آپ کو ترکی کی فوجی بغاوت کو سمجھنے کےلئے ذرا سا ماضی میں جانا ہوگا‘ طیب اردگان کے ماضی میں۔
طیب اردگان 1954ءمیں استنبول کی نواحی بستی ”قاسم پاشا“ میں پیدا ہوئے‘ خاندان غریب تھا‘ والد کوسٹ گارڈ تھے‘ یہ تین بھائی اور ایک بہن ہیں‘ بچپن حضرت ایوب انصاریؓ کے مزار کے گرد گزرا‘ 13سال کی عمر میں کام شروع کر دیا‘ یہ ٹافیاں اور ڈبل روٹی بیچتے تھے‘ یہ کام کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے رہے‘ 1965ءمیں گریجوایشن کی اور 1981ءمیں مرمرا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کر لی‘ یہ 1976ءمیں سیاست میں آئے‘ ترکی کی اسلامی تحریک ”نیشنل سالویشن پارٹی“ کی یوتھ ونگ میں شامل ہوئے اور یہ سیاست میں دھکے کھاتے کھاتے 1994ءمیں استنبول کے میئر بن گئے‘ جس کے بعد طیب اردگان کے طیب اردگان بننے کا وقت شروع ہو گیا‘ استنبول 1990ءکی دہائی میں کراچی جیسا تھا‘ شہر میں مافیاز کا قبضہ تھا‘ یہ دنیا میں منشیات کا تیسرا‘ معاشی فراڈز کا دوسرا اور انسانی سمگلنگ کا پہلا بڑا مرکز تھا‘ استنبول کی ٹریفک بدترین‘ صفائی کا نظام خراب ترین اور سٹریٹ کرائم بلند ترین تھے‘ طیب اردگان کا پہلا ٹاسک صفائی تھا‘ اردگان نے شہر کو پولوشن فری کر دیا‘ دوسرا ٹاسک ٹریفک تھی‘ اردگان نے شہر کی ٹریفک کو رواں اور ترتیب وار بنا دیا‘ تیسرا ٹاسک کرائم تھے‘ اردگان نے شہر کو دو برس میں کرائم فری بھی کر دیا‘ اس کے بعد مافیاز کی باری آئی‘ اردگان ایک ایک کر کے مافیاز کو بھی ختم کرتا چلا گیا یہاں تک کہ شہر مافیاز سے بھی پاک ہو گیا‘ طیب اردگان نے استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی کا دو بلین ڈالر خسارہ ختم کیا اورشہرکی تعمیروترقی پر چار بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی لہٰذا استنبول دیکھتے ہی دیکھتے ترکی کا پرامن اور ترقی یافتہ ترین شہر بن گیا‘ استنبول کے عوام امن اور ترقی کو ترسے ہوئے تھے‘ انہوں نے طیب اردگان کو کندھوں پر اٹھا لیا‘ شہر کے بزنس مینوں‘ صنعت کاروں اور تاجروں نے بھی اتحاد بنایا اور یہ طیب اردگان کے پیچھے کھڑے ہو گئے‘ فتح اللہ گولن ترکی کے عظیم دانشور ہیں‘ یہ انا طولیہ کی چھوٹی سی بستی کوروکک میں پیدا ہوئے‘ خاندان امامت کے فریضے سے منسلک تھا‘ فتح اللہ گولن نے 14 سال کی عمر میں خطبہ دینا شروع کیا‘ یہ ماڈرن سوچ کے لبرل انسان ہیں‘ جدید علوم کو پسند کرتے ہیں‘ مذاہب کے درمیان دوستی کے خواہاں ہیں اور روحانیت پر یقین رکھتے ہیں‘ فتح اللہ گولن نے 1960ءمیں حزمت تحریک شروع کی‘ یہ صوفیانہ تحریک ہے‘ تعلیم اس تحریک کا مرکزی نقطہ ہے‘ گولن کی سوچ نے بڑے پیمانے پر ترکی کے کاروباری‘ صنعتی اور جاگیردار طبقے کو