ارطغرل اور خلافت عثمانیہ کی بنیاد کو سمجھنے کے لیے ہمیں بارہویں صدی کے سنٹرل ایشیا کو جاننا ہو گا‘ سنٹرل ایشیا میں اس وقت سلجوق حکمران تھے‘ ان کی سلطنت آج کے ترکی پر مشتمل تھی‘ قونیہ دارالحکومت تھا اور یہ پورا علاقہ ارض روم کہلاتا تھا‘ سلجوقی ریاست کے ایک طرف منگول تھے‘ یہ مارتے‘ دھاڑتے اور کھوپڑیوں کے مینار بناتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے‘یہ سلجوقوں کو روند کر مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ جانا چاہتے تھے‘ دوسری طرف عیسائیوں کی بازنطینی ریاست تھی۔
یہ ریاست آج کے ترکی کے شہر اناطولیہ کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی بلیک سی اور استنبول سے ہوتی ہوئی پورے مشرقی یورپ پر مشتمل تھی‘یہ بھی سلجوق ریاست پر قبضہ کر کے اپنی سرحدیں چین تک وسیع کرنا چاہتے تھے‘ سلجوقی ریاست کا تیسرا حصہ ایوبی ریاست سے جڑا ہوا تھا‘ یہ حصہ شام‘ فلسطین اور مصر پر مشتمل تھا جب کہ سلجوقوں کی چوتھی سمت میں ایران تھا‘ سلجوق دور شورشوں کا زمانہ تھا‘ ہر طرف جنگ چل رہی تھی اور قتل وغارت گری کا بازارگرم تھا‘ منگول اور بازنطینی عیسائی دونوں بیت المقدس تک بھی پہنچنا چاہتے تھے لیکن دونوں کے عزائم کے راستے میں سلجوق اور ایوبی دو مضبوط ترین ریاستیں کھڑی تھیں‘ یہ دونوں ان دونوں کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے‘ منگول آج کا ازبکستان اور ایران فتح کر چکے تھے‘ خیوا کا حکمران خوارزم شاہ بھی راستے کا مضبوط کانٹا تھا‘ اس کی ریاست ہندوستان کے شمالی علاقوں سے لے کر جارجیا تک پھیلی تھی‘ چنگیز خان نے یہ کانٹا نکال دیا تھا‘ عراق میں عباسیوں کی حکومت تھی اور مصر میں مملوک خاندان برسر اقتدار تھا‘ یہ بھی بازنطینی اور منگول حکمرانوں کا ٹارگٹ تھے لیکن ایوبی ریاست اور سلجوق حکمرانوں کے ہوتے ہوئے مصر اور عراق پہنچنا مشکل تھا چناں چہ منگول اور بازنطینی عیسائی دونوں ایوبیوں اور سلجوقوں کے خلاف اکٹھے ہو گئے‘ یہ دونوں کو آپس میں لڑاتے بھی رہتے تھے تاکہ مسلمان مسلمان کے ساتھ لڑ لڑ کر کم زور ہو جائے۔
دوسرا منگول خود بھی ایوبیوں اور سلجوقوں پر حملے کرتے رہتے تھے اور تیسرا بازنطینی صلیبی جنگوں کے ذریعے ایوبی ریاست پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے لہٰذا دونوں ریاستیں باہمی اور بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے کم زور ہو رہی تھیں‘ بازنطینی اور منگولوں نے ایوبی اور سلجوق دونوں ریاستوں کے محلات میں اپنے جاسوس بھی چھوڑ رکھے تھے‘ یہ لوگ بھی بادشاہوں کو محلاتی سازشوں میں الجھا کر کم زور کرتے چلے جا رہے تھے چناں چہ وہ ایک مشکل دور تھا۔
سلجوق بادشاہ علاؤ الدین کیکباد سلجوق ریاست کا سلطان تھا‘ یہ منگولوں‘ ایوبیوں اور محل میں موجود غداروں سے بیک وقت لڑ رہا تھا‘ یہ کسی چوتھے محاذ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا لیکن اس کے خلاف ایک چوتھا محاذ بھی سر اٹھا رہا تھا اور وہ تھا بازنطینی حکمران‘ علاؤ الدین سلجوق جب منگولوں یا ایوبیوں سے لڑنے کے لیے نکلتا تھا تو اس کی پیٹھ ننگی ہو جاتی تھی اور اس پیٹھ پر بازنطینی چھرا گھونپنا شروع کر دیتے تھے‘ وہ یک سوئی قائم رکھنے کے لیے اپنی پیٹھ بازنطینی عیسائیوں سے بچانا چاہتا تھا لہٰذا علاؤالدین نے سلجوق اور بازنطینی ریاست کے ساتھ ساتھ آغوز قبائل آباد کرنا شروع کر دیے۔
