آپریشن کی منظوری سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے دی۔جلال آباد کے امریکی ائیر بیس پر چار ہیلی کاپٹر تیار کھڑے تھے‘ دو بلیک ہاک تھے اور دو چنیوک‘ ہیلی کاپٹروں میں 25 کمانڈوز سوار تھے‘ یہ چاروں ہیلی کاپٹر یکم مئی 2011ءرات گیارہ بج کر دس منٹ پر جلال آباد سے اڑے اور دس منٹ میں پاکستانی حدود میں داخل ہو گئے‘ ہیلی کاپٹروں کی حفاظت کےلئے امریکی طیاروں نے افغان حدود میں پروازیں شروع کر دیں‘
ہیلی کاپٹرزدریائے کابل کے اوپر پرواز کرتے ہوئے چکدرہ آئے‘ وہاں سے کالا ڈھاکہ کے گاﺅں کندر حسن زئی پہنچے‘ دو ہیلی کاپٹر وہیں رک گئے اور دو آگے روانہ ہو گئے‘ یہ دونوں ہیلی کاپٹر 12 بج کر 30 منٹ پر بلال کالونی ایبٹ آباد پہنچ گئے‘ کمانڈوز رسیوں کی مدد سے اسامہ بن لادن کے گھر اترے‘ دو حصوں میں تقسیم ہوئے‘ آدھے انیکسی کی طرف چلے گئے اور آدھے لادن کمپاﺅنڈ میں داخل ہو گئے‘ اسامہ بن لادن نے کلاشنکوف اٹھا لی اور الماری سے ہینڈ گرنیڈ نکال لیا‘ کمانڈوز نے گولی چلا دی‘ اسامہ 12 بج کر 39 منٹ پر گولیوں کا نشانہ بن گئے‘ ان کی اہلیہ ایمل زخمی ہو گئی‘ کمانڈوز کے دوسرے دستے نے انیکسی میں اسامہ کے صاحبزادے خالد بن اسامہ‘ مدد گار ابو احمد الکویتی‘ کویتی کے بھائی ابرار اور ان کی اہلیہ بشریٰ کو گولیوں سے اڑا دیا‘ بارہ بج کر 53 منٹ پر اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق ہوئی‘کمانڈوز نے کمپاﺅنڈ میں موجود کمپیوٹرز‘ فائلیں‘ کتابیں‘ ڈائریاں اور سی ڈیز تھیلوں میں بھریں اور واپسی کےلئے تیار ہو گئے‘ ایک بج کر چھ منٹ پر ہیلی کاپٹر واپس آئے‘ ایک ہیلی کاپٹر کی دم گھر کی باﺅنڈری وال سے ٹکرا گئی‘ دھماکہ ہوا اور مقامی آبادی جاگ گئی‘ لوگوں کو پشتو میں بتایا گیا ”آپ پیچھے ہٹ جائیں‘ سپیشل آپریشن ہو رہا ہے‘ آپ کو گولی مار دی جائے گی“ لوگ واپس بھاگ گئے‘ کمانڈوز دوسرے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے‘
متاثرہ ہیلی کاپٹر کو بم سے اڑا دیا گیا‘ ہیلی کاپٹر روانہ ہو گئے‘ دھماکے کی آواز سے پولیس اور فوج کے اہلکار متوجہ ہو گئے‘ یہ لوگ ایک بج کر 15 منٹ پر وہاں پہنچے‘ یہ گھر میں داخل ہوئے‘ زخمی خاتون کو عربی بولتے دیکھا‘ وہاں لاشیں بھی تھیں‘ خاتون سے انکوائری کی‘ پتہ چلا بیڈ روم میں اسامہ یمنی کا خون بکھرا ہوا ہے‘ 2
بج کر 7 منٹ پر لیفٹیننٹ کرنل (نام غالباً عابد تھا) نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فون پر اطلاع دے دی‘ آرمی چیف نے ائیر چیف کو فون کیا‘ ائیر چیف نے ہائی الرٹ جاری کر دیا‘ اس عمل میں 43 منٹ خرچ ہو گئے‘ ہمارے ایف 16 اڑے لیکن امریکی ہیلی کاپٹرز اس دوران کالا ڈھاکہ میں ری فیولنگ کر کے جلال آباد واپس پہنچ چکے تھے‘ آرمی چیف نے رات تین بجے وزیراعظم اور سیکرٹری خارجہ کو اطلاع دے دی‘ صبح پانچ بجے ایڈمرل مائیک مولن نے جنرل کیانی کو فون کیا اور آپریشن کی تصدیق کر دی‘ آرمی چیف نے صبح 6 بج کر 45 منٹ پر صدر آصف علی زرداری کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا۔
یہ 36 منٹ کا آپریشن پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن گیا‘ ہمارے نظام کی چار خوفناک خامیاں دنیا کے سامنے آ گئیں‘ وہ خامیاں کیا تھیں؟ پہلی خامی‘ دنیا کا موسٹ وانٹیڈ پرسن آٹھ سال تک پاکستان کے حساس علاقے میں چھپا رہا‘ اس نے اس دوران شادیاں بھی کیں‘ بچے بھی پیدا کئے اور یہ مکمل زندگی بھی گزارتا رہا اور پاکستان کے کسی ادارے کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ‘
