بنیاں ضلع گجرات اور تحصیل کھاریاں کا غریب سا گاؤں ہے‘ لوگ کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں‘ زمینیں بارانی ہیں‘ فصلیں کبھی اچھی ہو جاتی ہیں اور کبھی بری‘ 27 جولائی کو بارشیں ہوئیں‘ پانی نے بنیاں کے لوگوں کو بھی متاثر کیا‘گاؤں کے ایک مکان کی دیوار گر گئی‘ دو معصوم بچیاں بینا مریم اور رضیہ دیوار کے نیچے آ گئیں‘ گاؤں میں گریہ وزاری شروع ہو گئی‘ یہ گریہ لاہور پہنچا‘ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اس دن فارغ تھے‘ میاں صاحب نے حسب عادت دونوں بچیوں کے لواحقین کیلئے پانچ پانچ لاکھ روپے امداد کا اعلان کر دیا‘ وزیراعلیٰ کی میڈیا ٹیم نے فیاضی کی یہ خبر ٹیلی ویژن چینلز کو جاری کر دی‘ میڈیا نے چند لمحوں میں خبر کو خبر اعلیٰ بنا دیا‘ یہ خبر وائرس کی طرح پورے گجرات میں پھیل گئی‘ وہ لوگ جو چند گھنٹے قبل تعزیت کیلئے بے چارے لواحقین کے پاس آ رہے تھے‘ وہ اب مظلوم والدین کو مبارک بادیں دینے لگے چنانچہ بنیاں کے دو گم نام خاندان چند لمحوں میں مشہور ہو گئے‘ میڈیا کے لوگ بھی وہاں پہنچنے لگے‘ ڈی سی او گجرات لیاقت علی چٹھہ بھی وزیراعلیٰ کا چیک لے کر وہاں آ گئے اور علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے بھی تعزیت کیلئے غریب والدین کے گھر پہنچ گئے‘ یہ عزت افزائی بنیاں اور گردونواح کیلئے حیران کن تھی‘ آج تک اس گاؤں کو اتنی اہمیت نہیں ملی تھی چنانچہ لوگ مظلوم خاندانوں پر رشک کرنے لگے‘ لوگوں کا خیال تھا بچیاں خاندان کیلئے خوش بخت ثابت ہوئیں‘ یہ دنیا سے چلی گئیں لیکن یہ والدین کو لاکھ پتی بھی بنا گئیں اور انہیں مشہور بھی کر گئیں۔
جکھڑ بنیاں کے قریب دوسرا گاؤں ہے‘ یہ گاؤں بھی غریب‘ معمولی اور گم نام ہے‘ جکھڑ کے لوگ بھی بنیاں کی طرح بارش کے محتاج ہیں‘ بارشیں ہو جائیں تو گھروں میں دانے آ جاتے ہیں ورنہ بھوک۔ جکھڑ میں شہباز نام کا ایک شخص رہتا تھا‘ شہباز زندگی میں تقریباً ناکام تھا‘ سر پر سات آٹھ لاکھ روپے کا قرضہ تھا‘ قرض خواہ گھر کا طواف کرتے رہتے تھے ‘ یہ گمنامی کے عذاب میں بھی مبتلا تھا‘ شہباز کے پانچ بچے تھے‘ ایک بچی کا نام صبیحہ تھا‘ بچی کی عمر صرف چار سال تھی‘ بنیاں کے واقعے نے شہباز کے ذہن پر خوفناک اثرات چھوڑے‘ اس نے اندازہ لگایا اگر صبیحہ قربانی دے دے تو میرے سارے دکھ ختم ہو سکتے ہیں‘ میں پورے ملک میں مشہور ہو جاؤں گا‘ قرض خواہ میرا قرض معاف کر دیں گے‘ وزیراعلیٰ پنجاب مجھے پانچ دس لاکھ روپے امداد دیں گے اورڈی پی او‘ ڈی سی او اور ایم پی اے اور ایم این اے بھی میرے گھر آ جائیں گے‘ اس کا خیال تھا صبیحہ اگر مزید مہربانی کر دے تو وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر پر میرے گھر بھی آ سکتے ہیں اور یوں میں‘ میری بیوی‘ میرا گھر اور میرا گاؤں چند لمحوں میں ٹیلی ویژن پر آ جائے گا‘ یہ خیال شہباز کیلئے سونے کا انڈہ بن گیا اور یہ چار سال کی بیٹی کو اس طرح دیکھنے لگا جس طرح سرمایہ کار اپنے شیئرز‘ صنعت کار اپنی مِل اور دکاندار اپنی دکان کو دیکھتا ہے‘ شہباز نے اگلے تین ہفتے پلاننگ میں گزار دیئے‘ وہ مختلف منصوبے بناتا اور توڑ دیتا‘وہ علاقے کے مختلف مقامات کا جائزہ بھی لیتا رہا لیکن کوئی سکیم پسند نہ آئی یہاں