آرکی ٹیکچر صحافت کے بعد میرا دوسراجنون ہے‘ میں اگر صحافی نہ ہوتا تو پھر میں یقینا آرکی ٹیکٹ یا انٹیریئر ڈیکوریٹر ہوتا‘ آپ میرا جنون ملاحظہ کیجئے‘ میرے پاس اگر دومنٹ بھی ہوں تو میں آرکی ٹیکچر کی ایپلی کیشنز کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ اپنا اضافی وقت ٹائلز‘ سینیٹری کے شورومز‘ کچن‘ وارڈ روبز‘ فلورنگ اور نئے کنسٹرکشن مٹیریل کی تلاش میں ”ضائع“ کرتا ہوں‘ میرے دوست اور ان کی بیگمات صوفہ‘ کارپٹ ‘بیڈ شیٹ یا تولئے بھی خریدنا چاہیں تو یہ میری مہارت سے فائدہ اٹھاتی ہیں‘
میں آج سے پانچ سال قبل لکڑی کے گھروں کے خبط میں مبتلاہو گیا‘ لتھونیا اور پولینڈ لکڑی کے گھروں کی بہت بڑی مارکیٹ ہیں‘یہ لوگ فیکٹریوں میں گھر تیار کرتے ہیں اور یورپ کے مختلف ملکوں میں انسٹال کر دیتے ہیں‘ میں نے لتھونیا اور پولینڈ جانا شروع کر دیا‘ میں نے وہاں سے لکڑی کے گھر بنانے کی تکنیک سیکھی اور اس کے بعد مری میں لکڑی کا گھر بنانا شروع کر دیا‘ یہ انگریز کے جانے کے بعد مری میں لکڑی کا پہلا مکمل گھر تھا‘ میرے آرکی ٹیکٹ دوست اعجاز قادری نے 2001ءمیں میرے لئے ساڑھے سات مرلے کا گھر ڈیزائن کیا‘ میں نے یہ گھر خود کھڑے ہو کر بنوایا‘ وہ ایوارڈ وننگ گھر تھا‘ ہم نے ساڑھے سات مرلے میں سوئمنگ پول کے علاوہ وہ تمام سہولتیں تخلیق کی تھیں جو عموماً دو سے تین کنال کے گھروں میں ہوتی ہیں‘ اس میں چار بیڈ رومز‘ سرونٹ کوارٹر‘ دو لان‘ وسیع ڈرائنگ روم‘ ڈائننگ روم‘ دو سٹڈیز‘ بڑا کچن اور کارپورچ تھا‘ہم آٹھ سال اس گھر میں رہے‘ میری فیملی بڑی ہو گئی تو میں نے 2009ءمیں بڑا گھر بنانا شروع کیا‘ یہ گھر 2010ءکے آخر میں مکمل ہو گیا‘ یہ بھی ڈیزائن اور سہولتوں میں یورپی سٹینڈر کے برابر تھا‘ ہم نے اس گھر میں روشنی اور انرجی دونوں کا خاص خیال رکھا‘ ہمارے گھر میں مغرب کی اذان تک کوئی لائیٹ جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘ ہم نے پورے گھر کی انسولیشن بھی کرائی اور شیشے بھی ڈبل گلیزڈ لگوائے‘ پاکستان میں اس وقت ایل ای ڈی لائیٹس نہیں آئی تھیں‘ میں یہ لائیٹس پیرس سے لے کر آیا‘
ہمیں اس کے دو بڑے فائدے ہوئے‘ ہمارے گھر میں صرف رات کے وقت لائیٹس آن ہوتی ہیں اور وہ بھی ایل ای ڈی ہیں‘ دوسرا ہمارے پورے گھر میں کوئی ہیٹر نہیں‘ ہم لوگ سردی زیادہ ہو جائے تو آدھ گھنٹے کےلئے انورٹر اے سی چلاتے ہیں اور کمرہ گرم ہو جاتا ہے‘ ہم گرمیوں میں بھی کم سے کم اے سی کے ساتھ گزارہ کر لیتے ہیں اور جون‘ جولائی اور اگست میں مری چلے جاتے ہیں۔ہم نے یہ سارا بندوبست بجلی اورگیس کے بھاری بلوں سے بچنے کےلئے کیا تھا‘
ملک میں انرجی کا بحران ہے‘ یہ بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے چنانچہ ہمارا خیال تھا ہم اگر بحران میں کمی نہیں لا سکتے تو ہم کم از کم ان لوگوں میں شامل نہ ہوں جو یہ بحران پیدا کر رہے ہیں لیکن یہ ماضی کی باتیں ہیں‘ مجھے اس مہینے گیس کا 94 ہزار روپے کا بل آیا تو میں سکتے میں چلا گیا‘ میرے گھر میں صرف ایک چولہا اور دو گیزر ہیں‘ ہمارا بل سردیوں میں کبھی بیس بائیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں آتا تھا‘ صرف دسمبر 2017ءاور جنوری 2018ءمیں 34 ہزار اور 58 ہزار روپے بل آیا‘
