ارسطو کے کسی شاگرد نے اس سے کہا ”استاد محترم میں نے چوک میں ایک معتبر آدمی کو آپ کے بارے میں غلط باتیں کرتے دیکھا“ ارسطو نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ” تم مجھے پہلے یہ بتاﺅ غیبت کرنے والا شخص معتبر کیسے ہو سکتا ہے“ شاگرد نے شرمندگی سے سر جھکا دیا۔یہ ساڑھے 23سو سال پرانی مثال ہے‘ آج زمانہ تبدیل ہو چکا ہے‘آج سوشل میڈیا چوک اور معتبر آدمی بن چکا ہے لہٰذا لوگ سمارٹ فون کھولتے ہیں‘ وائرل مٹیریل دیکھتے ہیں اوراس مٹیریل کو دلیل اور ثبوت بنا کر باقی زندگی گزار دیتے ہیں‘
آج ڈس انفارمیشن کو انفارمیشن میں تبدیل کرنا انتہائی آسان ہے‘ آپ فوٹو شاپ پر دو تین تصویریں ملا کر نئی تصویر بنائیں‘ اس پر ایک دو لائنیں لکھیں‘ یہ تصویر سوشل میڈیا کے دریا میں ڈال دیں اور اس کے بعد کمال دیکھیں‘ آپ کو پانچ وقت کے نمازی پروفیسر بھی اس کا حوالہ دیتے ملیں گے‘ آپ اس کے بعد خواہ سر پیٹ لیں‘ آپ کتابوں اور حقائق کا انبار لگا دیں لیکن وہ نہیں مانیں گے‘ وہ اپنے سمارٹ فون کو ان تمام حوالوں پر معتبر قرار دیں گے‘ مجھے چند ماہ پہلے کسی صاحب نے عربی زبان کے چند فقرے بھجوائے‘ ان کا کہنا تھا اللہ تعالیٰ نے گواہی دی (پاکستان) میں ایمان والوں کی حکومت آئے گی اور یہ باطل کو کپڑے کی طرح دھو کر رکھ دے گی‘ ان صاحب کا کہنا تھا پاکستان میں وہ حکومت آ چکی ہے‘ میں نے ان سے عرض کیا جناب مجھے قرآن مجید کی تفاسیر اور تراجم پڑھنے کی توفیق حاصل ہوئی مگر میں نے یہ آیات کسی جگہ نہیں پڑھیں‘ وہ بحث کرنے لگے‘ میں نے دوبارہ پورا قرآن مجید دیکھا لیکن وہ فقرے (آیات) کسی جگہ موجود نہیں تھے‘ کسی ملعون نے عربی کے کسی شعر کو آیات بنا کر سوشل میڈیا پر چڑھا دیا تھا اور یہ سرکولیشن میں آگئے‘ میں نے امریکا میں ایک دوست سے رابطہ کیا‘ وہ فیس بک کے ہیڈ کوارٹر گیا اور فیس بک نے وہ مٹیریل پوری دنیا سے اڑا دیا‘ سوشل میڈیا پر روزانہ دس بیس لوگوں کو بے ایمان اور اتنے ہی لوگوں کو ایماندار ثابت کیا جاتا ہے اور لوگ نہ صرف ان معلومات پر یقین کرتے ہیں بلکہ یہ اسے مذہبی فریضے کی طرح آگے بھی پھیلاتے ہیں‘
ہمارے سوشل میڈیا پر جعلی مذہبی واقعات‘ بین الاقوامی اداروں کے لوگو کے ساتھ جعلی معلومات اور تاریخ کے غلط واقعات کی بھرمار ہے‘آپ لاکھ سمجھائیں لیکن لوگ سوشل میڈیا کو آپ سے بڑی گواہی سمجھتے ہیں۔ مثلاً آپ کلونجی کو دیکھ لیجئے‘لوگ اسے موت کے سوا ہر مرض کا علاج سمجھتے ہیں اور بطور دلیل ایک ضعیف حدیث بیان کرتے ہیں لیکن میں درجنوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے برکت کےلئے کلونجی استعمال کی اور آخر میں بلڈ پریشر کی مستقل دوا کھانے پر مجبور ہو گئے‘
میرے ایک دوست سمیع اللہ ہیرانی شوگر کے مرض میں مبتلا تھے‘ یہ سوشل میڈیا پر کلونجی کی برکتوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکے تھے چنانچہ یہ کلونجی کے بیج پھانکنے لگے اور پھر یہ ایک دن امریکا کے ایک ائیرپورٹ پر مرتے مرتے بچے‘ یہ اگر فوری طور پر ہسپتال نہ پہنچائے جاتے تو یہ اس وقت دنیا میں موجود نہ ہوتے‘ یہ میرے پاس کراچی سے اسلام آباد تشریف لائے اور بڑی دلسوزی سے فرمائش کی آپ مہربانی فرما کر لوگوں کو کلونجی کے بارے میں بتائیں‘