دوسری خامی‘ امریکی ہیلی کاپٹر افغانستان سے پاکستان آئے‘ کنٹونمنٹ ایریا میں آپریشن کیا اور بحفاظت واپس چلے گئے اور ہمیں علم نہ ہو سکا‘ میرا خدشہ ہے اگر بلال کالونی میں امریکی ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش نہ آتا تو شاید ہمیں مائیک مولن کے فون سے پہلے اس آپریشن کی اطلاع نہ ہوتی‘ تیسری خامی‘ ہم اطلاع کے 43 منٹ بعد تک ایف سولہ طیارے نہیں اڑا سکے اور چوتھی خامی ہمارا سسٹم امریکی ہیلی کاپٹروں کی پرواز کا اندازہ نہیں کر سکا‘
وہ آئے‘ آپریشن کیا اور واپس چلے گئے‘ ہمارے حساس اداروں کو محسوس ہوا امریکا کو ہمارے کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کی مدد حاصل تھی‘ یہ آپریشن مقامی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا‘ یہ احساس کیوں پیدا ہوا ؟اس کی بھی کئی وجوہات تھیں‘ مثلاً ایبٹ آباد افغانستان سے دور اور مشکل علاقہ ہے‘ یہاں آپریشن مکمل ریکی کے بغیر ناممکن تھا اور ریکی کی سہولتیں طاقتور لوگوں کی مدد کے بغیر مشکل تھیں‘
آپریشن سے قبل ہیلی کاپٹروں کے راستے میں آنے والے اونچے درختوں کی شاخ تراشی اور کٹائی کی گئی‘ یہ کٹائی کس نے کرائی‘ یہ سوال اہم تھا‘ آپریشن کے وقت ایبٹ آباد کی بجلی بند کر دی گئی‘ یہ بجلی کس نے بند کرائی‘ کالا ڈھاکہ میں ہیلی کاپٹروں کےلئے پٹرول کا بندوبست کیا گیا تھا‘ یہ بندوبست بھی آسان کام نہیں تھا اور ہیلی کاپٹروں کےلئے محفوظ ترین روٹ کا تعین بھی انسانی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا‘ یہ سوال اہم تھے‘
ہمارے اداروں نے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا شروع کئے تو دو نام سامنے آ گئے‘ پہلا شخص شکیل آفریدی تھا‘یہ شخص خیبرایجنسی میں میڈیکل انچارج تھا‘ اس نے اسامہ بن لادن کا ڈی این اے حاصل کرنے کےلئے بلال کالونی میں پولیو کی جعلی مہم چلائی‘ جعلی ورکرز لادن کے گھر داخل کرائے‘ خون کا نمونہ لیا اور نمونے نے لادن کی موجودگی کی تصدیق کر دی‘
امریکیوں نے بلال کالونی میں لادن کے گھر کے نزدیک کرائے پر گھر بھی لیا‘ یہ وہاں سے لادن کے گھر کی نگرانی کرتے رہے‘ شکیل آفریدی کو گرفتار کر لیا گیا‘ آفریدی نے اپنا جرم تسلیم کر لیا‘ دوسرا نام امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا تھا‘ حسین حقانی 2002ءسے امریکا میں رہ رہے تھے‘ یہ اس دوران امریکا کے ان اداروں اور تھنک ٹینکس میں کام کرتے رہے جنہیں سی آئی اے فنڈنگ کرتی تھی‘
صدر آصف علی زرداری نے امریکی خواہش پر انہیں اپریل 2008ءمیں سفیر بنادیا‘ یہ پاکستان مخالف امریکی بل ”کیری لوگر بل“ کے خالق بھی سمجھے جاتے تھے‘ یہ آصف علی زرداری اور سی آئی اے کے انتہائی قریب تھے‘ یہ ایک طرف صدر سے براہ راست رابطے میں رہتے تھے اور یہ دوسری طرف ڈائریکٹر سی آئی اے لیون پنیٹا کو بھی ڈائریکٹ فون کر لیتے تھے‘ پاکستان کے حساس ادارے ان کے کردار سے مطمئن نہیں تھے‘
