والد لاہور میں تھا اور والدہ کراچی میں‘ بچوں نے ضد کی اور والدہ انہیں لے کر پلے لینڈ چلی گئی‘ بچے پلے لینڈ میں جھولے لیتے رہے‘ یہ تھک گئے تو ماں انہیں کھانا کھلانے زمزمہ لے گئی‘ یہ لوگ ایری زونا گرِل ریسٹورنٹ چلے گئے‘ ایری زونا گرِل کراچی کا فائیو سٹار ریسٹورنٹ تھا‘ ڈائننگ ہال شاندار‘ ویٹرز لاجواب اور نرخ لندن اور نیویارک کے برابر‘ ماں نے کھانا آرڈر کیا‘ کھانا آیا‘ ماں اور دونوں بچوں نے کھانا کھایا اور یہ تینوں رات دو بجے گھر آ گئے‘ صبح کے وقت تینوں کی طبیعت خراب ہو گئی‘
تینوں کے پیٹ میں درد شروع ہو گیا‘ سر پھٹنے لگا اور تینوں الٹیاں کر کے بے حال ہو گئے‘ ماں دوپہر تک دیسی ٹوٹکوں سے اپنا اور بچوں کا علاج کرتی رہی لیکن طبیعت بحال نہ ہو سکی‘ دیور سبحان کو پتہ چلا‘ وہ پہنچا تو دیکھا چھوٹا بیٹا احمد آخری سانسیں لے رہا ہے‘ بڑا بیٹا محمد بے ہوشی کے عالم میں گرا ہوا ہے اور بھابھی عائشہ اپنے پاﺅں پر کھڑی نہیں ہو پا رہی‘ سبحان دوڑا‘ ایمبولینس منگوائی اور وہ تینوں کو ہسپتال لے گیا‘ چھوٹا بیٹا احمد راستے ہی میں داعی اجل کو لبیک کہہ گیا‘ محمدابتدائی طبی امداد کے دوران جاں بحق ہو گیا جبکہ والدہ عائشہ کی حالت تشویش ناک ہو گئی‘ یہ خبر 11 نومبر کی شام ٹیلی ویژن چینلز تک پہنچی‘ نیوز بریک ہوئی اور نوٹسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ آئی جی نے بھی نوٹس لیا‘ وزیراعلیٰ کا نوٹس بھی جاری ہو گیا اور وفاق کی طرف سے بھی نوٹسوں کی بارش شروع ہو گئی‘ ڈائریکٹر سندھ فوڈ اتھارٹی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ایری زونا گرِل پہنچ گیا‘ کچن میں چھاپہ ماراگیا تو پوری ٹیم حیران رہ گئی‘ کراچی کے مہنگے ترین ریستوران کے کچن میں بو بھی تھی‘ گندگی بھی اور کیڑے مکوڑے اور چوہے بھی ‘ ریستوران کے فریزر میں بچا ہوا کھانا بھی پڑا تھا اور دو تین سال پرانا ایکسپائرڈ امپورٹیڈ گوشت بھی‘ ٹیم نے ایکسپائرڈ اشیاءاکٹھی کیں تودو پک اپس بھر گئیں‘ ٹیم نے فریزر میں پڑے گوشت کے نمونے لے لئے‘ بچوں احمد اور محمد کا پوسٹ مارٹم بھی ہوا‘ ان کے پیٹ اور انتڑیوں میں موجود خوراک کے نمونے بھی لے لئے گئے‘
یہ نمونے لاہور کی فرانزک لیبارٹری میں بھی بھجوا دیئے گئے اورآغاخان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں بھی‘ رپورٹس آئیں تو ان رپورٹس نے پورے سسٹم کے چھکے چھڑا دیئے‘ خاتون اور بچوں نے ریستوران سے جو گوشت کھایا تھا اور وہ گوشت 2015ءکا تھا‘ وہ مختلف فریزرز سے ہوتا ہوا تین سال کا سفر کر کے اس خاندان کی میز تک پہنچا تھا‘ تین سال کے اس سفر کے دوران گوشت میں ایک ایسا بیکٹیریا پیدا ہو گیا تھا جس نے بچوں کے گردے فیل کر دیئے‘
بچوں کا پیشاب خون میں شامل ہوا اور یہ تڑپ تڑپ کر مر گئے جبکہ والدہ شدید بیمار ہو گئی‘ فوڈ اتھارٹی نے ریستوران کے فریزرمیں موجود سارے گوشت کے نمونے لے لئے‘ جب تمام نمونوں کے نتائج آئے تو وہ بھی ہولناک تھے‘ ان تمام نمونوں میں زہریلا بیکٹیریا موجود تھا‘ پولیس نے ریستوران کی انتظامیہ کے خلاف دفعہ 322 اور 272 کے تحت مقدمہ قائم کر دیا‘ ریستوران کا مالک اور ملازمین اس وقت جیل میں ہیں جبکہ ریستوران سیل ہو چکا ہے۔
یہ کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کے فائیو سٹار ریستوران کی صورتحال ہے‘ آپ اس سے باقی ریستورانوں کی حالت کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ ہم باقی ریستورانوں کی طرف آنے سے پہلے ایری زونا گرِل کے ایشو کی طرف آئیں گے‘ یہ ریستوران درآمد شدہ خوراک بیچتاتھا‘ گوشت اور گوشت بنانے کا سارا مٹیریل بیرون ملک سے امپورٹ ہوتا تھا‘ فوڈ اتھارٹی نے جب چھاپہ مارا توپتہ چلا سٹور کاسارا گوشت اور ساسز ایکسپائرڈ ہیں‘ یہ بھی پتہ چلا کچن میں کام کرنے والا عملہ ان پڑھ بھی تھا اور لاپرواہ بھی‘
ان میں سے کسی شخص نے کبھی کسی ڈبے‘ کسی بوتل اور کسی پیکٹ کو کھولنے سے پہلے اس کی ایکسپائری ڈیٹ نہیں دیکھی تھی‘ ریستوران میں کوالٹی چیک کرنے کےلئے کوئی میڈیکل ورکر بھی نہیں تھا‘ یہ بھی پتہ چلا ریستوران کی تاریخ میں آج تک حکومت کے کسی ادارے نے کبھی اس کی انسپکشن نہیں کی اور یہ بھی پتہ چلا سٹورروم کا سٹاف بھی ان پڑھ اور نالائق تھا‘ سٹور میں تین سال پرانی اشیاءپڑی ہوئی تھیں اور کسی نے ان کی ایکسپائری ڈیٹ تک جاننے کا تکلف نہیں کیا تھا‘یہ تمام حقائق ہوش ربا تھے‘
میں نے یہ حقائق دیکھے اور فوڈ اتھارٹی سندھ کے بارے میں تحقیقات کیں تو پتہ چلا یہ اتھارٹی بھی مارچ 2018ءمیں بنی اور پورے سندھ کےلئے اس کے پاس صرف چار افسر ہیں اور یہ بھی ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں ‘ حکومت نے انہیں گاڑی تک کی سہولت نہیں دے رکھی‘ یہ ذاتی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سرکاری کام کرتے ہیں‘سندھ میں اس سے قبل فوڈ کنٹرول کےلئے کوئی سسٹم موجود نہیں تھا چنانچہ کراچی میں آج بھی گلیوں کے کتے کاٹ کر گاہکوں کو کھلا دیئے جاتے ہیں‘
یہ بھی پتہ چلا پنجاب میں میاں شہباز شریف نے 2011ءمیں فوڈ اتھارٹی بنائی اور اس اتھارٹی نے تین چار بڑے قدم اٹھائے مثلاً پنجاب میں کھانے پینے کی کوئی چیز ایکسپائری ڈیٹ کے بغیر نہیں بک سکتی‘ پورے صوبے میں ڈبل روٹیوں کے پیکٹ پر بھی ایکسپائری ڈیٹ چھاپی جاتی ہے‘ پنجاب میں کھلا کوکنگ آئل بیچنے پر پابندی لگا دی گئی‘ یہ ڈبے میں بکتا ہے اور اس پر ڈبل ریفائنڈ اور ایکسپائری ڈیٹ لکھی جاتی ہے اور پنجاب کے تمام ریستورانوں اور فوڈ چینز کی باقاعدہ انسپکشن بھی ہوتی ہے‘
ریستوران میں گندگی اور غیر معیاری اشیاءکے استعمال پر جرمانے بھی ہوتے ہیں اوریہ سیل بھی کر دیئے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ‘پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قیام سے پہلے پنجاب جعلی اشیاءکی سب سے بڑی منڈی ہوتا تھا‘ پنجاب میں پابندی لگی تو جعلی اور ایکسپائری فوڈ آئٹم بیچنے والے سندھ‘ کے پی کے اور بلوچستان شفٹ ہو گئے ‘ یہ اب اپنا سارا سامان پنجاب سے باہر بیچتے ہیں‘ آپ انتہا ملاحظہ کیجئے کوکنگ آئل کمپنیاں سوپ گریڈ پام آئل منگواتی ہیں‘ یہ تیل اس وقت تک کھانے کے قابل نہیں بنتا جب تک یہ دوبار ریفائن نہ کر لیا جائے لیکن یہ کراچی میں کھلا اور ریفائن کئے بغیر بیچ دیا جاتا ہے اور شہر کے 90 فیصد ریستوران یہ تیل استعمال کرتے ہیں
چنانچہ آپ جب کھلا کوکنگ آئل‘ ایکسپائرڈ ساسز اور پرانا فروزن گوشت استعمال کریں گے تو کیا نتیجہ نکلے گا‘ وہی نتیجہ نکلے گا جو ایری زونا گرِل میں اس خاندان نے بھگتا۔ ملک میں ریستورانوں میں کھانا کھانے والے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد کراچی میں پائی جاتی ہے‘ آپ کسی دن کراچی کے لوگوں میں امراض قلب‘ بلڈ پریشر اور شوگر کا ڈیٹا دیکھ لیجئے‘ آپ پریشان ہو جائیں گے‘ کراچی کا ہر دوسرا شہری شوگر‘ بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں مبتلا ہے‘ کیوں؟ وجہ ریستوران اور صابن گریڈ پام آئل ہے‘