تک کہ بچوں کے اغواء کا سکینڈل سامنے آ گیا‘ ملک کے تمام ٹیلی ویژن چینلز‘ اخبارات اور ریڈیو اندھا دھند بچوں کے اغواء کی خبریں نشر کرنے لگے‘ حکومت‘ انتظامیہ‘ پولیس اور عدلیہ چاروں بچوں کے معاملے میں ’’ٹچی‘‘ ہو گئیں‘ یہ صورتحال شہباز کیلئے رہنما ثابت ہوئی‘ اس نے ایک خوفناک منصوبہ بنایا اور17 اگست کو منصوبے پر عمل شروع کر دیا‘ وہ اس دن اٹھا‘ چار سال کی صبیحہ کو اٹھایا‘ سکول کیلئے تیار کیا‘ بچی کی کنگھی کی‘ ناشتہ کرایا‘ سکول بیگ اٹھایا‘ بچی کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور اسے سکول چھوڑنے چلاگیا‘ وہ راستے میں سکول جانے کی بجائے گاؤں سے باہر چلا گیا‘ بچی نے حیران ہو کر باپ کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’ابا ہم کہاں جا رہے ہیں‘‘ باپ نے پیار سے بچی کو دیکھا اور کہا ’’بیٹا میں آج آپ کو سیر کیلئے لے جا رہا ہوں‘‘ بچی خوش ہو گئی لیکن وہ سکول بھی جانا چاہتی تھی‘ بچی کا خیال تھا‘ وہ سکول نہ گئی تو اس کی غیر حاضری لگ جائے گی اور کل اسے ٹیچر سزا دے گی‘ بچی نے باپ سے اس خدشے کا اظہار کیا لیکن باپ نے جواب دیا ’’آپ فکر نہ کرو‘ کل نہیں آئے گا‘ ٹیچر نہیں ڈانٹے گی‘‘ بچی کی حیرت میں اضافہ ہو گیا لیکن والد کے ساتھ سیر کی خوشی اس حیرت پر حاوی ہو گئی‘ شہباز بیٹی کو 40 کلو میٹر دور ڈنگہ کے قریب نہر اپر جہلم لے گیا‘ موٹر سائیکل نہر کی پٹڑی پر روکی‘ بیٹی کا بیگ اٹھایا اور نہر میں پھینک دیا‘ بچی نے رونا شروع کر دیا‘ وہ بار بار باپ کا ہاتھ پکڑتی تھی اور رو رو کر کہتی تھی ’’ابا میں نے گرمیوں کی چھٹیوں کا کام کیا تھا‘ وہ کام بستے میں تھا‘ ٹیچر اب مجھے مارے گی‘‘ لیکن باپ پانی میں تیرتے بیگ کو دیکھتا رہا‘ بیگ جب دور چلا گیا تو باپ نے بیٹی کو موٹر سائیکل سے اٹھایا‘ ہوا میں لہرایا اور یہ کہہ کر اسے پانی کی طرف اچھال دیا ’’چلو تم خود اپنا بستہ نکال لاؤ‘‘ بچی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں‘ اس نے چیخ ماری اور ’’ابا مجھے بچاؤ‘ ابا مجھے نہ پھینکو‘ ابا میں مر جاؤں گی‘‘ کی دہائیاں دینے لگی لیکن باپ کیلئے وہ بچی اس وقت بچی نہیں تھی‘ وہ دس لاکھ روپے کی انشورنس پالیسی تھی‘ وہ خاموشی سے بچی کو نہر میں گرتے دیکھتا رہا‘ پانی کا چھپاکا ہوا‘ لہروں نے کروٹ بدلی اور چار سال کی بچی پانی میں اوپر نیچے ہونے لگی‘ زندگی نے آخری کوشش کی‘ بچی نے ہاتھ پیر مارے لیکن وہ ناکام ہو گئی‘ بچی آخری بار ڈوبی اور پھر اوپر نہ آ سکی۔
باپ نے اطمینان کا سانس لیا اور موٹر سائیکل پر گھر آگیا‘ بیوی نے تاخیر کی وجہ پوچھی‘ شہباز نے بتایا‘ وہ بچی کو سکول چھوڑنے کے بعد کام سے ساتھ والے گاؤں چلا گیا تھا‘ چھٹی کا وقت ہوا‘ بچے سکول سے واپس آ گئے لیکن صبیحہ نہ آئی‘ باپ اور ماں نے سکول سے پتہ کرایا‘ معلوم ہوا بچی آج سکول آئی ہی نہیں‘ باپ نے اونچی اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا ’’میری بچی اغواء ہو گئی‘ میری بچی اغواء ہو گئی‘‘ پورا گاؤں اکٹھا ہو گیا‘ یہ خبر چند لمحوں میں پورے علاقے میں پھیل گئی‘ بچوں کے اغواء کی خبروں میں ایک اور خبر کا اضافہ ہو گیا‘ پولیس گاؤں پہنچ گئی‘ شہباز پولیس کے سامنے دیواروں پر ٹکریں مارنے لگا‘ وہ بچی کے کپڑے اور