محلے کے لوگ اکثر اوقات بچی کی آوازیں سنتے تھے‘ بچی باجی کی منتیں بھی کرتی تھی‘ معافی بھی مانگتی تھی‘ اللہ کا واسطہ بھی دیتی تھی‘ بھوک کی شکایت بھی کرتی تھی‘ درد اور بیماری کی دہائیاں بھی دیتی تھی اور اندھیرے اور سردی کا واویلا بھی کرتی تھی‘ سننے والوں کو ترس آتا تھا لیکن وہ مکین کے رتبے اور طاقت کی وجہ سے خاموش ہو جاتے تھے‘ بچی ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد راجہ خرم علی خان کے گھر ملازم تھی‘ بیگم صاحبہ سخت اور غصے کی تیز تھیں‘
وہ معمولی باتوں پر بچی کی پٹائی شروع کر دیتی تھیں‘ بچی کی چیخیں پورا محلہ سنتا تھا‘ محلے کے گارڈز بچی کو بچانے کےلئے کئی بار گھر تک گئے لیکن وہ دروازے پر دستک دینے کی ہمت نہ کر سکے یہاں تک کہ 29 دسمبر 2016ءکا دن آ گیا‘ بچی کی داستان غم اور زخم دونوں سوشل میڈیا تک پہنچ گئے‘ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو بھی اطلاع ہو گئی اور محلے کے ایک پولیس افسر کو بھی بچی پر رحم آ گیا‘ پولیس نے بچی کو جج کے گھر سے ریکور کر لیا‘ بچی زخمی تھی‘ آنکھ پر سوجن تھی‘ کان کے قریب زخم تھا اور اس کا ایک ہاتھ جلا ہوا تھا‘ پولیس نے بچی کو اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش کر دیا‘ بچی نے بتایا‘ باجی مجھے مارتی تھی‘ مجھے رات سٹور روم میں بند کر دیا جاتا تھا‘ فرش پر لٹایا جاتا تھا اور بھوکا اور پیاسا بھی رکھا جاتا تھا‘
جھاڑو گم ہوگیا تو باجی نے میرا ہاتھ چولہے میں دے کر جلا دیا‘ میرے والدین دو سال پہلے مجھے جج صاحب کے گھر چھوڑ گئے تھے‘ یہ اس کے بعد مجھے کبھی ملنے نہیں آئے اور مجھ سے گھر کا سارا کام بھی کرایا جاتا تھا وغیرہ وغیرہ‘ پولیس نے بچی کا میڈیکل کرایا‘ میڈیکل رپورٹ نے بچی کے بیان کی تصدیق کر دی‘ پولیس نے جج اور اس کی اہلیہ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا لیکن فیصلے پر عمل سے قبل بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں‘ یہ تصویریں سوشل سے الیکٹرانک میڈیا تک پہنچیں‘ نیوز چینلز نے کہرام برپا کر دیا‘ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ محمد انور کاسی نے یہ خبریں دیکھیں اور واقعے کا سوموٹو نوٹس لے لیا‘ ہائیکورٹ سے کارروائی کا حکم ملا‘
پولیس نے سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر ریڈ کیا اور بیگم صاحبہ کو گرفتار کر لیا‘ یہ خبر بھی نیوز بلیٹنز کا حصہ بن گئی‘ بیگم صاحبہ سے تفتیش جاری تھی کہ 3 جنوری کا دن آ گیا‘ بچی کا وہ والد‘ والدہ‘ پھوپھی اور چچا عدالت میں پیش ہو گئے جو دو سال تک بچی کی شکل دیکھنے کےلئے جج صاحب کے گھر نہیں آئے تھے‘ یہ چاروں ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود خان کی عدالت میں پیش ہوئے اور جج راجہ خرم علی خان اور ان کی بیگم کےلئے معافی نامہ لکھ کر دے دیا‘ بچی کے رشتے داروں کا کہنا تھا‘ یہ کیس جھوٹا ہے‘ ہم ملزمان کو اللہ کے نام پر معاف کر رہے ہیں‘ عدالت نے والدین کے راضی نامے کی بنیاد پر جج صاحب کی اہلیہ کی ضمانت منظور کر لی‘