یہ اب تک نہ جانے کتنے لوگوں کی جان لے چکی ہے‘ میں نے ان سے وعدہ کر لیا لیکن مجھے یہ سطریں لکھنے میں چھ ماہ لگ گئے‘ میں اس دوران جرات پیدا کرتا رہالیکن ہمت نہ کر سکا ‘ کیوں؟ کیونکہ تاجر پیشہ لوگ برسوں سے کلونجی کے ساتھ ایک ضعیف حدیث وابستہ کر کے پیسے کما رہے ہیں‘ یہ مجھے آسانی سے اپنا کاروبار تباہ نہیں کرنے دیں گے‘ مجھے یقینا آج دھڑا دھڑ پیغامات موصول ہوں گے اور کلونجی کے کاروبار سے وابستہ لوگ مجھے ”گستاخ کلونجی“ قرار دے کر قرار واقعی سزا کا مطالبہ کریں گے مگر میں اس سلوک کےلئے ذہنی طور پر تیار ہوں‘ میں سراغ زندگی پا چکا ہوں‘
میں جان گیا ہوں میں نے اگر اس ملک میں رہنا اور طبعی زندگی گزارنی ہے تو پھر مجھے اس صورتحال سے سمجھوتہ کرنا ہوگا‘ مجھے چند عادتیں ڈالنی ہوں گی اور میں یہ عادتیں ڈال چکا ہوں‘ ان عادتوں میں سوشل میڈیا کی عدالت‘ سوشل میڈیاکے فتوے اور سوشل میڈیا کی ریاست بھی شامل ہے‘ سوشل میڈیا آپ کو کسی بھی وقت بے ایمان‘ غدار‘ گستاخ‘ کافر اور مجرم ڈکلیئر کر سکتا ہے اور آپ اگر سمجھ دار شخص ہیں تو پھر آپ کو ہر وقت اس کےلئے تیار رہنا چاہیے‘ آپ ٹینشن سے بچ جائیں گے‘
میں سوشل میڈیا کو ”حقیقت“ مان چکا ہوں چنانچہ مجھے سوشل میڈیا پر کچھ بھی کہہ دیا جائے میں ہنس کر اٹھتا ہوں اور کیاریوں میں گوڈی کرنا شروع کر دیتا ہوں‘ آپ بھی یہ عادت ڈال لیں‘ آپ بھی اچھی زندگی گزاریں گے۔میں نے کچھ اور نئی عادتیں بھی اپنی زندگی میں شامل کر لی ہیں‘ مثلاً میں یہ جان گیا ہوں آپ اگر عام شہری ہیں یا آپ عام شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں تو پھر آپ کو پولیس کے ناکوں پر رکنا بھی پڑے گا‘ اپنی اور گاڑی کی تلاشی بھی دینا ہوگی اور پولیس کی بدتمیزی بھی برداشت کرنا پڑے گی‘
آپ بھی یہ عادت ڈال لیں آپ بھی سکھی رہیں گے‘ آپ میری طرح پولیس کی مدد کے بغیر زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سیکھ لیں‘ آپ چھوٹے بڑے نقصان پر پولیس سے رابطہ نہ کریں‘ چپ چاپ نقصان برداشت کر لیا کریں‘ آپ اپنے تنازعے بھی تھانے سے باہر سیٹل کر نے کی عادت ڈال لیں‘ آپ سے زیادتی ہوئی تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لیں‘ کسی اور نے زیادتی کر دی تو سرجھکا کر گھر واپس چلے جائیں‘ زندگی اچھی گزرے گی‘آپ اگر اس کے برعکس تھانے جانے یا ایف آئی آر درج کرانے کی غلطی کر بیٹھے تو پھر آپ کی خواری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘
آپ کسی کام کے نہیں رہیں گے‘ آپ اسی طرح عدالتوں سے پرہیز کی عادت بھی ڈال لیں‘ آپ عدالت گئے نہیں اور آپ کی زندگی کے دس پندرہ سال اور دس بیس لاکھ روپے ضائع ہوئے نہیں لہٰذا آپ کے خلاف کوئی پرچہ ہوجائے تو آپ دوسرے فریق کے پاﺅں پڑ جائیں‘ وہ جو مانگے آپ دے دیں اور جان چھڑا لیں اور اگر آپ کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو آپ یہ زیادتی برداشت کر جائیں‘ آپ اس پر قانون اور انصاف کا نمک چھڑکنے کی غلطی نہ کریں‘ آپ کی زندگی ضائع ہونے سے بچ جائے گی‘
آپ اگر اسی طرح ذاتی رائے رکھتے ہیں توپھر آپ اس رائے کو اپنی حد تک رکھنے کی عادت ڈال لیں‘ آپ اپنی رائے کسی کے ساتھ شیئر کرنے کی غلطی نہ کریں کیونکہ یہ غلطی آپ کا سر کھلوانے کےلئے کافی ہو گی‘ آپ دوسروں کے ہاتھوں بے عزت بھی ہوں گے اور پھینٹا بھی کھائیں گے‘ آپ اسی طرح اگر سیدھی زندگی گزار رہے ہیں‘ سچ بول رہے ہیں‘ پورا ٹیکس دے رہے ہیں‘ قانون کی پابندی کر رہے ہیں‘ رات کے وقت بھی سرخ اشارے پر رک رہے ہیں‘ قطار میں کھڑے ہوتے ہیں‘
دوسروں کے ساتھ شائستگی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور آپ اگر عام زندگی میں منکسرالمزاج ہیں تو پھر آپ ان غلطیوں کے نتائج بھگتنے کےلئے تیار ہو جائیں‘ پھرآپ کا مذاق بھی اڑایا جائے گا‘ آپ کو نوٹس بھی ملیں گے‘ آپ اپنی فائلیں اٹھا کر دفتر دفتر ذلیل بھی ہوں گے‘ آپ سرکاری برآمدوں میں بھی بیٹھیں گے اور آپ جرمانے بھگت بھگت کر زندگی بھی گزاریں گے چنانچہ آپ میری طرح خواری کی یہ عادت بھی ڈال لیں‘ آپ کسی قیمت پر کسی عالم دین سے کوئی مذہبی سوال بھی نہ پوچھیں‘
وہ جو فرما رہے ہیں آپ چپ چاپ سن لیں اور ان کی کسی بات پر اعتراض نہ کریں‘ آپ اچھی زندگی گزاریں گے‘ آپ اسی طرح ریاستی اداروں کے کردار پر بھی ہرگز انگلی نہ اٹھائیں‘ ہم نے کتنی جنگیں لڑیں‘ کتنی جیتیں اور کتنی ہاریں‘ ملک میں کس نے کب اور کیوں مارشل لاءلگایا‘ ہم نے جنرل ضیاءالحق کی افغان پالیسی اور جنرل مشرف کی اینٹی افغان پالیسی کا کتنا نقصان اٹھایا‘ جنرل مشرف دوبئی اور نواز شریف جیل میں کیوں بند ہیں‘ 1971ءکی جنگ میں جنرل یحییٰ خان کا کیا کردار تھا اور کیا بنگلہ دیش کبھی پاکستان کا حصہ تھا؟
آپ یہ سوال ہرگز ہرگز نہ اٹھائیں‘ آپ تاریخ کے کسی پھڈے پر کوئی سوال نہ کریں‘ آپ کی زندگی اچھی گزرے گی اور آپ اگر اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ گندہ دودھ‘ جعلی ادویات‘ ملاوٹ زدہ خوراک‘ سیوریج کے پانی‘ لوڈ شیڈنگ‘ مہنگی تعلیم‘ پرائیویٹ علاج‘ سڑکوں اور محلوں میں کچرے اور جعلی جمہوریت کی عادت بھی ڈال لیں‘ آپ ان کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ تسلیم کرلیں‘ آپ کی زندگی اچھی گزرے گی۔آپ اگر اسی طرح کتابیں پڑھتے ہیں‘ فلمیں دیکھتے اور موسیقی سنتے ہیں اور آپ کو اگر آرٹ اور کلچر کے ساتھ دلچسپی ہے‘
آپ اگر صفائی پسند ہیں اور آپ کو اگر روحانیت میں انٹرسٹ ہے تو پھر آپ اپنی ان تمام دلچسپیوں کو خفیہ رکھنا سیکھ لیں‘ آپ کی زندگی اچھی گزرے گی ورنہ آپ کسی نہ کسی دن کسی کے ہاتھوں مارے جائیں گے یا پھر مسلسل بے عزت ہوں گے‘ آپ کوشش کریں آپ جتنا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں آپ اس سے زیادہ (نعوذ باللہ) اپنے دائیں بائیں موجود لوگوں سے ڈریں‘یہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ خود کو خدا سے بڑا سمجھتے ہیں‘ آپ نے اگر ان انسانی خداﺅں سے ڈرنے کی عادت نہ ڈالی تو آپ کی عزت‘ عزت نفس اور جان تینوں غیر محفوظ ہو جائیں گی‘
آپ کسی نہ کسی سچے مسلمان کے ایمان کا لقمہ بن جائیں گے اور آخری مشورہ آپ کوشش کریں آپ کسی کے ساتھ بحث نہ کریں‘ لوگ جو فرما رہے ہیں آپ چپ چاپ سن لیں‘ آپ کوئی اعتراض نہ کریں‘ آپ کی جان‘ مال اور عزت تینوں محفوظ رہیں گی ورنہ دوسری صورت میں آپ کے ساتھ وہی ہوگا جو اس وقت سلیم صافی اور رﺅف کلاسرا کے ساتھ ہو رہا ہے‘ یہ لوگ سچ بولنے اور اچھی عادتیں نہ ڈالنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