رات کے کسی پہر بارش شروع ہوگئی‘ میں نے استنبول کی فلائیٹ لینی تھی چنانچہ میں صبح سات بجے اٹھ گیا‘ کھڑکی کے پردے ہٹائے اور میں چند لمحوں کےلئے سکتے میں آ گیا‘ کیپا ڈوشیا کا جادو جوبن پر تھا‘ فضا میں بارش تھی‘ ہلکی ہلکی دھند تھی‘ خوبانی کی مہک تھی اور دور دور تک پھیلی قدرتی چمنیاں تھیں‘ منظر میںمقناطیسی کشش تھی یا پھر سانپ کے زہر جیسا جادو تھا‘ میں کھڑکی کے پٹوں سے جڑ کر کھڑا ہو گیا اور بڑی
دیر تک بے خودی کے عالم میں باہر دیکھتا رہا‘ میں نہ جانے کب تک وہاں کھڑا رہا اور میں نہ جانے کب تک کھڑا رہتا‘ اچانک فون کی گھنٹی بجی اور میں حقیقتوں کی دنیا میں واپس آگیا‘ ہوٹل کا عملہ مجھ جیسے جاگے ہوئے کو جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔کیپا ڈوشیا سنٹرل ترکی کا حیران کن علاقہ ہے‘ یہ علاقہ 3 کروڑ سال پہلے تخلیق ہوا‘ زمین کے اس حصے میں آتش فشاں پھٹے‘ لاوا اوپر اٹھا‘ گیسوں کا دباﺅ بڑھا اور زمین پر سینکڑوں چمنیاں بن گئیں‘ یہ چمنیاں ہزاروں سال دھواں اور راکھ اگلتی رہیں‘ موسم بدلے‘ برف کا زمانہ آیا‘ آتش فشانوں کی آگ ٹھنڈی ہوئی‘ چمنیوں کی راکھ چمنیوں کے اوپر گری اور زمین کے دامن پر ہزاروں کھمبیاں سی اگ گئیں‘ یہ اینٹوں کے بھٹوں جیسی چمنیاں تھیں‘ نیچے سے بڑی اور اوپر سے پتلی‘ یہ اندر سے کھوکھلی بھی تھیں‘ لوگ آئے‘ چمنیوں میں دروازے‘ کھڑکیاں اور روشن دان بنائے اور ان قدرتی گھروں میں رہائش پذیر ہوگئے‘ لوگ آباد ہوتے رہے اور قدرتی چمنیوں کے گاﺅں قصبے اور شہر بنتے گئے‘ عیسائیوں کا زمانہ آیا‘مسیحیوں پر سختی ہوئی‘ یہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے‘ یہ اسرائیل اور شام سے ایشیائے کوچک میں آئے‘ کیپا ڈوشیا میں پہنچے اور ان چمنی نما غاروں میں آباد ہونے لگے‘ ان عیسائی مہاجروں پر حملے شروع ہوئے تو انہوں نے زمین کھودنا شروع کر دی‘ پتہ چلا کیپا ڈوشیا کی زمین بھی چمنیوں کی طرح اندر سے کھوکھلی ہے‘یہ اس کھوکھلی زمین کے اندر اترے اور انہوں
نے زیر زمین شہر آباد کرنا شروع کر دیئے‘ یہ شہر غاروں کے اندر تھے‘ یہ لوگ دھانوں کو پتھروں سے بند کر دیتے تھے جس کے بعد دشمن کےلئے انہیں تلاش کرنا مشکل ہو جاتا تھا‘ کیپا ڈوشیا میں اب تک 36 زیر زمین شہر دریافت ہو چکے ہیں‘ یہ شہر تین تین چار چار منزلہ ہیں‘ ان شہروں کے اندر نہ صرف پانی کے تالاب تھے بلکہ اجناس کے گودام‘ اصطبل‘ جانوروں کے باڑے‘ چھوٹی فیکٹریاں‘ تیل کے ذخائر اور لاشیں محفوظ رکھنے کے کمرے تک موجود تھے‘ ڈیرن کویو کیپا ڈوشیا کا گہرا ترین شہر تھا‘
یہ شہر 85 میٹر (278فٹ) گہرائی میں آباد تھا اور یہ چار منزلہ تھا‘ شہر کے اندر تازہ ہوا کےلئے پندرہ ہزار ڈکٹس بنائی گئی تھیں‘ یہ باریک نالیاں تھیں اور یہ نالیاں پورے شہر کو تازہ ہوا فراہم کرتی تھیں‘ شہر کے تین دروازے تھے‘ یہ دروازے پتھرکے تھے اور باہر کی طرف کھلتے تھے‘ یہ فوری طور پر بند بھی کئے جا سکتے تھے‘ شہر کے لوگ حملہ آوروں سے بچنے کےلئے دروازے بند کر کے زمین میں روپوش ہو جاتے تھے اور دشمن مہینوں کی کوشش کے باوجود نہیں تلاش نہیں کر پاتا تھا‘