بیگم صاحبہ نے 30 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرائے اور یہ گھر واپس تشریف لے گئیں‘ عدالت نے بچی والدین کے حوالے کر دی‘ والدین بچی کے ساتھ عدالت سے نکلے اور غائب ہو گئے‘ میڈیا نے فوری انصاف کے اس واقعے پر احتجاج شروع کر دیا‘ یہ احتجاج سپریم کورٹ تک پہنچا اور نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سوموٹو نوٹس لینے پر مجبور ہوگئے‘ چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ایک دن میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا‘ بچی کے میڈیکل ٹیسٹ کےلئے نیا بورڈ بھی بنا دیا گیا‘ یہ نوٹس سٹوری میں نیا ٹرن ثابت ہوا‘ بچی غائب ہو گئی یا غائب کر دی گئی‘
پولیس اور ضلعی انتظامیہ چار دن بچی کو تلاش کرتی رہی لیکن بچی اور اس کے والدین نہ ملے‘ یہ کیس داخل دفتر ہو جاتا لیکن سپریم کورٹ سیریس نکلی چنانچہ پولیس اورضلعی انتظامیہ بھی سنجیدگی پر مجبور ہو گئی‘ پولیس کی پانچ ٹیمیں بنیں‘ بچی کے وکیل راجہ ظہور کے گرد گھیرا تنگ ہوا اور بچی اتوار8جنوری کی سہ پہر اسلام آباد کے مضافاتی علاقے برما ٹاﺅن سے مل گئی‘ یہ والدین کے قبضے میں تھی اور والدین نے اپنے تمام فون بند کر رکھے تھے‘ پولیس طبی معائنے اور تفتیش کے بعد بچی کوکل سپریم کورٹ میں پیش کر ے گی۔
یہ دس سالہ طیبہ کی کہانی ہے‘ یہ کہانی اپنی جزوئیات کے ساتھ اب تک ملک کے بچے بچے تک پہنچ چکی ہے‘ سرکار کے تمام ادارے اور محکمے بھی طیبہ سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں لیکن کیا یہ واقفیت اور کیا یہ جزوئیات کافی ہیں؟ کیا ہمیں سپریم کورٹ کے سوموٹو اور طیبہ کی بازیابی کے بعد مطمئن ہو جانا چاہیے؟ جی نہیں! طیبہ اس پوری مملکت کے خلاف ایک ایف آئی آر ہے‘ یہ ہمارے سسٹم کا نوحہ‘ یہ ہمارے نظام کا وہ ننگا پیٹ ہے جسے ہم 70 برسوں سے جھوٹی تسلیوں کے چیتھڑوں میں چھپاتے چلے آ رہے ہیں‘ یہ ایک ”ویک اپ“ کال‘یہ ایک ”پینک الارم“ بھی ہے‘ یہ الارم‘ یہ ویک اپ کال اور یہ ایف آئی آر چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے یہ صرف ایک بچی کا مسئلہ نہیں ملک کے ڈیڑھ کروڑ بچے طیبہ جیسے حالات سے گزر رہے ہیں‘ یہ بچے گھروں‘ ورک شاپس‘ کارخانوں‘ دکانوں اور بازاروں میں چائلڈ لیبر کا شکار ہیں‘
یہ اپنا بچپن ننگے فرشوں‘ سٹور رومز‘ تھڑوں اور فٹ پاتھوں پر گزار رہے ہیں اور ہماری ریاست ان کے وجود تک سے واقف نہیں ‘ ملک میں چائلڈ لیبر جرم ہے لیکن آپ نظام کی بدصورتی ملاحظہ کیجئے سیشن جج کے گھر سے دس سال کی بچی برآمد ہوتی ہے اور یہ بچی دو سال تک اس شخص کے گھر غیر انسانی سلوک کا شکار رہی جو لوگوں کو انصاف دیتا تھا‘ جو چائلڈ لیبر کے خلاف فیصلے کرتا تھا‘ یہ ثابت کرتا ہے ہم گراوٹ‘ لاقانونیت اور درندگی کے انتہائی پست درجے پر کھڑے ہیں‘ ہمارے ملک میں ملزم اور جج دونوں برابر ہو چکے ہیں‘ ہمارا عدالتی نظام اس قدر سست ہے کہ یہ 19 سال بعد قتل کے مجرم کو بری کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے مجرم کو دفن ہوئے 2 سال ہو چکے ہیں لیکن آپ طیبہ کے کیس میں عدالت کی ایفی شینسی ملاحظہ کیجئے عدالت نے دو دن میں ملزمہ کی ضمانت لے لی‘
