حضرت نے اپنے بیٹے کو گھڑا دیا‘ پانی لانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی زوردار تھپڑ مار کر کہا ”خبردار گھڑا ٹوٹنا نہیں چاہیے“ بٹیا روتا روتا گھڑا اٹھا کر چلا گیا‘ دیکھنے والے نے کہا ”حضرت بیٹے نے گھڑا نہیں توڑا لیکن آپ نے اسے سزا دے دی‘ یہ کیا منطق ہے“ وہ مسکرا کر بولے ”یہ اگر گھڑا توڑ دے گا تو مجھے اسے تھپڑ مارنے کا کیا فائدہ ہو گا‘ میرا نقصان تو ہو چکا ہو گا“ سننے والے مسکرانے پر مجبور ہوگئے۔یہ حضرت ملا نصیر الدین تھے‘ ملا نصیر الدین بخارہ شہر کے رہنے والے تھے‘
شہر کے قدیم حصے میں آج بھی ملا نصیر الدین کا مجسمہ نصب ہے‘ مُلا سیاہ رنگ کے گدھے پر بیٹھے ہیں‘ پاﺅں میں سلیپر ٹائپ کے ڈھیلے ڈھالے سے جوتے ہیں اور چہرے پر حماقت اور شوخی کے ڈھیر لگے ہیں لیکن آپ جب مجسمے کو قریب سے دیکھتے ہیں تو آپ کو ان کی آنکھوں میں ذہانت دکھائی دیتی ہے‘ ملا نصیر الدین بے وقوف نہیں تھے‘ وہ انتہائی ذہین انسان تھے‘ انسان کی ذہانت جب انتہا کو چھو لیتی ہے تو یہ عام لوگوں کےلئے بے وقوفی بلکہ حماقت بن جاتی ہے‘ آپ کو یہ ”حماقت“ ارشمیدس میں بھی ملے گی‘ گلیلیو میں بھی‘ منصور میں بھی اور ابن الہیثم میں بھی‘ ملا نصیر الدین بھی انتہائی ذہین انسان تھے چنانچہ وہ بخارہ کے لوگوں میں مزاحیہ کردار مشہور ہو گئے‘ میں ملا نصیر الدین کے مجسمے کے قریب پہنچا‘ ان کے گدھے کی کمر پر ہاتھ پھیرا‘ دل ہی دل میں مُلا کےلئے دعا کی اور پھر بخارہ کی قدیم اداس گلیوں میں اتر گیا‘ رات اور آدھا چاند دونوں بخارہ کی گلیوں میں بکھرے ہوئے تھے‘ کلاں مینار کے قریب ایک چائے خانہ کھلا تھا‘ یہ گھریلو چائے خانہ تھا‘ خاندان نے اپنے گھر کے نچلے حصے کو ریستوران‘ درمیانے حصے کو رہائش گاہ اور چھت کو چائے خانے میں تبدیل کر دیا تھا‘ یہ فیملی کیفے تھا‘ خاندان کی خواتین اور بچے کاروبار چلاتے تھے‘ میں احباب کے ساتھ چھت پر بیٹھ گیا‘ بخارہ کی اداسی اور فسوں دونوں ہمارے سامنے بچھے ہوئے تھے‘ کلاں مینار‘ اس کے دائیں بائیں موجود مدارس‘ دنیا کے قدیم ترین بازار کی گنبد نما چھتیں‘ اینٹوں کی گلیاں‘ آدھا چاند اور گلیوں میں سرکتی ٹھنڈی ہوا وہاں سب کچھ تھا اور کلاں مینار اس سب کچھ کے کانوں میں سرگوشیاں کر رہا تھا‘
تاریخ بتاتی ہے چنگیز خان کھوپڑیوں کے مینار بناتا ہوا1220ءمیں بخارہ پہنچا تو وہ اس مینار کے سامنے رک گیا‘ مینار46میٹر اونچا تھا‘ چنگیز خان نے مینار کی آخری حد دیکھنے کےلئے سر اٹھایا تو اس کی پگڑی گر گئی‘ وہ پگڑی اٹھانے کےلئے بے اختیار جھکا اور اسے اپنا وعدہ یاد آگیا‘ اس نے خود سے وعدہ کیا تھا وہ زندگی میں کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکے گا لیکن اینٹوں کے ایک بے جان مینار نے دنیا کے سب سے بڑے فاتح کو اپنے قدموں میں جھکا دیا‘ وہ شرمندہ ہو گیا‘ پگڑی اٹھائی‘ سر پر رکھی اور حکم دیا اس پورے شہر میں اس مینار کے علاوہ ساری عمارتیں گرا دی جائیں اور سارے سر اتار دیئے جائیں‘ چنگیزی فوج آگے بڑھی‘
