وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے جواب نے قوم کے باقی طبق بھی روشن کر دیئے‘ وزیراعظم نے فرمایا ”امریکا میں میرادورہ نجی تھا‘ میں چالیس سال سے امریکا جا رہا ہوں‘ سیکورٹی سے بھی گزر رہا ہوں‘ میں نے اس بار بھی تلاشی دی‘ میری کوئی ہتک نہیں ہوئی‘صدر بل کلنٹن بھی سیکورٹی سے گزرتے ہیں‘ میں سمجھتا ہوں ہم جہاں بھی جائیں ہمیں وہاں کے قانون کا احترام کرنا چاہیے‘ اس سے عزت میں کمی نہیں آتی اضافہ ہوتا ہے“ میں
وزیراعظم کے خیالات سے اتفاق کرتا ہوں‘ واقعی قانون کا احترام کرنا چاہیے لیکن یہاں پر چند سوال پیدا ہوتے ہیں‘ مجھے یقین ہے ہمارے بااصول وزیراعظم ان سوالوں کا جواب بھی اسی مردانگی سے دیں گے جس جرات کا مظاہرہ انہوں نے نیویارک ائیرپورٹ پر کیاتھا۔پہلا سوال‘ بل کلنٹن اپنے ملک کے ائیرپورٹوں پر قطار میں کھڑے ہو کر تلاشی دیتے ہیں‘ کیا یہ دوسرے ملکوں میںبھی مقامی قوانین کا احترام کرتے ہیں‘ یہ25 مارچ2000ءکو پاکستان تشریف لائے تھے‘ امریکی فوج نے ائیرپورٹ سے ایوان صدر تک پورا علاقہ اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا‘ امریکا نے ہماری سڑکوں کو بھی رائٹ ہینڈ سے لیفٹ ہینڈ بنا دیا تھا‘ بل کلنٹن نے اس وقت ہمارے قوانین اور ہماری ملکی خودمختاری کا احترام کیوں نہیں کیا تھا؟ بل کلنٹن اس وقت ریٹائر ہو چکے ہیں‘ یہ اگر اس وقت پاکستان کے نجی دورے پر آتے ہیں تو کیا یہ ہمارے قوانین کا احترام کریں گے یاپھر ہم ان سے اپنے قوانین احترام کروائیں گے‘ کیا ہم ان کے کپڑے اور جوتے اتروا کر تلاشی لیں گے اور اگر امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نجی دورے پر تشریف لائیں تو کیا ہم ان سے بھی یہ جسارت کر سکیں گے؟ اسلام آباد میں7اپریل کو امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف ایمانوئیل نے موٹر سائیکل کو کچل دیا‘پاکستانی نوجوان عتیق بیگ موقع پر جاں بحق ہوگیا جبکہ اس کا کزن راحیل شدید زخمی ہے‘ کرنل جوزف اس وقت نجی ڈرائیونگ کر رہا تھا‘ ہماری پولیس نے نہ صرف اسے عزت
کے ساتھ سفارت خانے جانے دیابلکہ اس کا میڈیکل ٹیسٹ تک نہیں کیا‘ یہ غلطی اگر ہمارے وزیراعظم اپنے نجی دورے کے دوران نیویارک میں کرتے تو کیا امریکا ہمارے وزیراعظم کو اتنی رعایت یا عزت دیتا‘ دوسرا سوال‘ بل کلنٹن اپنے ملک کے قوانین کا احترام کرتے ہیں‘ کیا ہمارے وزیراعظم بھی اپنے ملکی قوانین کا احترام کرتے ہیں‘ آپ نے بطور وزیراعظم پاکستان کے کتنے ائیرپورٹوں پر تلاشی دی اور آپ کتنی بار قطار میں کھڑے ہوئے؟ آپ وزیراعظم ہیں جبکہ ہمارے ادارے یہ جسارت آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف سے آج بھی نہیں کر سکتے‘
کیا ہمارے ادارے پاکستان کے کسی ائیرپورٹ پر بلاول بھٹو‘ مریم نواز یا حمزہ شہباز کی تلاشی لے سکتے ہیں؟ آپ نے بل کلنٹن کی مثال دی لیکن کیا آپ نے اور آپ کے لیڈروں نے آج تک پاکستان کے اندر بل کلنٹن جیسی مثال قائم کی‘ نیئر بخاری سابق چیئرمین سینٹ ہیں‘ یہ 4مئی 2016ءکو اسلام آباد کچہری گئے‘ پولیس اہلکار نے صرف ان کے کپڑوں کو ہاتھ لگانے کی غلطی کی تھی‘نیئر بخاری کے صاحبزادے نے پولیس کانسٹیبل پر تھپڑوں اور ٹھڈوں کی بارش کر دی‘ میڈیا کے شور پر چالان ہوا اور پھر فریقین کے درمیان صلح ہو گئی‘