یہ ثابت کرتا ہے ہمارے ملک میں انصاف کے بے شمار دھارے بہہ رہے ہیں اور ان دھاروں میں ایک دھارا ججوں کی ملکیت ہے‘ یہ لوگ ایک دوسرے کو فوری انصاف فراہم کرتے ہیں‘ آپ سسٹم کی بددیانتی ملاحظہ کیجئے‘ چار لوگ عدالت میں پیش ہوئے‘ طیبہ کو اپنی بچی ڈکلیئر کیا اور عدالت نے چند منٹوں میں بچی ”والدین“ کے حوالے کر دی اور یہ والدین بچی کو لے کر غائب ہو گئے‘ عدالت نے پولیس کو یہ تصدیق کرنے کا موقع تک نہ دیا ”کیا یہ لوگ واقعی بچی کے والدین ہیں یا پھر مدعی نے کیس دبانے کےلئے جعلی والدین کھڑے کر دیئے ہیں“ بچی کی قسمت اچھی تھی چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا ورنہ دوسری صورت میں یہ بیچاری جان سے بھی جا سکتی تھی‘
ہماری عدالتیں ہمیشہ جعلی مقدموں‘ جعلی تفتیشوں اور جعلی گواہوں کا واویلا کرتی ہیں لیکن طیبہ کے کیس میں عدالت نے بچی کے والدین کی تصدیق تک مناسب نہ سمجھی‘آپ نظام کی ایک اوربدصورتی ملاحظہ کیجئے ہمارے ملک میں ججوں سمیت تمام بااثر لوگ قصاص اور دیت کے قوانین کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں‘ یہ مدعی کو خرید لیتے ہیں یا دبالیتے ہیں اور ان کا جرم معاف ہو جاتا ہے‘ ہم اگر واقعی ملک کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں طیبہ کو ٹیسٹ کیس بنا کر نظام میں چند اصلاحات کرلینی چاہئیں‘ ہمیں دس بڑے جرائم کو ریاست کے خلاف جرم قرار دے دینا چاہیے‘
ان جرائم میں ریاست مدعی ہو اور یہ کسی کو معافی کا اختیار نہ دے‘ مجرم ہر صورت کیفرکردار تک پہنچے خواہ وہ کوئی بھی ہو‘ حکومت فوری طور پر چائلڈ لیبر کے قوانین کو سخت بھی کر دے اور ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنا دے‘ ہم ایک غریب ملک ہیں ‘ ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے ملک کے غریب والدین اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے‘ یہ بچے غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کےلئے نکلتے ہیں‘ ہمیں یہ مجبوری ذہن میں رکھ کر حل نکالنے چاہئیں‘ ہم لوگوں کو پابند کریں یہ اگر کسی بچے کو ملازم رکھ رہے ہیں تو یہ بچے کی صحت‘ تعلیم اور لباس کی ذمہ داری اٹھائیں گے‘
یہ بچے باقاعدہ رجسٹرڈ ہوں‘ ان کا ماہانہ معائنہ ہو اور ان بچوں کا باقاعدہ تعلیمی ریکارڈ رکھا جائے اور آخری تجویز وہ وقت آگیا ہے جس میں ہمیں مقدس گائیوں سے جان چھڑا لینی چاہیے‘ آپ مہربانی کر کے تمام جانوروں کو برابر کر دیں‘ جج ہوں‘ جرنیل ہوں‘ جرنلسٹ ہوں یا پھر جنرل پبلک ہو قانون کے سامنے سب برابر ہونے چاہئیں‘ کسی گورے کو کالے اور عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہونی چاہیے اور ریاست فیصلہ کر لے ملک میں جنم لینے والا کوئی بچہ ریاست کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہو گا‘
یہ ریاست کی نظروں میں ہو گا‘ ہم اگر آج یہ فیصلے کر لیتے ہیں تو طیبہ کی اذیت عبادت بن جائے گی‘ یہ بچی عمل انگیز ثابت ہو گی لیکن اگر ہم نے یہ موقع بھی ضائع کر دیا‘ ہم اس پر بھی خاموش رہے تو پھر تباہی اور ہمارے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں رہے گا‘ ہم ایک ایسا جنگل بن جائیں گے جس میں ہر بڑا جانور چھوٹے کو چیرنا‘ پھاڑنا اور کھانا اپنا حق سمجھے گا جس میں صرف اورصرف طاقتور زندہ رہیں گے۔جنگل یا معاشرہ ‘ ہم نے آج ان میں سے کسی ایک کا تعین کرنا ہے۔