حسین حقانی کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہوئیں تو انکشافات پر انکشافات ہوتے چلے گئے‘ امریکا میں پاکستانی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا‘ وہ انتہائی پڑھے لکھے اور ایماندار افسر تھے‘ وہ ملٹری اتاشی بننے سے قبل شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی کے ملٹری سیکرٹری رہے تھے (یہ اس وقت لیفٹیننٹ جنرل ہیں اور یہ ایک اہم کور کی کمانڈ کر رہے ہیں)‘
یہ معلومات جمع کرتے رہے اور پاکستان بھجواتے رہے‘ معلومات انتہائی حساس تھیں ‘یہ ای میل یا سفارتی بیگ پر اعتماد نہیں کر سکتے تھے چنانچہ انہوں نے تمام ثبوت ہاتھ سے لکھے اور براہ راست جنرل پاشا اور جنرل کیانی کو پہنچادئیے‘ انکشافات خوفناک تھے اور یہ ثابت کرتے تھے امریکا نے کس طرح پاکستان میں جاسوسی کا نیٹ ورک بنایا‘
امریکی جاسوسوں کو کس طرح ویزے جاری کئے گئے‘ یہ لوگ کس طرح حساس آلات پاکستان لاتے رہے‘ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے کس کس عہدیدار نے ان کی مدد کی‘ وفاق کا کون کون سا وزیر‘ ایوان صدر کا کون کون سا کارندہ اور وزیراعظم کے سٹاف کا کون کون سا رکن ان لوگوں کے ساتھ ملا ہوا تھا‘ کس مذہبی سیاسی جماعت کے لوگ ان کے رابطے میں تھے اور کس نے کتنی رقم وصول کی اور وہ رقم کس اکاﺅنٹ میں رکھی گئی‘ یہ انکشافات ثابت کرتے تھے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سول حکومت کی مرضی اور منشاءکے مطابق ہوا تھا اور حکومت آپریشن میں شامل تھی۔
فوج نے یہ تمام معلومات صدر آصف علی زرداری کے سامنے رکھ دیں‘ صدر پریشان ہو گئے اور صدر کو محسوس ہوا فوج کسی بھی وقت انہیں گرفتار کر لے گی‘ یہ خوف حسین حقانی تک پہنچا‘ حسین حقانی نے اپنے دوست منصور اعجاز کو اعتماد میں لیا‘ دونوں نے مائیک مولن کےلئے چھوٹا سا مضمون ڈیزائن کیا‘ منصور اعجاز نے یہ مضمون مائیک مولن کو پہنچا دیا‘
پیغام میں درج تھا ”فوج دو مئی کے آپریشن کی وجہ سے ناراض ہے‘ یہ سویلین حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے‘ آپ جنرل کیانی کو روکیں“ مائیک مولن کو یہ بھی کہا گیا ”پاکستان فوج افغان مسئلے کی ذمہ دار ہے“۔ حسین حقانی‘ منصور اعجاز اور مائیک مولن کے درمیان یہ رابطے بلیک بیری کے ذریعے ہوئے تھے‘ یہ پیغام پاکستان میں بعد ازاں میمو سکینڈل کہلایا‘
یہ میمو بھی جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے نوٹس میں آگیا‘ پاکستان کے چند محب وطن لوگوں نے منصور اعجاز کو غیرت دلائی‘ یہ ضمیر کے دباﺅ میں آئے اور انہوں نے 10 اکتوبر 2011ءکو برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں اپنے مضمون میں ”اعتراف جرم“ کر لیا یوں حقائق سامنے آ گئے‘ صدر آصف علی زرداری کے پاس اب بچاﺅ کا کوئی ذریعہ نہیں تھا‘ زرداری صاحب نے میاں نواز شریف سے مدد مانگ لی‘ یہ مدد فوج کے نوٹس میں آ گئی‘
آرمی چیف نے میاں نواز شریف کو سارے حقائق بتا دیئے‘ میاں نواز شریف نے مدد کے بجائے خم ٹھونک کر آصف علی زرداری کے خلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کرلیا‘ حکومت نے شدید دباﺅ میں حسین حقانی کو پاکستان طلب کیا اور 22 نومبر کو ان سے استعفیٰ لے لیا‘میاں نواز شریف 23 نومبر 2011ءکو کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے اور میمو سکینڈل کی تحقیقات کےلئے رٹ دائر کر دی‘ عدالت نے پٹیشن سماعت کےلئے منظور کر لی۔ (جاری ہے)