”سوشل میڈیا پر پچھلے دنوں ایک کالم بہت وائرل ہوا‘یہ کالم نو مسلم ڈاکٹر لارنس براؤن کے بارے میں تھا اور یہ جاوید چودھری نے لکھا تھا‘ کالم میں چودھری صاحب امریکن ڈاکٹر لارنس براؤن کا ذکر کرتے ہیں‘ ڈاکٹر لارنس براؤن عملی طور پر ایک ایتھیسٹ(لادین) تھے‘ 1990ء میں ان کی بیٹی حینا پیدا ہوئی‘ اس کے دل کی ایک شریان بندتھی‘ ڈاکٹر براؤن نے دعا کی اے خدا اگر تو کہیں ہے تو مجھے اس مسئلے سے نکال‘ میں اس کے بعد تیری راہ تلاش کروں گا۔
اللہ پاک نے مدد فرمائی‘ڈاکٹر براؤن کی بیٹی آپریشن کے بغیر صحت یاب ہو گئی‘ ڈاکٹروں نے اس معجزے کی بے شمار میڈیکل وجوہات بیان کیں لیکن ڈاکٹر براؤن اندر سے جانتے تھے اللہ نے اپنے حصے کی ڈیل مکمل کر دی‘ اب اس کی تلاش ان کی ذمہ داری ہے‘ بہرحال ڈاکٹر براؤن 1994ء میں مسلمان ہو گئے‘ چودھری صاحب کا کالم اللہ پاک کی طرف رجوع‘ اللہ پاک کی طرف سے دیے گئے اشاروں اور ڈاکٹر براؤن کی لکھی اور مشہور کتابوں کو ڈسکس کر کے ختم ہو جاتا ہے لیکن پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست“۔یہ تحریر مجھے ایک دوست نے بھجوائی‘ یہ ہارون ملک کی تحریر ہے اور یہ کسی اخبار میں شائع ہوئی تھی‘ میں مصنف کو نہیں جانتا لیکن انہوں نے بہت محنت کی لہٰذا میں اسے کالم میں ری پرنٹ کر رہا ہوں‘ مصنف نے اس کے بعد لکھا”یہ کوئی پرانے زمانے کے شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانی نہیں کہ یہ کہانی اس بات پر ختم کر دی جائے وہ اس کے بعد ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے‘ یہ ایک امریکی کے اسلام قبول کرنے کی کہانی تھی چناں چہ ڈاکٹر براؤن کی اصل کہانی مسلمان ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے‘ چودھری صاحب کے کالم کے بعد میں نے ڈاکٹر براؤن کی زندگی کے بارے میں معلومات جمع کیں اور جو مشکلات ان کو درپیش آئیں وہ مختصر الفاظ میں آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا‘ڈاکٹر براؤن کہتے ہیں تبدیلی مذہب بظاہر آسان ہوتا ہے لیکن اس کے سماجی اور معاشرتی اثرات بہت دور رس اور گہرے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر براؤن جب مسلمان ہوئے تو ایک سال کے اندر اندر نہ صرف ان کی بیوی ان سے الگ ہوگئی بلکہ بچوں کی کسٹڈی بھی ان کی بیوی کے پاس چلی گئی‘ وہ بچی حینا جو ڈاکٹر صاحب کی تبدیلی مذہب کی پہلی اور بنیادی وجہ بنی وہ بھی اپنی والدہ کے پاس رہ گئی‘ ڈاکٹر براؤن کی بیوی ڈاکٹر صاحب کا گھر‘ دولت‘ ذہنی سکون اور خوشیوں کا بڑا حصہ بھی ساتھ لے گئی‘ عدالت میں طلاق کا کیس دائر کر دیا گیا‘ عدالت نے بیوی سے استفسار کیا ”کیا ڈاکٹر لارنس براؤن اس کے ساتھ مار پیٹ کرتا ہے؟“ ۔
بیوی نے جواب دیا ایسی کوئی بات نہیں لیکن میں اب اپنے خاوند کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتی‘مجھے طلاق چاہیے لہٰذا عدالت نے طلاق کا حکم جاری کر دیا‘ یہ حکم صرف یہاں تک نہیں رہا بلکہ عدالت نے ڈاکٹر براؤن کو حکم دیا وہ اپنے بچوں اور بیوی سے کم از کم سو گز دور رہیں‘ عدالت نے ڈاکٹر کو پابند کر دیا وہ ایک سیکورٹی گارڈ کا بندوبست کریں‘ اس کی تنخواہ اپنی جیب سے ادا کریں اور وہ سیکورٹی گارڈ اس بات کو یقینی بنائے کہ ڈاکٹر براؤن کے بچے اور سابقہ بیوی ڈاکٹربراؤن سے محفوظ فاصلے پر ہیں‘عدالت کا خیال تھا ڈاکٹر اب ایک پریکٹسنگ مسلمان ہے اور اس کے بچوں کا اس سے دور رہنا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر براؤن کے والدین نے بھی اپنے بیٹے کو عاق کر دیا‘والدین نے خط لکھ کر یہ تک کہہ دیا وہ انہیں ملنے اور فون کرنے کی کوشش نہ کرے‘ یہ ان کے لیے مر چکا ہے اور یہ اس کے بارے میں مزید کوئی خبر رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے‘ ڈاکٹر براؤن کو صرف خوانگی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی سماجی اور عملی زندگی بھی تباہ ہو گئی‘ ان کو امریکن ائیر فورس کے ساتھ کام کرتے بارہ سال ہو چکے تھے لیکن مسلمان ہونے کے بعد ان کو یہ محسوس ہونے لگا یہ نوکری ان کے نئے مذہب کے ساتھ نہیں چل سکتی‘ امریکن وار مشینری میں میجر کا رینک اور مسلمان ہونے کے بعد اس وار مشینری کا حصہ رہنا ان کے ضمیر پر بوجھ بن رہا تھا لہٰذا ڈاکٹربراؤن نے یہ نوکری چھوڑ دی۔
قصہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ ان کے وہ دوست جن کے ساتھ وہ اور وہ ڈاکٹر کے ساتھ گھومنا پھرنا پسند کرتے تھے وہ بھی ڈاکٹر صاحب سے دور رہنے اور اجتناب کرنے لگے‘ مسئلہ یہ تھا ڈاکٹر صاحب اسلام قبول کرنے سے پہلے پینے پلانے کے عادی تھے‘یہ خود بھی اچھی بیئر بناتے تھے لیکن اب پینا پلانا تو دور وہ ایسی جگہوں پر جاتے بھی نہیں تھے لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی کمپنی میں کون اٹھنا بیٹھنا پسند کرتا؟ ایک بار ڈاکٹر براؤن کے والدین نے بھی کہا وہ اس کی بنائی بیئر کو مس کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر اب اللہ کو خوش کرنا چاہتے تھے اپنے دوستوں یا والدین کو نہیں۔
ڈاکٹر صاحب اپنی کہانی میں غیر محرم عورتوں سے ہاتھ نہ ملانے اور ان کو چھونے سے گریز کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں یہودیت اور عیسائیت میں بھی غیر محرم عورتوں سے دوری اختیار کرنے کا حکم موجود ہے‘ یہودی آج بھی اپنی محرم عورتوں کے علاوہ کسی اور عورت کو ہاتھ ملانا یا چھونا گناہ سمجھتے ہیں‘ اسلام کی یہ تعلیمات یا احکامات نئے نہیں بلکہ ابراہیمی ادیان کے عین مطابق ہیں‘ مزید ایک مثال میں ڈاکٹر براؤن کہتے ہیں کیا کوئی پسند کرے گا کوئی اور بندہ اس کی کار کو ہاتھ لگائے؟ ظاہر ہے نہیں تو اسی طرح نامحرم عورتوں کو چھونا یا ہاتھ ملانا بھی غلط ہے‘ ڈاکٹر براؤن کی یہ باتیں اور یہ حرکتیں انہیں مزید تنہا کر گئیں۔
ڈاکٹر صاحب کے مسائل یہیں ختم نہیں ہوئے بلکہ ڈاکٹر صاحب کا گھر گیا‘ بچے گئے اور والدین اور دوستوں کا ساتھ بھی نہ رہا‘ امریکا میں جس شخص کا ایک گھر ہو‘ بیوی اور دو بچے ہوں‘ ایک کتا ہو اور کم از کم دو گاڑیاں ہوں تو وہ امیر آدمی سمجھا جاتا ہے‘ مغربی ممالک یا امریکا میں گھر خریدنا اور اچھی سیٹلڈ لائف گزارنا آسان نہیں ہوتا‘ ڈاکٹر صاحب کے پاس یہ سب تھا مگر جب وہ مسلمان ہو گئے تو یہ سب ایک ایک کر کے چھن گیا لیکن ڈاکٹر صاحب کے بقول اللہ پاک اپنے بندوں کو اسی طرح آزماتا ہے۔
مجھے بھی ان مشکلات کا اندازہ تھا اور میں ذہنی طور پر اس آزمائش کے لیے تیار تھا‘ڈاکٹر صاحب کو قبول اسلام کے بعد ایک سستے علاقے میں سٹوڈیو فلیٹ میں رہائش اختیار کرنا پڑی‘یہ ایک گندی عمارت تھی‘ اس میں لوگ لفٹ اور سیڑھیوں کے قریب کھڑے ہو کر پیشاب کر دیتے تھے اور اس کی بدبو سے وہاں سے گزرنا تک محال ہوتا تھا لیکن وہ یہاں رہنے پر مجبور تھے‘ ان کے پاس اچھی رہائش کے لیے سرمایہ نہیں تھا‘ ڈاکٹر صاحب کے بقول یہ وہ چند مشکلات ہیں جو وہ بیان کر سکتے ہیں‘بے شمار مزید مسائل اور تعصبات ہیں جن کا سامنا وہ آئے دن کرتے رہے تھے مگر وہ آج ان کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔
ڈاکٹر براؤن کا کہنا تھا یورپ میں اگر کوئی شخص وینس‘ جنیوا‘ سڈنی یا سوئٹزرلینڈ میں گھر بنا لے تو اسے کام یاب سمجھا جاتا ہے لیکن اللہ نے مجھے امریکا میں گھر چھن جانے کے بعد مدینہ میں گھر دیا‘ مدینہ دنیا کا سب سے بہترین شہر ہے‘ یہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے‘ یہاں چوری کا خطرہ نہیں‘ سکون ہے‘ میں نے پوری دنیا گھوم رکھی ہے لیکن یقین کریں مدینے جیسا شہر کہیں نہیں دیکھا‘ اللہ پاک نے مجھے اب دوسری بیوی اور بچہ دے دیا اور امریکا میں جائیداد کھونے کے بعداپنے عزیز ترین شہر میں گھر دیا‘اب ڈاکٹر صاحب کے تعلقات اپنے والدین سے بھی بہتر ہو گئے ہیں‘ یہ کبھی کبھار بچوں سے بھی بات کر لیتے ہیں بلکہ سال میں ایک آدھ بار مل کر چھٹیاں بھی گزارتے ہیں۔
زندگی نارمل ہو گئی ہے‘ ڈاکٹر لارنس براؤن کی دو مشہور ترین کتابیں گاڈڈ اورمس گاڈڈ ہیں‘ قبول اسلام کے بعد گو ابتدائی طور پر ان کا گھر‘ بال بچے‘ والدین اور دوست یار چھن گئے لیکن اب اس کے صلے میں انہیں امریکا سے لے کر کینیا تک‘ مصر سے سعودیہ اور پاکستان تک لوگ جانتے ہیں‘ پیار کرتے ہیں۔یہ باتیں اس لیے لکھی ہیں کہ اسلام قبول کرنا یا کوئی بھی مذہب ترک کرنا کبھی آسان نہیں ہوتا‘ اس کے لیے آپ کی سماجی اور معاشرتی زندگی تلپٹ ہو جاتی ہے‘ اللہ پاک سب کو سکون کی نعمت عطا فرمائے اور ہدایت کے راستوں پر چلنے کی توفیق دے‘ چاہے وہ ہدایت کسی شکل میں ہی کیوں نہ ہو“۔
میں ہارون ملک کا مشکور ہیں‘ انہوں نے میری رہنمائی بھی فرمائی اور ڈاکٹر لارنس براؤن کی ادھوری کہانی بھی مکمل کی‘ میں اپنی کوتاہی کو تسلیم کرتا ہوں‘ میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں میں خواہ جتنی کوشش کر لوں میری نالائقی آڑے آ جاتی ہے اور میں کالم کو جامع نہیں بنا پاتا‘ شاید اس کی وجہ کالم کا محدود دامن ہے‘ ہم نے سولہ سترہ سو لفظوں میں سب کچھ کہنا ہوتا ہے‘ دنیا میں بے شمار لوگ اس فن کے ماہر ہیں‘ یہ ہزار بارہ سو الفاظ میں بھی سب کچھ بیان کر دیتے ہیں‘ میں بھی پچھلے 25 سال سے یہ کوشش کر رہا ہوں مگر مجھے کام یابی نصیب نہیں ہو رہی‘ مجھے ڈاکٹر براؤن کی کہانی کے بے شمار پہلو معلوم تھے مگر میں کالم کی تنگی داماں کی وجہ سے یہ تحریر نہ کر سکا لیکن میں اس کے باوجود اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