جوتے چوم رہا تھا‘ شہباز کی حالت جو بھی دیکھتا تھا اس کی آنکھیں گیلی ہو جاتی تھیں‘ شام کے وقت ڈنگہ پولیس کو سکول یونیفارم میں ملبوس ایک بچی کی لاش ملی‘ وائرلیس پر پیغام نشر ہو گیا‘ یہ پیغام ککرالی پولیس تک پہنچا‘ لاش لائی گئی‘ شہباز اور اس کی بیوی نے لاش پہچان لی‘ معصوم بچی کی لاش نے پورے علاقے کو رُلا دیا‘بچی کی تدفین کے وقت شہباز کی پہلی خواہش پوری ہو گئی‘ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار‘ سول انتظامیہ اور علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے اس کے گھر پہنچ گئے یوں یہ بھی مشہور ہو گیا لیکن پنجاب حکومت کی طرف سے امداد کا اعلان ابھی باقی تھا‘ وہ رو رہا تھا‘ چیخ رہا تھا‘ دیواروں پر ٹکریں مار رہا تھا‘ بچی کے کپڑے‘ جوتے چوم رہا تھا اور میاں شہباز شریف کی طرف سے امدادی چیک کا انتظار کر رہا تھا لیکن امداد کے اعلان سے پہلے ڈنگہ کے ایس ایچ او سرفراز انجم کو اس پر شک ہوگیا‘ اس نے ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کو اپنے شک سے مطلع کیا‘ پولیس نے شہباز کو تھانے بلالیا ‘ شہباز نے ایک گھنٹے میں اعتراف جرم کر لیا‘ وہ بار بار اللہ سے معافی مانگتا تھا‘ اپنی معصوم بیٹی کو یاد کرتا تھا اور قتل کا اعتراف کرتا تھا‘ وہ کہتا تھا ’’میں اگر پولیس کی حراست میں نہ ہوتا تو میں خودکشی کر لیتا‘‘۔
یہ داستان جس نے بھی سنی وہ اپنا دامن دل نہ سنبھال سکا‘ وہ اپنا سر تکیے میں دے کر رونے پر مجبور ہو گیا‘ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں‘ میں پچھلے 10دنوں سے اداس بھی ہوں‘ ڈپریشن میں بھی ہوں اور خوفناک اذیت کا شکار بھی ہوں‘ ہم سب بیٹیوں والے ہیں‘ ہماری بچیاں ہر وقت ہمارے دائیں بائیں دوڑتی بھاگتی رہتی ہیں‘ ہم ان کے قہقہے سنتے ہیں‘ ہم ان کی فرمائشیں پوری کرتے ہیں‘ یہ ہمارے سینوں‘ ہماری گودوں میں چھلانگیں بھی لگاتی ہیں‘ آپ ایک لمحے کیلئے اپنی گود میں بیٹھی فاطمہ‘ عائشہ‘ ارم یا زینب کو دیکھیں اور پھر سوچیں صبیحہ بھی ایک ایسی ہی بچی تھی‘ وہ بھی اپنے باپ پر اتنا ہی اعتماد کرتی تھی لیکن باپ نے بیٹی کے اعتماد کا کیا صلہ دیا‘ اس نے اس معصوم کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ مجھے یقین ہے آپ بھی میری طرح آنسو نہیں روک پا رہے ہوں گے مگر آنسو ایسے دکھوں کا مداوا نہیں ہیں‘ ہمیں ملک میں اب ایسے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے جو ایسے واقعات کا راستہ روک سکیں‘ جو صبیحہ جیسی بچیوں کے بچپن‘ معصومیت اور زندگی کی حفاظت کر سکیں لیکن ہمیں ان سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہوگا صبیحہ کا اصل قاتل کون ہے‘ صبیحہ کا والد شہباز‘ ہم میڈیا کے وہ لوگ جو امداد کی ہر خبر کو خبر اعلیٰ بنا دیتے ہیں ‘ وہ حکومتیں جنہوں نے ملک میں امدادی چیکوں کا کاروبار شروع کرا دیا ہے یا پھر وہ ماں جو اپنے خاوند کی آنکھوں میں موت کی سکیم نہ پڑھ سکی اور یا پھر ہوس زر کا شکار وہ معاشرہ جس میں والدین اب بچوں کو بھی امدادی چیک سمجھنے لگے ہیں‘ صبیحہ کا اصل قاتل کون ہے؟ آئیے ہم پہلے قاتل کو تلاش کرتے ہیں۔
صبیحہ کا اصل قاتل کون تھا
28
اگست 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں