ہم نے خطائی سے استنبول کیلئے فلائیٹ لی۔
خطائی ماضی میں انطاکیہ کہلاتا تھا‘ یہ شہر سکندر اعظم کے بعد یونان کے تیسرے بادشاہ انیٹوکس نے آباد کیا اور یہ اس کے نام پر انطاکیہ بن گیا‘ مفسرین قرآن نے اس شہر کو قریہ کا نام دیا اور اتاترک نے اس کا نام خطائی رکھ دیا‘یہ شہر ریحانلی سے چالیس منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے اور یہ تاریخ میں دو حوالوں سے مشہور ہے‘ پہلا حوالہ اصحاب یٰسین یا اصحاب القریہ ہیں‘
اللہ تعالیٰ نے سورۃ یٰسین میں ایک ایسی بستی کا ذکر کیا جس کے لوگ شرک میں مبتلا تھے‘ اللہ تعالیٰ نے دو پیغمبر بھجوائے‘ لوگوں نے انہیں ماننے سے انکار کر دیا‘اللہ نے ایک اور پیغمبر بھجوادیا‘ لوگوں نے نعوذ باللہ اسے بھی منحوس قرار دے دیا‘لوگوں نے آخر میں پیغمبروں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا‘ بستی کا ایک شخص آگے بڑھا اور بلند آواز میں کہا ‘یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں‘ میں ایمان لے آیا ہوں اور آپ بھی ان پر ایمان لے آئیں‘ آپ عذاب سے بچ جائیں گے لیکن لوگوں نے پیغمبروں کے ساتھ اس شخص کو بھی قتل کر دیا‘ اس شخص کا نام حبیب نجار تھا اور وہ بستی انطاکیہ تھی‘ مفسرین کا خیال ہے یہ واقعہ حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں پیش آیا تھا‘ وہ تینوں حضرات حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھی تھے اور ان کا نام صادق‘ صدوق اور شلوم تھا‘وہ دعوت دینے انطاکیہ آئے تھے‘ بہرحال قصہ مختصر ان تینوں پیغمبروں اور حبیب نجار کے قتل کے بعد بستی پر عذاب اترا‘ اہل بستی نے ایک خوفناک چیخ سنی اور پوری بستی تباہ ہو گئی لیکن حبیب نجار کا نام اور حوالہ بچ گیا‘ بستی کے آثار کے گرد نیا شہر آباد ہوا ‘حکمران تبدیل ہوتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓنے انطاکیہ فتح کر لیا‘ یہ بعد ازاں عیسائیوں کے قبضے میں بھی رہا اور یہ ترک سلطانوں کے پاس بھی مگر ان تمام ادوار میں حبیب نجار کی درگاہ آباد اور مرکز عقیدت رہی‘ درگاہ کے گرد پرانے شہر کے آثار ابھی تک موجود ہیں‘ شہر کا دوسرا حوالہ حضرت بایزید بسطامیؒ ہیں‘
حضرت بایزید بسطامیؒ کا مزار ریحانلی اور خطائی کے درمیان واقع ہے‘ حضرت بایزید ایران کے قدیم شہر بسطام کے رہنے والے تھے‘آبائو اجداد مشرک تھے‘ دادا نے اسلام قبول کیا‘ حضرت نے مختلف علاقوں‘ درگاہوں اور مدارس سے تعلیم حاصل کی‘ چاروں آسمانی کتابوں کے حافظ بنے‘ مختلف خطوں سے ہوتے ہوئے خطائی پہنچے اور شہر کے باہر پہاڑی کو اپنا مسکن بنا لیا‘ یہودی ربی اعظم کے ساتھ آپ کا ڈائیلاگ ہزار سال سے طلباء کو پڑھایا اور سنایا جارہا ہے۔
ہم خطائی میں داخل ہونے سے قبل حضرت بایزید بسطامیؒ کے مزار پر حاضر ہوئے‘ میدان کے عین درمیان ایک اونچی پہاڑی تھی‘ مزار پہاڑی کی چوٹی پر تھا‘ حکومت نے مزار کیلئے پکے راستے‘ سیڑھیاں اور لفٹ بنا دی ہیں‘ مزارکے پہلے کمرے میں دو خاص مریدوں کی قبریں ہیں اور پھر دوسرے کمرے میں آپ کا مزار ہے‘ یہ دونوں کمرے پہاڑ کے اندر ہیں‘ یہ شاید وہ غارتھا جس میں حضرت بایزید بسطامیؒ نے زندگی کا آخری حصہ گزاراتھا‘ مزار کے چاروں طرف گہرائی میں وسیع میدان اور کھیت ہیں‘
آپ اس جگہ کو سمجھنے کیلئے ذہن میں ایک ایسے مینار کا تصور لائیں جس کی گہرائی میں چاروں طرف ہریالی ہو تو آپ آسانی سے مزار شریف کا محل وقوع سمجھ جائیں گے‘مزار کے اندر خنکی تھی‘ میں نے حضرت بایزید بسطامیؒ کے قدموں میں کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی‘ اللہ تعالیٰ سے علم میں وسعت کی دعا کی اور باہر آ گیا‘ باہر بہت گرمی تھی لیکن ہم لوگ خطائی پہنچنے اور اصحاب قریہ اور حضرت بایزید بسطامیؒ کے مزار کی زیارت پر شاداں تھے‘ یہ واقعی اللہ کا خصوصی کرم ہے‘ اللہ نے مجھے وہ تمام مقامات دیکھنے کی توفیق عطا کی جن تک پہنچنے کی حسرت لے کر ہزاروں لاکھوں لوگ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
دنیا کے دونوں مقدس دریا فرات اور دجلہ ترکی سے شروع ہوتے ہیں‘ یہ دونوں مختلف علاقوں‘ وادیوں اور شہروںسے ہوتے ہوئے خلیج فارس میں جا گرتے ہیں‘ ترکی‘ شام اور عراق کے زیادہ تر علاقے ان دونوں دریائوں کے درمیان واقع ہیں‘ یہ علاقے قدیم دور میں میسوپوٹیمیا کہلاتے تھے‘ میسوپوٹیمیا دو یونانی الفاظ کا مرکب ہے جس کا مطلب دو دریائوں کے درمیان کا علاقہ بنتا ہے‘ عرب اس علاقے کو الجزیرہ یا مابین النہرین کہتے تھے‘ یہ پورا علاقہ انبیاء کی سرزمین اور قدیم تہذیبوں کا مرکز تھا‘
دنیا کی چاروں قدیم تہذیبیں اکاڈی‘ سمیری‘ بابلی (کلدانی) اور اشوری اس علاقے میں پروان چڑھیں‘ اشوری تہذیب بگڑ کر السوری ہوئی اور یہ اب سیریایعنی شام کہلاتی ہے‘ ترکی کے شہردیار بکر‘ عرفہ‘ کلیس‘ ریحان لی اور خطائی میسوپوٹیمیا کے اسی قدیم علاقے میں واقع ہیں‘ یہ اس ریجن کے اہم ترین شہر ہیں‘ شام کا شہر رقہ بھی دریائے فرات پر واقع ہے‘یہ ترک بارڈر سے زیادہ دور نہیں‘ یہ اس وقت داعش کا مرکز ہے اور خوفناک خانہ جنگی کا شکار ہے‘
آپ اگر عرفہ میں کھڑے ہو کر افق کی طرف دیکھیں تو آپ کو دور پہاڑوں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے‘ یہ نصیبین کی پہاڑیاں ہیں‘ ان پہاڑیوں کا ذکر بھی قرآن مجید میں آیا‘ نصیبین کے جنات نے طائف سے واپسی پر وادی نخلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی‘ قرآن مجید سنا اور آپؐ پر ایمان لائے‘ نصیبین اس علاقے کے مشہور شہر مردین (Mardin) کے ہمسائے میں ہے‘ نصیبین کا شہر اور پہاڑیاں آج بھی آسیب زدہ محسوس ہوتی ہیں‘
یہ موصل اور حلب دونوں سے اڑھائی سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘ماضی میں موصل سے شام جانے والے تمام قافلے نصیبین سے گزرتے تھے‘ نصیبین اور مردین دونوں میری فہرست میں شامل ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا تو میں انشاء اللہ یہاں بھی پہنچوں گا۔ مردین دنیا کا واحد شہر ہے جہاں سات مذاہب کے لوگ رہتے ہیں‘ یہ تمام لوگ اکٹھے زندگی گزار رہے ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی اختلاف نہیں‘ میں وہ فارمولا دیکھنے وہاں جانا چاہتا ہوں جس کے تحت یہ ایک دوسرے کا سر پھاڑے بغیرصدیوں سے پرامن زندگی گزار رہے ہیں‘
یہ امن قابل مطالعہ ہے‘ کیوں؟ کیونکہ میسو پوٹیمیا کا پورا علاقہ اس وقت آگ اور خون کی دلدل ہے‘ پورا عراق سسک رہا ہے اور شام آخری ہچکیاں لے رہا ہے‘ صرف ترکی کے علاقے بچے ہیں‘ عالم اسلام کے دشمن اس جنگ کو ترکی تک دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں‘شام‘ عراق اور ترکی تینوں کی سرحدوں پر کرد آباد ہیں‘ ان تمام کردوں کو مسلح کیا جا رہا ہے‘ کرد شام اور عراق کے غیر کردوں کو قتل بھی کر رہے ہیں اور ترک کردوں کوہتھیار اٹھانے پر بھی اکسا رہے ہیں‘
ترکی نے بڑی حکمت سے حالات کنٹرول کر رکھے ہیں لیکن جس دن یہ گٹھڑی کھل گئی اس دن فرات اور دجلہ کے منبع سے لے کر خلیج فارس تک انبیاء کرام کی پوری سرزمین لہو لہان ہو جائے گی‘ پورا میسو پوٹیمیا سرخ ہو جائے گا‘یہ کیوں ہو رہا ہے؟ آپ اگر یہ سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ چودہ سو سال پیچھے چلے جائیں‘ آپ حضرت علیؓ کے دور کے نقشے نکالیں اورپھر آج کے عالم اسلام کے نقشے دیکھیں‘ آپ چند لمحوں میں جان لیں گے اسلامی دنیا کو اس شکل میں لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس شکل میں یہ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں تھی‘
پورے عالم اسلام کو نسلی اور مسلکی خطوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے‘ تعصبات اور نسلی اور مسلکی اختلافات دوبارہ زندہ کئے جا رہے ہیں تاکہ مسلمان مسلمان کو قتل کرنا شروع کر دے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ عراق‘ لیبیا‘ مصر ‘ شام ‘ یمن‘ سوڈان اور افغانستان کے حالات کا جائزہ لے لیں‘ آپ کو یہ سارے علاقے چودہ سو سال پیچھے جاتے نظر آئیں گے‘اب سعودی عرب‘ ترکی‘ ایران اور پاکستان کی باری ہے‘ یہ ملک بھی شام ‘ عراق اور مصر بنائے جا رہے ہیں اور اس مکروہ کام کیلئے ایک خوفناک فارمولا استعمال کیا جارہا ہے‘
پہلے ملک کی فوج کو سیاستدانوں سے لڑایا جاتا ہے‘ پھر فوج اور سیاستدانوں کو تقسیم کیا جاتا ہے‘ پھر ملک کے اندر نسلی اور مسلکی گروپ بنائے جاتے ہیں‘ پھر ان گروپوں کو ہتھیار دیئے جاتے ہیں اور آخر میں مرکزی حکومتیں توڑ دی جاتی ہیں اور یوں ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے‘ ترکی‘ ایران اور پاکستان میں بھی یہ فارمولا چل رہا ہے‘ ہم بھی بہت جلد اس جنگ کی لپیٹ میں آ جائیں گے لیکن ہم سے پہلے سعودی عرب اور امارات کی باری ہے‘
یہ دونوں خطے بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں‘ بس چنگاری کی دیر ہے اور سعودی عرب اور امارات میں آگ لگ جائے گی‘ پاکستان‘ ایران اور ترکی زیادہ دیر تک خود کو اس آگ سے باہر نہیں رکھ سکیں گے اور یوں پھر ہم بھی اس تنور میں جا گریں گے۔ کاش کوئی درد دل رکھنے والا پاکستانی پاک افواج کے سربراہوں اور ملک کی چھ بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کو ترکی اور شام کے بارڈر پر لے جائے‘
یہ انہیں کیمپوں میں پڑے وہ لوگ دکھائے جن کی نسوں میں نبیوں کا خون ہے اور پھر ان سے پوچھے‘ کیا آپ پاکستان کو بھی شام بنانا چاہتے ہیں؟ یہ لوگ انکار میں سر ہلا دیں تو وہ ہاتھ جوڑ کر کہے ’’پھر خدا کیلئے اختلافات بھلا دیں‘ ایک صفحے پر آ جائیں آپ نہیں جانتے آپ دشمنوں کے ایجنڈے کا حصہ بن رہے ہیں‘‘ شاید ہم سنبھل جائیں‘ شاید ہم بچ جائیں۔