معیاری کوکنگ آئل دو سو روپے لیٹر ملتا ہے جبکہ پام آئل 90 روپے لیٹر مل جاتا ہے چنانچہ ریسٹورنٹ کے مالکان ایک سو دس روپے بچانے کےلئے لاکھوں لوگوں کو بیمار کر رہے ہیں‘ پاکستان میں کتے کھلانے کے سب سے زیادہ واقعات بھی کراچی میں رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ پیچھے رہ گئے ایری زونا گرِل جیسے فائیو سٹار ریستوران تو ان کے زیادہ تر آئٹمز ایکسپائرڈ ہوتے ہیں‘ یہ لوگ لاٹس میں سامان اٹھاتے ہیں اور یہ لاٹس دو دو ‘تین تین سال ان کے سٹور رومز میں پڑی رہتی ہیں اور پھر ان ایکسپائرڈ اشیاءکا کھانا بنا کر کراچی کی اشرافیہ کو کھلا دیا جاتا ہے لہٰذا آپ خود فیصلہ کیجئے لوگ بیمار نہیں ہوں گے‘ لوگ ہلاک نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا؟۔
ہم اب حل کی طرف آتے ہیں‘ پہلا فیصلہ ریاست کو کرنا ہوگا‘ کیا ہم نے زہر کھا کھا کر مرنا ہے یا پھر ہم نے زندہ رہنا ہے‘ ریاست اگر شہریوں کو صرف خوراک‘ پانی‘ ہوا اور ادویات خالص فراہم کر دے تو یہ ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا‘ہم ناخالص خوراک کی وجہ سے بیمار ہو چکے ہیں‘پاکستان کا ہر شخص کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے‘ ہمیں اگر بیمار قوم کہا جائے تو غلط نہیں ہوگاچنانچہ ریاست کو فوری طور پر آگے آنا ہوگا‘ وفاق تمام صوبوں کی فوڈ اتھارٹیز کو اپنے کنٹرول میں لے لے‘
یہ فیڈرل فوڈ اتھارٹی بنائے‘ اس میں ہزاروں لوگ بھرتی کرے‘ قانون اور سزائیں سخت کرے اور ملک میں جعلی ادویات اور غیر معیاری خوراک کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کردے‘ ملک میں کھانے پینے کی کوئی بھی چیز کھلی فروخت نہیں ہونی چاہیے‘ ہر چیز پیک ہو‘ اس پر کمپنی کا نام‘ ایڈریس‘ لائسنس نمبر اور ایکسپائری ڈیٹ درج ہو‘جو کمپنی خلاف ورزی کرے یا غیر معیاری مصنوعات بیچے ریاست اسے عبرت کی نشانی بنا دے‘ ریستورانوں میں میڈیکل ورکرز بھی ضرور ہونے چاہئیں‘
یہ ہر چیز کے استعمال سے پہلے اس کی ایکسپائری ڈیٹ دیکھیں‘ ریستورانوں کا ہفتہ وار معائنہ بھی ہونا چاہیے‘ خفیہ پولیس آئے‘ ریستوران چیک کرے اور رپورٹ کرے اور یورپ کی طرح ریستورانوں میں ڈیپ فریزر پر بھی پابندی ہونی چاہیے‘ ریستوران روز تازہ گوشت‘ مرغی اور مچھلی لے کر آئیں اور یہ انہیں اسی دن ڈسپوزڈ آف کر کے جائیں‘یہ اشیاءاگلے دن فروخت نہیں ہونی چاہئیں۔ہم اب صارفین کی طرف آتے ہیں‘ آپ کوشش کریں آپ کھانا گھر پر کھائیں اور وہ کھانا بھی خود بنائیں‘دفتر اور کالج میں بھی اپنا کھانا ساتھ لے کر جائیں‘ گوشت اور مرغی خود خرید کر لائیں اور اعتباری دکانداروں سے خریدیں‘
آپ گھر پر بھی گوشت مرغی فریز نہ کریں اوراگر کریں تو ہفتے دس دن سے زیادہ نہ کریں اورآپ جو پیکٹ بھی کھولیں استعمال سے پہلے اس کی ایکسپائری ڈیٹ ضرور دیکھ لیں‘آپ یہ یاد رکھیں ہم جس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں ہر دوسرا شخص زہر بیچ رہا ہے اور پہلا شخص وہ زہر کھا رہا ہے ‘ آپ کوشش کریں آپ پہلے شخص ہوں اور نہ دوسرے‘ کیوں؟ کیونکہ اس ملک میں جو شخص خالص اشیاءبیچے گا وہ ولی اللہ ہو گا اور جو جعل سازوں اور زہر فروشوں سے بچ کر زندگی گزارلے گا وہ عقل مند ترین بلکہ وقت کا افلاطون ہو گا‘آپ ولی اللہ بنیں یا پھر افلاطون بن جائیں‘ پورا میدان آپ کےلئے کھلا ہے۔