آغوز ترکوں کے جری قبائل تھے‘ یہ تعداد میں 24 تھے‘ بھیڑ‘ بکریاں اور گھوڑے پالتے تھے‘ مرد تلوار بازی اور تیراندازی کے ایکسپرٹ تھے اور عورتیں نہایت عمدہ ریشمی قالین اور سوتی کپڑا بناتی تھیں‘ قبائل کے سربراہ ”بے“ کہلاتے تھے‘ قبائل کی زبانوں کے 37 ہزار لفظ بعد ازاں اردو میں شامل ہو ئے‘ ہماری زبان کا ہر تیسرا لفظ آغوزترک قبائل سے ہندوستان آیا تھا‘ یہ قبائل اس قدر جنگجو تھے کہ یہ کسی دوسرے قبیلے کے”بے“ کو بھی اپنا سربراہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے تاہم یہ سلجوق بادشاہ کو اپنا حکمران مانتے تھے۔
علاؤالدین سلجوق نے ان پر کنٹرول رکھنے کے لیے 24 قبائل کے سربراہوں کی ”بے مجلس“ بنا ئی اور سلجوق خاندان کے ایک شہزادے امیر سعادت کو اس کا سربراہ بنا دیا‘ یہ وزیر کہلاتا تھا‘ آغوز قبائل ریاست کے لیے دو کام کرتے تھے‘ یہ بازنطینی حملہ آوروں کا راستہ روکتے تھے اور اناطولیہ‘ مشرقی یورپ‘ ایران اور فلسطین جانے والی شاہراہ ریشم کے تجارتی قافلوں کی حفاظت کرتے تھے‘ قائی ان 24 آغوز قبائل میں سے ایک کم زور قبیلہ تھا‘ یہ لوگ تعداد میں بھی کم تھے اور مال مویشیوں اور دولت میں بھی تاہم اس کا بے سلیمان شاہ معزز اور بہادر شخص تھا۔
یہ اپنے قبیلے کے ساتھ آج کے شام کے شہر رقہ کی مضافاتی وادی میں آباد تھا‘ اس کے چار بیٹے تھے‘ ارطغرل کا دوسرا نمبر تھا‘ ارطغرل انتہائی بہادر‘ سمجھ دار اور ماہر جنگجو تھا‘ والد اس سے بہت محبت کرتا تھا‘ ارطغرل شکار کا رسیا تھا‘ یہ اپنے تین دوستوں ترگت‘ عبدالرحمن اور دون کے ساتھ شکار کھیلتا رہتا تھا‘ ارطغرل کے تینوں دوست یتیم تھے اور انہیں اس کی ماں حیمہ خاتون نے پالا تھا‘ وہ ارطغرل کے ساتھ پل کر جوان ہوئے تھے چناں چہ وہ اس پر جان چھڑکتے تھے۔
اس زمانے میں عالم اسلام میں دو عظیم صوفی دانش ور تھے‘ مولانا روم اور حضرت محی الدین ابن عربی‘ مولانا روم قونیہ میں رہتے تھے اور وہ سلجوق حکمرانوں کے روحانی استاد تھے جب کہ ابن عربی کا مدرسہ حلب شہر میں تھا‘ یہ دونوں صوفیاء کرام جنگوں اور تباہی کے شکار لوگوں کے دریدہ دل سیتے اور ابلتے ذہنوں پر مرہم رکھتے تھے‘ ابن عربی باطنی علوم کے ماہر تھے‘ یہ ایک بار اپنے مریدوں کے ساتھ جنگل سے گزر رہے تھے‘ ارطغرل شکار کے لیے نکلا ہوا تھا۔
اس نے ہرن کے ایک بچے پر تیر چلایا‘ ہرن کے بچے کی ٹانگ زخمی ہو گئی اور وہ دوڑ کر ابن عربی کے پاس چلا گیا‘ حضرت نے اس کی زخمی ٹانگ پر مرہم لگایا اور پٹی کر دی‘ ارطغرل اپنا زخمی شکار تلاش کرتا کرتا ابن عربی تک پہنچ گیا‘ حضرت نے اسے اپنے ساتھ بٹھایا‘ کھانا کھلایا‘ اس کی آنکھیں اور پیشانی دیکھی اور مسکرا کر فرمایا ”تمہیں جتنے ملکوں کے نام یاد ہیں تم وہ بولو“ ارطغرل کو جتنے نام آتے تھے وہ بول دیے‘ حضرت نے فرمایا ”بس تمیں صرف یہ یاد ہیں“ ارطغرل نے ذہن پر زور دے کر ان میں مکہ‘ مدینہ اور فلسطین بھی شامل کر دیے۔