پورے بخارہ کے سر اتار کر کلاں مسجد میں جمع کئے‘ سروں کا مینار بنایا اور مینار پر انسانی چربی کا لیپ کر کے آگ لگا دی‘ شہر کی تمام عمارتیں بھی گرا دی گئیں‘ صرف کلاں مینار‘ بخارہ کی قدیم مسجد اور اسماعیل سمانی کا مقبرہ بچ گیا‘ مینار پگڑی کی مہربانی سے بچا جبکہ لوگوں نے مسجد اور اسماعیل سمانی کے مقبرے کو ریت سے ڈھانپ دیا تھا‘ یہ دونوں عمارتیں ریت کا ٹیلہ بن گئیں اور دونوں بچ گئیں‘ فارسی میں کلاں بڑے کو کہتے ہیں اورکلا پگڑی کو لہٰذا یہ مینار بلندی کی وجہ سے کلاں کہلاتا ہے یا پھر چنگیز خان کی پگڑی کی وجہ سے کلا مینار یہ واضح نہیں تاہم یہ طے ہے ”وہ عمارت اتنی بلند ہے کہ سر سے ٹوپی گر جاتی ہے“ اس محاورے نے اسی مینار کے سائے میں جنم لیا تھا۔
رات‘ آدھا چاند اور بخارہ کی گلیاں سانس لے رہی تھیں اور ہم مختلف مزاج اور مختلف عمروں کے سات لوگ چائے خانے کی چھت پر پھیکی چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے۔یہ ”لائیک مائینڈڈ“ لوگوں کا دوسرا ٹور تھا‘ ہم نے جون میں ترکی اور 14 ستمبر کو ازبکستان کا ٹور کیا‘ گروپ میں 71لوگ شامل تھے‘ ہم نے تاشقند شہر سے سفر شروع کیا‘ ہم بخارہ گئے‘ سمر قند میں ایک رات گزاری اور پھر تاشقند کے راستے لاہور واپس آ گئے‘ یہ میرا ازبکستان کا بارہواں وزٹ تھا لیکن میرے ساتھی پہلی مرتبہ تاریخ کے اوراق میں اترے تھے چنانچہ یہ تاشقند میں حضرت عثمان غنیؓ کا قرآن مجید‘ آٹھ سو سال پرانی ہست امام مسجد‘ چھ سو سال پرانا الائی بازار اور بخارہ میں نقش بندی سلسلے کے بانی حضرت بہاﺅالدین نقش بندیؒ‘ اسماعیل سمانی کا 12 سو سال پرانا مقبرہ‘ حضرت امام بخاریؒ کی جائے پیدائش‘ بوعلی سینا کی گلیاں اور امیر بخارہ کا قلعہ دیکھ کر مبہوت رہ گئے‘
ہم جب امیر بخارہ کے دربار سے باہر نکلے تو قلعے کی دیواروں پر سورج غروب ہو رہا تھا‘ سامنے افق پر آگ لگی ہوئی تھی‘ سورج لوہے کی ٹینکی کے ساتھ لٹک رہا تھا‘ اس کی زخمی سرخ کرنیں افق پر بکھری ہوئی تھیں اور بخارہ کے کلس‘ گلیاں‘ مینار اور مدرسوں کے بلند دروازے زخمی سورج کے آنسو پونچھ رہے تھے‘ وہ اسے تسلی دے رہے تھے‘ میں جب بھی بخارہ گیا‘ میں رات کو قدیم شہر کی قدیم گلیوں میں پھرتا رہا اور شہر کی 27 سو سال کی تاریخ ورق در ورق میرے سامنے کھلتی رہی‘
میں اس رات بھی جب یہ سوچتا تھا یہ وہ گلیاں ہیں جہاں کبھی امام بخاریؒ اور بوعلی سینا جیسے لوگ پھرتے تھے اور دنیا جہاں کے سوداگر اپنی عمر بھر کی کمائی لے کر یہاں ان گلیوں میں برہنہ پا گھومتے تھے تو میرے خون میں مستی ٹھاٹھیں مارنے لگتی تھی‘ دنیا میں واقعی بخارہ جیسا کوئی دوسرا شہر نہیں اور اگر ہے تو اس میں یہ فسوں‘ یہ دلکشی نہیں‘ ہم بخارہ کے بعد سمر قند گئے‘ امام بخاریؒ کے مزار پر حاضری دی‘ فاتحہ پڑھی‘ الغ بیگ کی رصد گاہ بھی دیکھی‘ الغ بیگ امیر تیمور کا پوتا تھا‘
وہ اپنے والد شاہ رخ مرزا کے بعد 1447ءمیں ماورا النہر (ازبکستان کا قدیم نام) کا بادشاہ بنا‘ وہ فلکیات میں خصوصی دلچسپی رکھتا تھا‘ بادشاہت بھی کرتا تھا‘ اپنے مدرسے میں فلکیات بھی پڑھاتا تھا اور وہ اپنی رصدگاہ میں ستاروں کی چال‘ سورج‘ چاند اور زمین کا رشتہ اور زمین کی ہیت بھی تلاش کرتا تھا‘ علماءکرام اور نالائق بیٹوں کو یہ ”گستاخی“ پسند نہ آئی چنانچہ انہوں نے اسے کافر قرار دے دیا اور اس کے صاحبزادے عبداللطیف نے اسے 27 اکتوبر1449ءکو قتل کر دیا‘