یہ شہر1965ءمیں سیاحوں کےلئے کھولا گیا‘ دنیا بھر سے ہزاروں لوگ ہر سال یہاں آتے ہیں‘ 85 میٹر زمین کے اندر اتر کر شہر دیکھتے ہیں اور اللہ کی قدرت اور انسانی مہارت پر حیران ہوتے ہیں‘ کیمکلی کیپا ڈوشیا کا وسیع ترین شہر تھا‘ یہ شہر سو غاروں پر مشتمل تھا‘ یہ بھی چار منزلہ تھا‘ پہلی منزل پر گھوڑوں کا اصطبل تھا‘ دوسری منزل پر چرچ تھا‘ تیسری منزل میں تانبا گلانے کی بھٹیاں تھیں‘ یہ لوگ تانبے کو گلانے کا فن سیکھ گئے تھے‘ یہ غار کے پتھروں کی بھٹیاں بناتے تھے‘
ان کے نیچے آگ جلاتے تھے‘ زمین سے تانبا نکالتے تھے‘ اسے گلاتے تھے اور پھر اس کے برتن اور ہتھیار بناتے تھے اور شہر کی چوتھی منزل پر شراب کی بھٹیاں تھیں‘ یہ لوگ چوتھی اور آخری منزل میں شراب بنا کر محفوظ کرتے تھے‘ اس شہر میں ساڑھے تین ہزار لوگ آباد تھے‘ شہر میں ریستوران‘ قہوہ خانے اور شراب خانے تک موجود تھے‘ یہ غاروں میں جانور بھی پالتے تھے اور جانوروں کا چارہ بھی محفوظ کرتے تھے‘ یہ برے دنوں کےلئے گوشت اور پنیر سکھا لیتے تھے‘ یہ خوبانیاں‘ انجیر اور آلو بخارہ بھی سکھا کر محفوظ کر لیتے تھے‘ یہ شہر 1964ءمیں عوام کےلئے کھولا گیا۔
میں 21 جون کو پچاس لوگوں کا گروپ لے کر ترکی گیا‘ یہ ”ہم خیال“ لوگ تھے‘ یہ میرے ساتھ سفر کرنا چاہتے تھے‘ میں نے مئی میں گروپ کے ساتھ سفر کا منصوبہ بنایا‘ چار ہزار دو سو لوگ اس گروپ میں شامل ہوگئے‘ ہم نے بڑی مشکل سے ان میں سے 50 لوگ منتخب کئے‘ یہ مختلف عمروں اور شعبوں کے لوگ تھے‘ ان میں خواتین بھی شامل تھیں اور فیملیز بھی‘ یہ سیلف فنانس گروپ تھا‘یہ نوپرافٹ نو لاس پر بنایا گیا‘ مجھ سمیت تمام لوگوں نے اپنے اخراجات خود اٹھائے ‘
گروپ نے چھ دن استنبول‘ قونیہ اور کیپا ڈوشیا میں گزارے‘ میں اپنے شو کی وجہ سے سوموار کی صبح واپس آ گیا جبکہ باقی لوگ کل بدھ کو واپس پہنچیں گے‘ یہ تجربہ کامیاب بھی رہا اور دلچسپ بھی‘ ہم ”لائیک مائینڈڈ“ لوگوں کو ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا‘ ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے لیکن ہم آنے والے ہر ٹور کے دوران سیلف ڈویلپمنٹ کا کوئی نہ کوئی کورس بھی کرائیں گے‘ مثلاً ہم کسی ایک سفر کے دوران ساتھیوں کو خوش رہنے کے طریقے سکھاسکتے ہیں‘
دوسرے میں ”ٹیلنٹ ڈسکوری“ پر گفتگو کرسکتے ہیں‘ تیسرے میں ٹائم مینجمنٹ کے طریقے سیکھ سکتے ہیں اور چوتھے میں ایک دوسرے کو کامیابی کے گُر سیکھ اور سکھاسکتے ہیں یوں ہماری سیر بھی ہو جائے گی اور ہم ایک دوسرے کو سیکھ اور سکھا بھی لیں گے لیکن یہ مستقبل کی باتیں ہیں‘ میںسردست کیپاڈوشیا کی طرف واپس آتا ہوں‘میں اتوار کی صبح کیپا ڈوشیا میں تھا‘ میں نے سوا گیارہ بجے استنبول کی فلائیٹ لینی تھی‘ میری اتوار کی رات ساڑھے آٹھ بجے اسلام آباد کےلئے فلائیٹ تھی‘
میں نے درمیان کے چار گھنٹوں میں صحابی رسول اور فاتح مصر حضرت عمر بن عاصؓ کا مزار تلاش کرنا تھا‘ حضرت عمر بن عاصؓ نے طویل عمر پائی اور یہ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کی جنگ کے درمیان متنازعہ بھی رہے‘ یہ زندگی کے آخری حصے میں دل گرفتہ اور مایوس ہو گئے چنانچہ یہ خاموشی سے قسطنطنیہ آگئے‘ ان کا انتقال ہوا اور یہ حضرت ایوب انصاریؓ کی طرح قسطنطنیہ (استنبول کا پرانا نام) کی فصیل کے ساتھ ایک غار میں دفن ہو گئے‘
ان کے ساتھ دو مزید صحابی رسول حضرت سفیان بن عُیینہؓ اورحضرت وہب بن حصیریؓ بھی یہیں مدفون ہوئے‘ آپؓ کا مزار زمین کے سینے میں راز کی طرح پوشیدہ ہو گیا‘ یہ مزار صدیوں بعد ظاہر ہوا اور اس کے دائیں بائیں مسجد بن گئی‘ یہ مسجد اس وقت زیر زمین مسجد کہلاتی ہے‘ میں نے بڑی مشقت کے بعد یہ مزار دریافت کیا‘ میں اس مزار پر حاضری دینا چاہتا تھا‘ میری فلائیٹ کیپا ڈوشیا کے شہرنیوشیہرسے تھی‘ میرے پاس دو گھنٹے تھے‘ میں نے یہ دو گھنٹے کیپا ڈوشیا میں سانس لینے کا فیصلہ کیا‘
ٹیکسی لی اورتاریخ کی چمنیوں میں گم ہو گیا‘ ہمارا گروپ گوریمے میں ٹھہرا ہوا تھا‘ یہ کیپا ڈوشیا کا مرکزی ٹاﺅن ہے‘ زمینی چمنیاں گوریمے کے دائیں بائیں بکھری ہوئی ہیں‘ زیادہ تر چمنیوں میں فور اور فائیو سٹار ہوٹل بن چکے ہیں‘ آپ کو یہ چمنیاں دور سے کون آئس کریم یا خیمہ محسوس ہوتی ہیں لیکن آپ جب ان کے قریب جاتے ہیں تو آپ کو ان میں دروازے بھی ملتے ہیں‘ کھڑکیاں بھی اور روشن دان بھی‘ آپ ان کے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ اندر فائیو سٹار ہوٹل کا کمرہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں‘
یہ کمرے قدرتی طور پر ٹھنڈے اور گرم ہیں‘ یہ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں‘ مجھے راستے میں ایک چمنی ریستوران میں چائے پینے کا اتفاق بھی ہوا‘ چائے میں غار کی دیوار سے چپکی صدیوں کی خوشبو بھی شامل تھی‘ ہمارے ہوٹل کا آدھا حصہ غار کے کمروں پر مشتمل تھا‘ ان کمروں تک سیڑھیوں کے ذریعے رسائی ہوتی تھی لیکن بدقسمتی سے ہمیں غاروں میں جگہ نہ مل سکی‘ میں راستے میں قلعے کے قریب بھی رکا‘ یہ قلعہ بھی غاروں پر مشتمل تھا‘ پہاڑ پر ایک قطار میں سو کے قریب غار تھے‘
غاروں کے دھانے سامنے سڑک کی طرف تھے اور یہ دور سے قلعے جیسے لگتے تھے‘ یہ علاقہ ”اوپن میوزیم“ بھی کہلاتا ہے‘ آپ کھلی فضا میں کھڑے ہو کر اپنے قدموں میں قدرت کی چمنیاں دیکھتے ہیں اور آپ کے منہ سے سبحان اللہ نکلتا رہتا ہے۔کیپا ڈوشیا کی ایک اٹریکشن گرم ہوا کے غبارے بھی ہیں‘ یہ غبارے لوگوں کو فضا میں لے کر جاتے ہیں‘ لوگ غباروں میں بیٹھ کر دور دور تک پھیلی چمنیاں اور غار سٹی بھی دیکھتے ہیں اور سورج کے طلوع ہونے کا نظارہ بھی کرتے ہیں‘
غبارے صبح چار بجے اڑائے جاتے ہیں اور سات بجے دوبارہ اتار لئے جاتے ہیں‘غبارے کے اندر بیٹھ کر کیپا ڈوشیا دیکھنا بھی لائف ٹائم تجربہ ہے‘ میں بدقسمتی سے اس سفر کے دوران یہ تجربہ نہیں کر سکا‘ وقت بھی کم تھا اور صبح بارش بھی ہو رہی تھی‘ بارش میں یہ غبارے نہیں اڑائے جا سکتے لہٰذا میں محروم رہا لیکن میرے ساتھیوں نے ان کا جی بھر کر لطف اٹھایا۔میں نے چمنیوںکے سامنے کھڑے ہو کر لمبی سانس لی‘ کیپا ڈوشیا کا جادو پھیپھڑوں میں بھرا اور ائیر پورٹ کے اندر داخل ہو گیا‘فلائیٹ اڑی اور میں زندگی کی چند گھڑیاں حضرت عمر بن عاصؓ کی صحبت میں گزارنے کےلئے استنبول روانہ ہو گیا۔