یہ ہے پاکستان میں قانون کا احترام اور یہ ہیں پاکستان کے بل کلنٹن۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز ہفتے میں چار بار اسلام آباد تشریف لاتے ہیں‘ ان کی گاڑیاں خصوصی جہاز تک جاتی ہیں‘ یہ لوگ جہاز سے اترتے ہیں‘ گاڑیوں میں سوار ہوتے ہیں اور گاڑیاں تلاشی کے بغیر ائیر پورٹ سے باہر نکل جاتی ہیں‘ یہ واپسی پر بھی گاڑیوں میں براہ راست رن وے پر جاتے ہیں‘ میاں نواز شریف نااہل وزیراعظم ہیں اور مریم نواز کو میاں نواز شریف کی صاحبزادی کے علاوہ کوئی اعزاز حاصل نہیں چنانچہ پھر شاہد خاقان عباسی جیسے بااصول اور قانون پسند وزیراعظم قانون کی اس کھلی خلاف ورزی پر کیوں خاموش ہیں‘
حکومت انہیں تلاشی کے گیٹ سے کیوں نہیں گزارتی ؟ کیا وزیراعظم نے انہیں یہ نہیں بتایا بل کلنٹن امریکا کے ائیرپورٹس پر تلاشی دیتے ہیں اور اس سے ان کی کوئی بے عزتی نہیں ہوتی‘ تیسرا سوال‘ ہمارے وزیراعظم امریکا میں نجی دورے پر تھے چنانچہ یہ پرائیویٹ فلائیٹ میں ذاتی ٹکٹ خرید کر نیویارک گئے اور وزیراعظم نے ایف بی آئی تک کو اطلاع نہیں دی‘ گریٹ لیکن یہ جب پاکستان میں نجی دورے پر رائیونڈ جاتے ہیں یا یہ مری میں اپنے گاﺅں تشریف لے جاتے ہیں تو یہ سرکاری جہاز‘ سرکاری عملہ‘ سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پروٹوکول کیوں لیتے ہیں‘
کیا رائیونڈ کا نجی دورہ نجی اور مری کاپرائیویٹ وزٹ پرائیویٹ نہیں ہوتا؟ہمارے وزیراعظم نے ایمانداری کا کون سا ایسا روزہ رکھا ہوا ہے جو امریکا میں تو نہیں ٹوٹتا لیکن مری اور رائیونڈ میں ٹوٹ جاتا ہے‘ آپ اگر اتنے ہی بااصول اور قانون پسند ہیں تو آپ کی قانون پسندی اور اصول پرستی مری اور رائیونڈ میں کہاں چلی جاتی ہے؟ چوتھا سوال‘ آپ وزیراعظم ہیں‘ پروٹوکول اور سیکورٹی آپ کا حق ہے لیکن یہ حق آپ کے صاحبزادے اور فیملی کیوں انجوائے کر رہی ہے؟
ان کے آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری کمانڈوز کیوں ہوتے ہیں؟ امریکا میں 2016ءمیں باراک اوبامہ صدر تھے‘ یہ وائیٹ ہاﺅس میں رہتے تھے لیکن ان کی 15 سالہ بیٹی ساشا اوبامہ گرمیوں کی چھٹیوں میں مارتھاز وِن یارڈ کے ایک سی فوڈ ریستوران میں ویٹرس کی حیثیت سے کام کرتی تھی‘ یہ ریستوران کا یونیفارم بھی پہنتی تھی‘ یہ پبلک ٹرانسپورٹ پر ریستوران آتی تھی‘ کانٹریکٹ کے مطابق کام کرتی تھی اور پبلک ٹرانسپورٹ پر واپس جاتی تھی لیکن ہمارے وزیراعظم کے صاحبزادے نجی دوستوں کے گھروں میں بھی سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جاتے ہیں‘
یہ درست ہے وزیراعظم نے 4 مارچ کو اپنے صاحبزادے کی شادی سادگی کے ساتھ کی لیکن یہ سادگی خاندان کی آمدورفت میں نظر کیوں نہیں آتی؟ والد کی امریکا میں تلاشی پر کوئی ہتک نہیں ہوتی لیکن بچوں کو عام شہری بنتے ہوئے بڑی تکلیف ہوتی ہے‘ کیوں؟ یہ پروٹوکول میاں برادران کا پورا خاندان دس سال سے انجوائے کر رہا ہے‘ میاں شہباز شریف کی صاحبزادی اور داماد نے 7 اکتوبر 2012ءکو لاہور کی ایک بیکری میں نجی خریداری کے دوران غریب ملازم کو سرکاری ملازمین سے پھینٹی لگوائی تھی‘
ریاست نے ان کا کیا بگاڑ لیا‘ ہمارے بااصول اور قانون پسند وزیراعظم حمزہ شہباز اور مریم نواز کے داماد راحیل منیر کو سرکاری پروٹوکول اور سیکورٹی کیوں دے رہے ہیں‘ کیا یہ دونوں ”بانی پاکستان“ ہیں‘ کیا انہوں نے آئین بنایا تھا‘ حکومت ان کی سیکورٹی اور پروٹوکول واپس کیوں نہیں لیتی؟۔میرا پانچواں سوال‘ امریکا سمیت دنیا کے تمام بڑے ملک سرکاری دوروں پر مہمان صدر اور وزیراعظم کے علاوہ صرف ان کی اہلیہ کو پروٹوکول دیتے ہیں‘ہمارے شاہی خاندانوں کے دیگر افراد بیرون ملک دوروں پر پرائیویٹ ممبر سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ جوں ہی اپنے ملک کی زمین پر قدم رکھتے ہیں یہ مقدس مخلوق بن جاتے ہیں‘
یہ سرکاری جہاز بھی استعمال کرتے ہیں‘ گاڑیاں بھی‘ پولیس بھی اور ہوٹر سروس بھی‘ کیوں؟ ہمارے بااصول اور قانون پسند وزیراعظم اس پر پابندی کیوں نہیں لگا دیتے‘ یہ اعلان کیوں نہیں کر تے ملک میں آئندہ وزیراعظم اور صدر کی فیملی کو کوئی سرکاری سہولت حاصل نہیں ہو گی‘ آپ چالیس سال سے برطانیہ بھی جا رہے ہیں اور امریکا بھی آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے امریکا اور برطانیہ میں صدور اور وزراءاعظم کے بچوں‘ دامادوں‘ بھانجوں اور بھتیجوں کو کتنی سہولتیں حاصل ہیں؟
کیا وہاں مقدس گائیوں کے مقدس دامادوں کو سیکورٹی ملتی ہے‘ اگر نہیں تو پھر ہمارے ملک میں مقدس خاندانوں کے مقدس رشتے داروں کو یہ سہولتیں کیوں حاصل ہیں‘آپ پابندی لگا کر یہ سوراخ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بند کیوں نہیں کر دیتے؟ اور چھٹا سوال‘ علی جہانگیر صدیقی جے ایس بینک اور جے ایس گلوبل کے سی ای او ہیں‘ یہ وزیراعظم کی ائیرلائین ائیر بلیو کے میجر شیئر ہولڈر ہیں‘ وزیراعظم نے وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالتے ہی علی جہانگیر صدیقی کواپنا معاون خصوصی بنا دیا‘
یہ وزیراعظم کے دفتر میں پرائم منسٹر فلور پر بیٹھتے ہیں‘ وزیراعظم چالیس سال سے امریکا جا رہے ہیں‘ کیا امریکا کا صدر اپنے کسی بزنس پارٹنر کو معاون خصوصی بنا سکتا ہے اور کیا وہ صدر کے فلور پر صدر کے قریب ترین دفتر میں بیٹھ سکتا ہے‘ ہمارے بااصول اور ایماندار وزیراعظم نے 8 مارچ کو علی جہانگیر صدیقی کو واشنگٹن میں پاکستان کا سفیر بھی لگا دیا‘ یہ کس میرٹ پر پہلے معاون خصوصی بنائے گئے اور پھریہ کس مہارت کی بنیاد پر امریکا جیسے ملک میں سفیر بنا دیئے گئے؟
آرمی چیف نے 10مارچ کو سینئرصحافیوں اور اینکر پرسنز کے ساتھ ملاقات میں صاف بتایا ”مجھے اس تقرری کے دوران اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا“ کیا اس امریکا میں اس نوعیت کی تقرری ممکن ہے جس میں ہمارے وزیراعظم چالیس سال سے آ جا رہے ہیں‘ آپ کو علی جہانگیر صدیقی کے تقرر پر کوئی میرٹ نظر آیا اور نہ ہی قاعدہ‘ آپ کو علی جہانگیر صدیقی کے ایشو پر بھی ہتک کا احساس ہوا اور نہ ہی آپ کی بے عزتی ہوئی۔وزیراعظم ‘وزیراعظم ہیں ‘یہ خواہ دس بار نجی دورے پر جائیں اور یہ خواہ بیسیوں مرتبہ کپڑے اتروا کر تلاشی دیں اور خواہ سینکڑوں مرتبہ ان کی بے عزتی اور ہتک نہ ہو ہم پوچھنے والے کون ہوتے ہیں؟
ہماری بس اتنی درخواست ہے‘ آپ صرف اتنی مہربانی کریں آپ کے بعد لوگ یہ کہنے پر مجبور نہ ہو جائیں‘ شاہد خاقان عباسی بندے اچھے تھے لیکن یہ وزارت عظمیٰ کے قابل نہیں تھے‘ یہ امریکا میں امریکا کے قوانین کی پابندی کر لیتے تھے‘ امریکا میں ان کی ہتک نہیں ہوتی تھی لیکن پاکستان میں ان کی بے عزتی بھی ہوتی تھی اور انہیں کوئی قانون‘ کوئی اصول بھی یاد نہیں آتا تھا‘ یہ پاکستان میں شیر اور باہر ڈھیر ہوتے تھے۔