حضرت ابن عربی مسکرائے اور فرمایا ”جاؤ یہ سارے ملک تمہارے ہوئے“ ارطغرل کا قبیلہ اس وقت قحط کا شکار تھا‘ برف باری سر پر تھی اور یہ لوگ اپنے جانوروں کے لیے خشک چارے تک کا بندوبست نہیں کر سکے تھے چناں چہ اس نے طنزیہ نظروں سے ابن عربی کی طرف دیکھا‘ مسکرایا اور اٹھ کر چلا گیا‘ ارطغرل کی ابن عربی سے دوسری ملاقات حلب شہر میں ہوئی‘ یہ اس وقت سلجوق خاندان کی ایک مفرور شہزادی حلیمہ کے عشق میں مبتلا تھا‘ قبیلہ اس عشق کے خلاف تھا‘ کیوں؟
کیوں کہ یہ شادی آغوز روایات کے بھی خلاف تھی اور یہ سیدھی سادی سلجوق حکومت کو آبیل مجھے مار کی دعوت دینے کے متراف بھی تھی اور قبیلے کی حالت یہ تھی اس کے پاس سردیوں میں سر چھپانے اور کھانے کے لیے گندم تک نہیں تھی‘ ارطغرل کے مزاج میں کمپرومائز کا مادہ نہیں تھا لہٰذا یہ ڈٹ گیا‘ یہ اس کی مشکل زندگی کا مشکل ترین دور تھا اور وہ اس دور میں دھکے کھاتا کھاتا ابن عربی کے مدرسے پہنچ گیا‘ ابن عربی نے اسے اپنے پاس مہمان رکھا‘ اس کی فکری رہنمائی کی‘ اس کو تسلی دی۔
میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں اس زمانے میں اسلامی ملکوں کے اندر ایک خاموش تحریک چل رہی تھی‘ یہ لوگ سفید داڑھی والے کہلاتے تھے‘ ان کی داڑھیاں چھوٹی اور سفید ہوتی تھیں‘ یہ انتہائی بااثر‘ امیر اور باعمل مسلمان تھے‘ ان کا ایک مضبوط جاسوس نیٹ ورک تھا‘یہ پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے تھے اور ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تھے‘ ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد تھا‘ اسلام اور عالم اسلام کی حفاظت‘ یہ اسلام کے لیے خطرہ بننے والے حکمرانوں تک کو قتل کر دیتے تھے۔
سفید داڑھی والے سلجوق‘ عباسی‘ ایوبی اور مملوک چاروں سے تنگ تھے‘ یہ سمجھتے تھے یہ لوگ اگر ایک دوسرے سے اسی طرح لڑتے رہے تو پھر پورے عالم اسلام پر منگول قابض ہو جائیں گے یا پھر بازنطینی عیسائی اسلامی ریاستوں کو ہڑپ کر لیں گے‘ ان کا خیال تھا پورے عالم اسلام کو ایک ایسی مضبوط ریاست چاہیے جو عیسائیوں اور منگولوں کا مقابلہ بھی کر سکے اور یہودی سازشوں کا تانا بانا بھی توڑ سکے‘ یہ لوگ ابن عربی سے متاثر تھے‘ ابن عربی نے ارطغرل کا رابطہ ان لوگوں سے کرا دیا۔
یہ لوگ اس سے متاثر ہوئے لیکن ان کا خیال تھا یہ ابھی اتنا میچور نہیں کہ یہ کوئی ریاست بنا اور چلا سکے لہٰذا ان لوگوں نے اس کی پرورش اور تربیت کا فیصلہ کر لیا‘ یہ لوگ ارطغرل کو ٹرینڈ کر رہے تھے لیکن اس دوران ایک اور ایشو پیدا ہو گیا‘سلیمان شاہ کینسر کی وجہ سے انتقال کر گیا اور بڑے بھائی نے حلیمہ سے شادی کرنے کے جرم میں ارطغرل کو قبیلے سے نکال دیا‘ ارطغرل بیوی کو لے کر قبیلے سے نکلا تو اس کی ماں حیمہ اور اس کے ساتھیوں نے بھی قبیلہ چھوڑ دیا۔
یہ چار سو لوگ تھے‘ یہ پناہ کی تلاش میں گھوڑوں پر خیمے باندھ کر دربدر پھرتے رہے‘ یہ کبھی شام کے جنگلوں میں پناہ لے لیتے تھے اور کبھی سلجوق ریاست میں جا چھپتے تھے لیکن انہیں کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں مل رہا تھا‘ یہ آخر میں دردر کی ٹھوکروں سے تنگ آ گئے اور انہوں نے واپس جانے اور اپنے قبیلے سے معافی مانگنے کا فیصلہ کر لیا‘یہ واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور اس چھوٹے سے واقعے نے آگے چل کر دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط خلافت کی بنیاد رکھ دی‘ ہم اس خلافت کو خلافت عثمانیہ کہتے ہیں (جاری ہے)۔