یوسف خان 1922ءمیں پشاور میں پیدا ہوئے‘ گھر قصہ خوانی بازار میں تھا‘ بزرگ پھلوں کا کاروبار کرتے تھے لیکن یوسف خان کو اداکاری کا شوق تھا‘ یہ جوانی میں ممبئی پہنچے‘ بمبئی ٹاکیز تقسیم سے پہلے ہندوستان کی بڑی فلم ساز کمپنی تھی‘ کمپنی کی مالک دویکا رانی نام کی ایک خاتون تھی‘ یوسف خان 1942ءمیں اس کے دفتر پہنچ گئے‘ وہ جوان بھی تھے اور خوبصورت بھی‘ دویکا رانی کو ان کی یونانی وجاہت نے مبہوت کر دیا‘ وہ اس وقت ”جوار بھاٹا“ کے نام سے فلم بنا رہی تھی‘ دویکا رانی نے یوسف خان کا نام بدلا‘ انہیں دلیپ کمار کا نام دیا اور جوار بھاٹا میں کاسٹ کر لیا‘ یہ فلم 1944ءمیں ریلیز ہوئی اور اس کے بعد ہندوستان بھر میں دلیپ کمار‘ دلیپ کمار ہو گئی‘ دلیپ کمار نے پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ یہ آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ یہ لیجنڈ ہو گئے۔
دلیپ کمار نے اپنے 60 برس کے فلمی کیریئر میں لاکھوں مداح پیدا کئے‘ ان مداحوں میں بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور میاں نواز شریف کے والد میاں شریف بھی شامل تھے‘ واجپائی کی دو کمزوریاں ہیں‘ دلیپ کمار اور لتا منگیشکر‘ یہ پوری زندگی دلیپ کمار کو دیکھ کر مبہوت ہوتے رہے‘ رہی لتا منگیشکر تو واجپائی زندگی میں جس بھی عہدے پر فائز رہے‘ یہ دوران سفر ہمیشہ لتا کے گانے سنتے رہے‘ یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2004ءمیں اسلام آباد آئے‘ شوکت عزیز اس وقت وزیر خزانہ تھے‘ یہ اس دورے میں واجپائی کے وزیر مہمان داری بنے‘ مجھے شوکت عزیز نے بتایا‘ واجپائی جوں ہی گاڑی میں بیٹھتے تھے‘ ڈرائیور فوراً لتا کی کیسٹ لگا دیتا تھا‘ یہ کیسٹ واجپائی اپنے ساتھ لائے تھے اور انہوں نے یہ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کے حوالے کر دی تھی‘ وہ لتا کا گانا سنتے سنتے وجد میں بھی آ جاتے تھے‘ میاں شریف نے اپنے چھ بھائیوں کے ساتھ مل کر 1939ءمیں لاہور کے ریلوے روڈ پر لوہے کی چھوٹی سی بھٹی لگائی‘ اس زمانے میں ان بھائیوں کی واحد تفریح سینما ہوتی تھی‘ یہ لوگ 1940ءکی دہائی میں دلیپ کمار سے متعارف ہوئے اور ہندوستان کے لاکھوں نوجوانوں کی طرح ان کے مداح ہو گئے یوں دلیپ کمار میاں شریف مرحوم اور واجپائی دونوں کے مشترکہ ہیرو تھے‘ میاں نواز شریف 1997ءمیں دوسری بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے 1998ءمیں دلیپ کمار کو ملک کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ نشان پاکستان دینے کا فیصلہ کیا‘ دلیپ کمار کو اطلاع دی گئی‘ دلیپ کمار نے فوری طور پر وزیراعظم واجپائی سے رابطہ کیا‘ ان دنوں پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے نہیں تھے‘ دلیپ کمار کا خیال تھا‘ واجپائی انہیں یہ ایوارڈ لینے سے روک دیں گے لیکن واجپائی نے نہ صرف انہیں مبارک باد پیش کی بلکہ انہیں یہ ایوارڈ وصول کرنے کی اجازت بھی دے دی‘ دلیپ کمار واجپائی کی اجازت کے بعد 1998ءمیں پاکستان آئے اور صدر پاکستان سے نشان پاکستان بھی وصول کیا اور پاکستان کو اپنا وطن بھی ڈکلیئر کیا‘ دلیپ کمار کی آمد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ”بیک ڈور ڈپلومیسی“ کا راستہ کھول دیا‘ اٹل بہاری واجپائی اور میاں نواز شریف دونوں قریب آ گئے اور اس قربت کے نتیجے میں واجپائی 1999ءمیں ”دوستی بس“ لے کر لاہور پہنچ گئے‘ اداکار دیوآنند بھی ان کے ساتھ تھا‘ اس کے بعد کارگل کا واقعہ پیش آیا‘ واجپائی نے میاں نواز شریف کو فون کیا اور کہا ”یہ آپ نے کیا کر دیا“ میاں نواز شریف اس وقت تک کارگل کی پیش رفت سے واقف نہیں تھے‘ واجپائی نے شکایت کے بعد کہا ”ہمارے ایک مشترکہ دوست اس وقت میرے پاس بیٹھے ہیں‘ یہ بھی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں“ واجپائی نے اس کے ساتھ ہی فون دوسرے شخص کو پکڑا دیا‘ نواز شریف نے چند سیکنڈ بعد دوسری طرف سے دلیپ کمار کی آواز سنی‘ دلیپ کمار کا کہنا تھا ”بھائی صاحب‘ آپ جب بھی ہندوستان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے لگیں تو یہ ذہن میں رکھ لیا کریں یہاں 20 کروڑ مسلمان رہتے ہیں اور آپ کی غلطیوں کا خمیازہ ان بے چارے ہندوستانی مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے“ نواز شریف نے دلیپ کمار اور واجپائی کو یقین دلایا ”میں کارگل کی ڈویلپمنٹ سے واقف نہیں ہوں“ واجپائی نے نواز شریف کی بات پر یقین کر لیا‘ کیوں؟ کیونکہ بھارتی ایجنسیوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اوراس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل عزیز کی ایک گفتگو ریکارڈ کی تھی‘ جنرل پرویز مشرف نے چین سے ٹیلی فون کے ذریعے جنرل عزیز سے پوچھا تھا ”وزیراعظم کو ابھی تک آپریشن کی بھنک تو نہیں پڑی“ اور جواب میں جنرل عزیز نے کہا تھا ”نہیں ابھی نہیں“ یہ ٹیپ بعد ازاں واجپائی نے برجیش مشرا کے ذریعے میاں شریف مرحوم کو رائے ونڈ پہنچا دی‘ بارہ اکتوبر 1999ءکے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات شدید سردمہری کا شکار ہو گئے‘ یہ سردمہری 2001ءمیں اس وقت ٹوٹی جب آگرہ میں پرویز مشرف اور واجپائی کے درمیان ملاقات ہوئی‘ اس ملاقات سے قبل اٹل بہاری واجپائی نے اپنا خصوصی ایلچی نواز شریف کے پاس بھجوایا‘ میاں نواز شریف اس وقت جدہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے‘ ایلچی نے نواز شریف کو واجپائی کا پیغام دیا ”آپ کو اگر کوئی اعتراض نہ ہو تو ہم جنرل مشرف سے مذاکرات شروع کر لیں“ میاں نواز شریف نے جواب دیا ”پاکستان اور بھارت کے مذاکرات شخصیات کے درمیان نہیں ہوتے‘ دو ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں اور ملکوں کے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں“ واجپائی نے نواز شریف کے اس جواب کے بعد مذاکرات اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
یہ بی جے پی کی قیادت کے ساتھ شریف خاندان کے رابطوں کا پہلا فیز تھا‘ دوسرا فیز 2014ءکے آخر میں شروع ہوا‘ نریندر مودی بی جے پی کے مضبوط ترین امیدوار بن کر سامنے آئے‘ مودی کو بھارت کے بیس بڑے سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل تھی‘ یہ سرمایہ کار گجرات میں مودی کی پرفارمنس سے متاثر تھے‘ ان میں سے دو سرمایہ کاروں کا شریف خاندان سے بھی رابطہ تھا‘ پہلا مضبوط ترین رابطہ گجرات کا ایک بزنس ٹائیکون تھا‘ یہ شخص مودی کا قریبی دوست ہے اور یہ آج بھی ان پر حاوی ہے اور دوسرا شخص سچن جندل ہے‘ جندل فیملی پنجابی ہے‘ ہریانہ کی رہنے والی ہے اور یہ لوگ لوہے کے کاروبار سے وابستہ ہیں‘ یہ بھی مودی سے رابطے میں ہیں لیکن مودی ان پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ‘ پنجابی ہونا ہے‘ مودی گجراتی ہیں اور گجراتی لوگ ثقافت کی وجہ سے پنجابیوں کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہوتے اور دوسری وجہ جندل فیملی کا کانگریس کی طرف جھکاﺅ ہے‘ سچن جندل چار بھائی ہیں‘ ان کا ایک بھائی نووین جندل کانگریس کے ٹکٹ پر دو بار لوک سبھا کا ممبر بنا چنانچہ مودی جندل پر اتنا اعتماد نہیں کرتے جتنا اعتماد انہیں گجرات کی اس کاروباری شخصیت پرہے جس نے نواز شریف اور نریندر مودی کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا‘ مودی سرکار کے ابتدائی چھ ماہ سیاسی لحاظ سے خوفناک ثابت ہوئے‘ ان کی ناتجربہ کاری‘ کم علمی اور دنیا کے بدلتے حالات سے ناواقفیت نے ان کا دماغ خراب کر دیا‘ یہ اقلیتوں سے بھی الجھ پڑے اور یہ پاکستان کو بھی فتح کرنے کےلئے نکل کھڑے ہوئے‘ ان کی ان پالیسیوں کے تین خوفناک نتائج نکلے‘ بھارت کی 80 فیصد آبادی سیکولر ہے‘ یہ سیکولر لوگ مودی کے پیچھے سے ہٹ گئے‘ یوں بہار کے الیکشنوں میں بی جے پی کا صفایا ہو گیا‘ ڈیڑھ سال بعد یوپی میں الیکشن ہوں گے اور بی جے پی ان میں بھی مار کھا جائے گی‘ دہلی کے صوبے میں پہلی ہی عام آدمی پارٹی جیسی نئی سیاسی قوت آ کر بیٹھ چکی ہے‘ دو‘ پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نے بھارتی سرمایہ کاروں کو پریشان کر دیا‘ ممبئی سٹاک ایکسچینج اس وقت دنیا کی 10ویں بڑی سٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ پاک بھارت سرحدوں کی صورتحال کا چند لمحوں میں اثر لیتی ہے چنانچہ مودی کی پاکستان پالیسی کا خمیازہ بھارت کے ان سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کے خسارے کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے جو انہیں گجرات سے نکال کر دہلی لائے تھے‘ یہ بزنس ٹائیکون بھی اب ان کے پیچھے سے ہٹ رہے ہیں‘ یہ صورتحال اگر جاری رہی تو مودی اپنے فنانسرز کی ہمدردی سے مکمل محروم ہو جائیں گے اور تین‘ تاریخ میں پہلی بار دنیا کی تین بڑی قوتوں کی پاکستان میں بیک وقت دلچسپی پیدا ہوئی‘ چین اقتصادی راہداری کی شکل میں پاکستان میں تاریخی سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ روس نے پہلی بار کھل کر پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور امریکا نے اسلام آباد میں خطے کی سب سے بڑی ایمبیسی بنا لی‘ یہ اب پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان اور سنٹرل ایشیا کو کنٹرول کرے گا‘ پاکستان اور بھارت کی سرحدی جھڑپیں ان تینوں طاقتوں کے عزائم کے راستے کی رکاوٹ ہیں چنانچہ انہوں نے بھی مودی پر دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا۔
یہ وہ تین فیکٹر ہیں جنہوں نے مودی کو نواز شریف کی طرف ہاتھ بڑھانے پر مجبور کر دیا‘ مودی نے 30 نومبر کو پیرس میں نواز شریف کو باقاعدہ تلاش کیا‘ ان کا ہاتھ پکڑا اور زور دے کر کہا ”ہم کو تم سے بات کرنی ہے“ اور اس کے بعد دونوں میں دو منٹ کی گفتگو ہوئی اور پوری دنیا حیران رہ گئی‘ اس ملاقات میں تین فیصلے ہوئے‘ دونوں ملکوں کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنکاک میں ملیں گے‘ یہ ملاقات اس سے پہلے طے نہیں تھی‘ یہ فیصلہ پیرس میں ہوا‘ دو‘ جامع مذاکرات ہوں گے اور تین‘ نریندر مودی اور میاں نواز شریف ایک دوسرے سے براہ راست رابطہ رکھیں گے‘ یہ جب چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے ایک دوسرے کو فون کر لیں گے‘ مودی نے اس تیسرے فیصلے کا فائدہ 26 دسمبر کی صبح اٹھایا‘ میاں نواز شریف اس دن فیملی کے ساتھ ناشتہ کر رہے تھے اور اچانک مودی کا فون آ گیا‘ مودی نے سب سے پہلے عید میلادالنبی کی مبارک باد دی‘ پھر سالگرہ پر مبارکباد پیش کی اور اس کے بعد کابل سے دہلی جاتے ہوئے اسلام آباد میں رکنے کی خواہش ظاہر کی‘ میاں نواز شریف نے نواسی کی شادی کا بتایا تو مودی لاہور آنے پر رضا مند ہو گئے‘ مودی نے اپنے وفد کے لوگوں کو ائیرپورٹ چھوڑا اور میاں نواز شریف کے ساتھ جاتی عمرہ چلے گئے‘ رائے ونڈ میں انہوں نے دوبار میاں نواز شریف کی والدہ کے پاﺅں چھوئے‘ نواسی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دہلی روانہ ہو گئے اور اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے وہ نریندر مودی اور میاں نواز شریف کے درمیان براہ راست ہو رہا ہے‘ سرحد پار بھارتی ادارے اس سے واقف ہیں اور نہ ہی سرحد کے اس طرف پاکستانی ادارے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا بھارت اور پاکستان کی طاقتور سٹیبلشمنٹس دو منتخب وزراءاعظم کو 68 سال پرانے تنازعے یوں آسانی سے حل کرنے دیں گی؟ میرا خیال ہے‘ نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ نریندر مودی کی اس 180 درجے کی تبدیلی نے بھارتی ملٹری سٹیبلشمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ وہ یہ گولی آرام سے نگلنے کےلئے تیار نہیں اور اس کی اس بے چینی کا نقصان میاں نواز شریف کو ہو گا‘ انہیں کوئی شخص اتنا بڑا کریڈٹ اتنی آسانی سے نہیں لینے دے گا‘ انہیں پچھلی بار واجپائی کی محبت کا نقصان اٹھانا پڑا اور انہیں شاید اس بار مودی کی مہربانیاں لے کر بیٹھ جائیں۔