ہم نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا ہمارے محلے کی لائین پھٹ گئی تھی اور محکمے نے نقصان پورے محلے میں تقسیم کر دیاتھا اور یوں ہم بھی زد میں آ گئے‘ میں پچھلے چار دن سے بل دیکھ رہا ہوں‘ پھر گیس کا میٹر‘ چولہا اور گیزر دیکھتا ہوں اور پریشانی میں چہل قدمی شروع کر دیتا ہوں‘ میں نے بل کو سمجھنے کےلئے معاشی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم سے رابطہ کیا تو دوسری طرف سے قہقہے کی آواز آئی اور انہوں نے بتایا‘ ہم صرف دو میاں بیوی ہیں‘ ہمارا بل 64 ہزار روپے ہے‘
میں نے پوچھا اور پچھلے سال جنوری میں کتنا بل تھا‘ جواب ملا 22 ہزار روپے‘ میں نے وجہ پوچھی تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا‘ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 278 فیصد اضافہ کر دیا ہے‘ گیس پچھلے سال دو ہزار دو سو 60 روپے یونٹ تھی‘ یہ اب 6 ہزار دو سو 90 روپے یونٹ ہو چکی ہے یوں 278 فیصد اضافہ ہو گیا‘ میں نے فون بند کر دیا‘ میں نے ریسرچ شروع کی تو پتہ چلا‘ پاکستان میں پوری دنیا کے مقابلے میں گیس کی قیمت زیادہ ہے‘ فرانس میں اکتوبر 2018ءتک بجلی اور گیس کا مشترکہ بل 45 یوروز (7155روپے) تھا‘ حکومت نے نومبرمیں یہ بل 75 یوروز (11925روپے) کر دیاتو پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے‘
برطانیہ میں دو بیڈروم کے گھر کابجلی اور گیس کا بل 66 پاﺅنڈ(11946روپے) اورپانچ بیڈ روم کے گھر کا137پاﺅنڈ(24797 روپے) ‘ امریکا میں180سے 200 ڈالر(25 سے 28 ہزار روپے) اور آسٹریلیا میں پانچ بیڈ روم کے گھر کا بجلی اور گیس کا بل110 آسٹریلین ڈالر(10950 روپے) ہے اور یہ وہ تمام ملک ہیں جن میں ہر گھر میں سینٹرلی ہیٹنگ سسٹم لگا ہے اور وہاں عام لوگ ہمارے مقابلے میں چار گنا زیادہ گیس استعمال کرتے ہیں لیکن آپ ان کا بل دیکھ لیجئے اور پھراپنے ملک کے بل‘
پاکستان میں بجلی اور گیس کے بل گھر کے کرائے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور کیا یہ ظلم نہیں؟ اب سوال یہ ہے ہمارے ملک میں گیس اور بجلی مہنگی کیوں ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ چوری ہے‘ پاکستان میں 2001ءمیں چھ سے سات فیصد گیس چوری ہوتی تھی‘ یہ اب بڑھ کر 22 فیصد ہو چکی ہے‘ پاکستان روزانہ 4 بلین کیوبک فٹ گیس پیدا کرتا ہے‘ اس میں سے ساڑھے سات سو ملین کیوبک فٹ گیس چوری ہو جاتی ہے‘ بجلی کی چوری 24 فیصد ہے لیکن حکومت چوروں کو روکنے کی بجائے چوری کا بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہے‘
ہم لوگ کیونکہ گیس چوری نہیں کرتے چنانچہ چوروں کا بل بھی ہم ادا کرتے ہیں‘ دوسری وجہ ایل این جی ہے‘ حکومت قطر سے 1600 روپے فی یونٹ ایل این جی خریدتی ہے‘ ہماری اپنی گیس 300 روپے یونٹ ہے‘ حکومت یہ ایل این جی لوکل گیس میں مکس کرتی ہے جس سے گیس کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ حکومت کو چاہیے تھا یہ امپورٹڈ ایل این جی انڈسٹری کو دیتی اور سستی لوکل گیس گھریلو صارفین کو فراہم کرتی‘ملک میں بحران پیدا نہ ہوتالیکن حکومت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس پر پچاس فیصد سبسڈی دے رہی ہے
جبکہ عوام کے بلوں میں اس نے ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کر دیا ہے‘ یہ کہاں کا انصاف ہے اور تیسری اور اہم وجہ سرکاری کاروباری ادارے ہیں‘ حکومت پر اس وقت پی آئی اے‘ سٹیل مل اور ریلوے جیسے 195 اداروں کا بوجھ ہے‘ یہ ادارے ہر سال عوام کا 11 سو ارب روپے (1100) چوس جاتے ہیں‘ حکومت یہ خسارہ کم کرنے کی بجائے یہ بوجھ بھی ٹیکسوں اور بجلی گیس کے بلوں کی شکل میں عوام پر لاد رہی ہے‘ یہ تینوں وجوہات مل کر ملک میں خوفناک بحران پیدا کر رہی ہیں۔