لوگوں نے اس قتل کا اتنا برا منایا کہ آج 569سال بعد بھی ازبکستان کے لوگ اپنے بیٹے کا نام عبداللطیف نہیں رکھتے‘ یہ عبداللطیف کے ساتھ ہمیشہ پدرکش کا لفظ بھی لگا دیتے ہیں‘ ہم نے حضرت دانیال ؑ کے مزار پر بھی حاضری دی‘ تیمور حضرت دانیال ؑ کی باقیات ایران کے شہر سوس سے ازبکستان لایا تھا یوں دنیا میں حضرت دانیال ؑ کے دو مزارات ہیں‘ ایک ایران کے شہرسوس میں اور دوسرا سمرقند میں‘ ہم نے نبی اکرم کے کزن حضرت قثم ابن عباسؓ کے مزار پر بھی حاضری دی‘ ازبک لوگ انہیں شاہ زنداں کہتے ہیں اور ہم آخر میں امیر تیمور اور الغ بیگ کے مدرسے میں بھی گئے اور ہم نے سونے کی مسجد (طلا مسجد) بھی دیکھی۔
ازبکستان کل اور آج کا ایک دلچسپ مجموعہ ہے‘ یہ ملک اسلامی تاریخ کی ت ہے‘ ازبکستان کے بغیر تاریخ‘ تاریخ نہیں رہتی یہ اریخ بن جاتی ہے‘ اردو زبان میں ازبک زبان کے ساڑھے سات ہزار لفظ ہیں‘ پلاﺅ ہو‘ سموسہ ہو‘ نان ہو‘ کباب ہو‘ حلیم ہو‘ چائے ہو یا پھر شوربہ ہو ہمارے زیادہ ترکھانے بھی ازبکستان سے آئے ہیں‘ امام بخاریؒ‘ امام ترمذیؒ اور حضرت بہاﺅالدین نقش بندیؒ کا پیغام بھی ازبکستان سے پاکستان پہنچا‘ الجبرا کے موجد الخوارزمی‘ بو علی سینا اور البیرونی بھی ازبکستان سے تعلق رکھتے تھے اور آدھے ہندوستان میں اسلام بھی ازبکستان سے آیا تھا چنانچہ آپ کچھ بھی کر لیں‘
آپ ازبکستان کو تاریخ سے الگ نہیں کر سکیں گے‘ ازبکستان کا آج بھی شاندار بلکہ قابل تقلید ہے‘ یہ ہم سے کہیں زیادہ غریب ملک ہے‘ امپورٹس بے تحاشہ اور ایکسپورٹس نہ ہونے کے برابر ہیں‘ کرنسی انتہائی مشکل بلکہ ذلت آمیز دور سے گزر رہی ہے‘ ایک ڈالر کے ساڑھے آٹھ ہزار سم آتے ہیں‘ لوگ نوٹ جیب میں نہیں رکھتے‘ شاپنگ بیگ میں بھرتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کو از بکستان میں کسی چہرے پر غربت دکھائی نہیں دیتی‘ ہر چہرہ شاداب‘ خوش اور مطمئن ہے‘
آپ کو پورے ملک میں بھکاری نہیں ملتے‘ صفائی نصف نہیں بلکہ ازبک لوگوں کا پورا ایمان ہے‘ آپ کو کسی سڑک‘ گلی‘ دکان اور گھر میں کاغذ کا ٹکڑا اور دھول نہیں ملے گی‘ لوگوں کا لباس اور جسم دونوں صاف ہوتے ہیں‘ آپ کو کسی شخص سے بو نہیں آتی‘ لوگوں کی عاجزی‘ انکساری‘ مہمان نوازی اور ایمانداری مثالی ہے‘ ہمارے ایک ساتھی کا بیگ ٹرین میں رہ گیا‘ بیگ میں کرنسی بھی تھی اور کاغذات بھی‘ یہ بیگ ہمیں دو دن بعد اسی ٹرین سے ملا‘
ایک دوست کا موبائل گم ہو گیا‘ سیاحتی پولیس نے چند لمحوں میں موبائل فون کھوج لیا چنانچہ آپ نے اگر غربت میں خوشحالی اور مطمئن زندگی کا گُر سیکھنا ہے تو آپ ازبکستان جائیں‘ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی‘ آپ حیران رہ جائیں گے لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں‘ میں اس وقت بخارہ کی چھت پر بیٹھا تھا‘ چائے کا کپ میرے ہاتھ میں تھا اور آدھا چاند گلیوں میں برہنہ پا پھر رہا تھا‘ بخارہ کا فسوں بال کھولے قہقہے لگا رہا تھااور ٹھنڈی ہوا اسے آہستہ آہستہ گدگدا رہی تھی۔