفائی سے لے کر گلی محلوں اور شہروں کی صفائی تک دیکھ لیں کیا ہم صفائی کے کسی بھی معیار پر پورے اترتے ہیں؟ اسلامی ملک فضائی آلودگی کے انتہائی بلند درجوں پر فائز ہیں‘ آپ کسی مسلمان ملک میں چلے جائیں آپ کو گرد‘ دھوئیں‘ بو اور کچرے سے ضرور واسطہ پڑے گا اور آپ کسی عیسائی اور یہودی ملک میں چلے جائیں آپ کو ہر چیز چمکتی‘ دمکتی اور صاف ملے گی‘ آپ خوراک کا معیار بھی دیکھ لیں‘ ملاوٹ ہمارے مذہب میں حرام ہے لیکن مسلمان ہو اور وہ ملاوٹ نہ کرے یہ ناممکن سا محسوس ہوتا ہے‘ پرائیویسی‘ شائستگی‘
ٹھہرائو‘ دوسروں کے نظریات کا احترام‘ پرسنل سپیس‘ احترام انسانیت‘ جانوروں کے حقوق‘ پانی‘ ہوا اور درختوں کی حفاظت‘ جنگلی حیات کا تحفظ‘ اداروں کا احترام‘ بچوں خواتین اور بزرگوں کی عزت‘ علاج‘ تعلیم اور انصاف کی مفت فراہمی‘ مذہبی آزادی‘ سوچنے‘ بولنے اور لکھنے کی فریڈم‘ چادر اور چاردیواری کا تقدس‘ انسانی جان کی حرمت‘ یتیم بچوں کی پرورش اور کرائم فری سوسائٹی اللہ نے یہ سب ہم پر واجب کیا تھا لیکن آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں اسلامی ملکوں میں ان میں سے کون کون
سی چیز موجود ہے؟ بادشاہت اور آمریت پوری دنیا میں ختم ہو چکی ہے لیکن یہ اسلامی ملکوں میں آج بھی ظاہری اور باطنی دونوں شکلوں میں موجود ہے‘ ہماری خانہ کعبہ میں طواف کے دوران بھی جیبیں کٹ جاتی ہیں اور ہم سے حج اور عمرے میں بھی فراڈ ہو جاتاہے‘ ہمارے شہد خالص ہوتے ہیں‘ کھجوریں اور نہ آب زم زم‘ ہم مسلمان ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے ہوئے بھی منٹ نہیں لگاتے‘ ہم دہشت گردی‘ جرائم‘ فراڈ اور انسانی حقوق میں بھی بدتر ہیں اور علم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور لیونگ سٹینڈرڈ میں بھی لہٰذا پھر
سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم جوتوں کے حق دار نہیں ہیں؟ کیا ہم ذلت کو سر سے لے کر پائوں تک ڈیزرو نہیں کرتے؟۔میرے ایک دوست ایک بار اپنے ایک کرسچین ملازم کی ٹھکائی کر رہے تھے‘ میں نے بڑی مشکل سے اس کے ہاتھ سے جوتا لیا اور پھر پوچھا ’’تم اس بے چارے کوکیوں مار رہے تھے‘‘ وہ سانس سنبھال کربولے ’’یہ ہم مسلمانوں کی حق تلفی کر رہا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘
وہ ہنس کر بولے’’یہ سودے میں پیسے مار رہا تھا‘ میں نے پکڑ لیا اور جوتا اتار کر کہا‘ بے شرم انسان بے ایمانی کرنا ہم مسلمانوں کا حق ہے‘ تمہیں کرسچین ہو کر بے ایمانی کرتے شرم نہیں آئی‘‘ میری ہنسی نکل گئی لیکن میں تھوڑی دیر بعد رو رہا تھااور وہ کرسچین ملازم ہنس رہا تھا۔میں اکثر محسوس کرتا ہوں ہم مسلمان دنیا میں مسلمان ہونے کی وجہ سے جوتے کھا رہے ہیں اور ہمیں آخرت میں اس لیے
جوتے پڑیں گے کہ ہم سرے سے مسلمان تھے ہی نہیں‘ رسولؐ کا نام ہم لیتے ہیں لیکن رسولؐ کے احکامات پر عمل غیرمسلم کرتے ہیں لہٰذا دنیا اور آخرت دونوں کے انعامات انہیں مل رہے ہیں‘ ہم یہاں بھی خالی ہاتھ ہیں اور ہمیں شاید وہاں بھی کچھ نہیں ملے گا‘ اسلامی دنیا اور مسلمان دونوں اخلاقیات کے خوف ناک بحران کا شکار ہیں۔