آپ یورپ اور امریکا کی مثال لیں‘ یہ ملک یوٹیلٹی بلز (بجلی‘ گیس اور پانی) کو لوگوں کی آمدنی سے دس فیصد سے اوپر نہیں جانے دیتے تاکہ لوگ باقی نوے فیصد آمدنی اپنے لائف سٹائل پر صرف کرسکیں‘ یہ گاڑیوں‘ گھروں اور کریڈٹ کارڈ کے بل دے سکیں‘ یہ کپڑوں‘ خوراک‘ لرننگ‘ سفر اور چھٹیوں پر خرچ کر سکیں جبکہ ہمارے ملک میں لوگوں کی آمدنی کا کم سے کم 25 فیصد یوٹیلٹی بلز پر خرچ ہو جاتا ہے‘ عوام یہ ظلم بھی برداشت کرجاتے اگر حکومت لوگوں کو تعلیم اور صحت مفت فراہم کر رہی ہوتی یا پھر یہ انتہائی غریب لوگوں کو یورپ کے برابر سوشل سیکورٹی دے رہی ہوتی‘
ہمارے ملک میں بے نظیر انکم سپورٹ بھی انتہائی غریب لوگوں کو 1700روپے ماہانہ(تین ماہ بعد 5 ہزار روپے) وظیفہ دیتی ہے اور یہ لوگ اس رقم سے دمے کی دوا تک نہیں خرید سکتے‘ ہم مہنگائی اور ٹیکسوں میں بھی ظلم کی انتہا کو چھو رہے ہیں‘ ریاست ستر برسوں میں15لاکھ لوگوں سے زیادہ انکم ٹیکس وصول نہیں کر سکی اور یہ مجموعی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا‘حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے پرانے ٹیکس پیئرز پر بوجھ بھی بڑھاتی چلی جا رہی ہے اور پچھلے چھ ماہ میں مہنگائی میں بھی 33 فیصد اضافہ ہو چکا ہے‘
دال مونگ اور دال ماش تک عوام کی قوت خرید سے نکل چکی ہے چنانچہ آپ خود فیصلہ کیجئے عوام اگر اپنی آمدنی کا 25 فیصد یوٹیلٹی بلز میں ادا کردیں گے‘ یہ 20 سے 25 فیصد ٹیکس ادا کر دیں گے‘ گھر اور ٹرانسپورٹ کا کرایہ 25 فیصد ہو گا‘ یہ 35 فیصد رقم بچوں کی تعلیم اور ادویات پر خرچ کردیں گے تو پھر یہ کھائیں گے کیا‘ یہ پہنیں گے کیا اور یہ اوڑھیں گے کیا؟ کیا حکومت ملک کو نافرمانی کی طرف لے جانا چاہتی ہے‘ کیا آپ چاہتے ہیں آپ نے جس طرح 19 ستمبر 2014ءکو کنٹینر پر کھڑے ہو کر بجلی کے بل کو آگ لگائی تھی‘
عوام آج آپ کی پیروی میں سڑکوں پر نکل کر بل جلانا اور گیس اور بجلی کے دفتروں پر حملے شروع کر دیں؟ آپ نے ہر طرف سے عوام کو پیس کر رکھ دیا ہے‘ آپ مہنگائی دیکھ لیں‘ آپ بے روزگاری بھی چیک کر لیں‘ ملٹی نیشنل کمپنیاں تک لوگوں کو نکال رہی ہیں اور آپ اب ریاستی ظلم بھی ملاحظہ کر لیجئے‘ آپ کر کیا رہے ہیں اور آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟عمران خان نے ٹھیک کہا تھا‘ میں چیخیں نکلواﺅں گا‘ میں تکلیف پہنچاﺅں گا‘ حکومت شریف اور زرداری فیملی کی چیخیں نہیں نکلوا سکی‘ یہ لوگ آج بھی فائیوسٹار زندگی گزار رہے ہیں لیکن حکومت نے پورے ملک کی چیخیں ضرور نکلوا دی ہیں‘
یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ وہی ملک ہے جو سال پہلے تک ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا‘ملک میں کسی چیز کی قلت تھی اور نہ آہ و زاری‘ آپ نے آ کر اس کو کیا کر دیا؟ یہ نحوست اور بے برکتی کا شکار ہو گیا‘ آپ سنبھل جائیں ورنہ چھ ماہ بعد حسن نثار کی طرح آپ کا ہر سپورٹر‘ آپ کا ہر ووٹر اپنے اوپر لعنت بھیج رہا ہو گا اورآپ یہ فیصلہ کر رہے ہوں گے آپ نے باقی زندگی لندن میں گزارنی ہے یا پھر جیل میں۔آپ یقین کر لیں یہ ملک سول نافرمانی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے‘ آپ آنکھیں کھولیں ورنہ عوام آپ کی آنکھیں ہمیشہ کےلئے بند کر دیں گے۔