متاثر کیا‘ یہ لوگ گولن کے مریدین ہو گئے‘ حزمت تحریک اس وقت بھی ترکی میں 300 تعلیمی ادارے چلا رہی ہے‘یہ لوگ دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی1000 تعلیمی ادارے بھی چلا رہے ہیں‘ پاکستان میں قائم 21”پاک ترک سکول“ بھی حزمت تحریک کے زیر انتظام ہیں‘ فتح اللہ گولن کو طیب اردگان میں ایک سچا مسلمان اور کامیاب لیڈر نظر آیا چنانچہ انہوں نے بھی اردگان کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا یوں ترکی میں طیب اردگان‘ فتح اللہ گولن اور کاروباری گروپوں کی ایک مضبوط تکون بن گئی‘ یہ تکون اسلام پسند تھی۔
آپ یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھئے ترک فطرتاً مذہب پرست ہیں‘ آیا صوفیہ قسطنطنیہ کی فتح سے قبل عیسائی دنیا کےلئے ویٹی کن سٹی سے زیادہ معتبر اور متبرک تھا‘ ترک عربوں سے زیادہ اچھے مسلمان بھی ہیں‘ ترکوں نے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی توسیع کے دوران عقیدت کو مثال بنا دیا‘ اتاترک مصطفی کمال پاشا نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کی بحالی کے چکر میں مذہب پر پابندی لگا دی ‘ اذان‘ نماز اور قرآن مجید کی اشاعت روک دی گئی‘ مساجد بند کر دی گئیں‘ حجاب‘ نقاب اور برقعے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا‘ داڑھی پر پابندی لگ گئی‘ سیکولرازم کو ملک کا قانون‘ آئین اور مذہب بنا دیا گیا اور فوج کو اس سیکولرازم کا ”گارڈین“ مقرر کر دیا گیا‘ یہ ”گارڈین شپ“ آج تک قائم ہے‘ عوام مذہب پر پابندی اور فوجی آمریت دونوں کو پسند نہیں کرتے تھے چنانچہ ملک میں 1930ءسے اسلامی تشخص کی بحالی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور فوج ان تحریکوں کو کچلتی آ رہی ہے مگر یہ تحریکیں چند سال بعد نئے نام اور نئے چہروں کے ساتھ دوبارہ ابھر آتی ہیں‘ طیب اردگان 1994ءسے 1998ءتک استنبول کے میئر رہے‘ یہ شہر کے مقبول ترین میئر تھے‘ فوج ان کی اٹھان سے خائف تھی چنانچہ انہیں 1999ءمیں بغاوت پر مبنی نظم پڑھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا‘ فوج اردگان کے پیر فتح اللہ گولن کے پیچھے بھی لگ گئی‘ گولن ملک سے نکلے اور امریکا کی ریاست پنسلوینیا کے شہر سیلز برگ میں پناہ گزین ہوگئے لیکن وہ امریکا سے طیب اردگان کی مدد کرتے رہے‘2000ءمیں ترکی میں فوج کے ہاتھوں اردگان کے سیاسی گرو نجم الدین اربکان کی حکومت ختم ہو چکی تھی‘فوج نے اربکان پر سیاسی پابندیاں بھی لگا دی تھیں چنانچہ ملک میں شدید سیاسی خلاءتھا‘ یہ خلاءطیب اردگان نے پُر کیا‘ انہوں نے 2001ءمیں ”جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی“ بنائی‘ 2002ءکے الیکشنوں میں حصہ لیا‘ پارٹی نے 34فیصد ووٹ حاصل کر لئے‘ طیب اردگان پابندی کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے قریبی ساتھی عبداللہ گل کو وزیراعظم نامزد کر دیا‘ ان کی حکومت آئی‘ حکومت نے اردگان سے پابندی اٹھائی‘ انہوں نے ضمنی الیکشن لڑا اور یہ 14 مارچ 2003ءکو ترکی کے وزیراعظم بن گئے‘ اردگان نے عبداللہ گل کو پہلے اپنا ڈپٹی پرائم منسٹر اور28 اگست 2007ءکو صدر بنا دیا۔
اردگان حکومت کے دو ٹارگٹ تھے‘ معیشت اور اسلامی تشخص کی بحالی‘ یہ سمجھ دار انسان تھے‘ یہ جانتے تھے ترک دلچسپ قوم ہے‘ یہ لوگ لبرل بھی ہیں اور مذہبی بھی‘ یہ لوگ صدیوں سے ایک ہاتھ میں مذہب اور دوسرے ہاتھ میں لبرل ازم اٹھا کر چل رہے ہیں‘ یہ لوگ مذہب کی قربانی دیں گے اور نہ ہی سیکولرازم ہاتھ سے جانے دیں گے‘ اردگان یہ بھی جانتے تھے ترک فوج بہت مضبوط ہے‘ اس نے صرف اذان بحال کرنے کے ”جرم“ پر وزیراعظم عدنان میندریس کو پھانسی دے دی تھی لہٰذا اردگان نے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک دلچسپ ماڈل بنایا‘ یہ ماڈل آنے والے دنوں میں ترک ماڈل یا اردگان ماڈل کہلایا‘ انہوں نے ترجیحات کی تین فہرستیں بنائیں‘ پہلی فہرست میں گورننس‘ معیشت اور سماجی بحالی کے ٹاسک شامل تھے‘ دوسری فہرست میں مذہبی تشخص کی بحالی تھی اور تیسری فہرست میں فوجی اختیارات میں کمی اور احتساب شامل تھا‘ اردگان نے سب سے پہلے اپنی پہلی فہرست پر توجہ دی‘ انہوں نے چند ماہ میں پورے ملک میں گورننس کا سسٹم ٹھیک کر دیا‘ سرکاری دفتر اور اہلکار ٹھیک ہو گئے‘ حکومتی نظام ”آن لائین“ ہو گیا‘ عوام کو اب سرکاری دفتروں میں دھکے نہیں کھانا پڑتے تھے‘ نئی سڑکیں بنیں‘ ریلوے کا نظام ٹھیک ہوا‘ ترکش ائیر لائین بحال ہوئی اور پولیس کے محکمے کو فوج جتنی سہولتیں دے دی گئیں‘ گورننس ٹھیک ہونے سے سیاحوں نے ترکی کا رخ کیا اور اردگان بین الاقوامی سطح پر مشہور ہونے لگے‘ اردگان نے گورننس کے بعد معیشت پر توجہ دی‘ جی ڈی پی 43 فیصد بڑھ گیا‘ غربت کی شرح 13 فیصد تھی‘ یہ چار اعشاریہ نو فیصد پر آ گئی‘ مہنگائی میں 23 فیصد کمی ہوئی‘ زرمبادلہ کے ذخائر 29 ارب ڈالر سے 92 ارب ڈالر ہو گئے‘ لیرا کمزور تھا‘ یہ ڈالر کے نصف تک پہنچ گیا‘ ایک ڈالر کے دو لیرے آنے لگے‘ حکومت نے ہاﺅسنگ سیکٹر پر توجہ دی‘ ملک بھر میں تعمیرات شروع ہو گئیں‘ بیرونی سرمایہ کاری کا آغاز بھی ہوا‘ ملک میں ساٹھ ہزار نئی نوکریاں پیدا ہوئیں‘ میڈیا کو آزاد کیا گیا‘ ملک میں درجنوںٹیلی ویژن چینلز اور سینکڑوں ایف ایم ریڈیو بن گئے‘ ترک ڈراموں نے پوری دنیا کی میڈیا انڈسٹری پر پنجے گاڑھنا شروع کر دیئے‘ عشق ممنوع اور میرا سلطان 40 ملکوں میں دیکھا گیا‘ سیاحت بڑی انڈسٹری بن گئی‘ ترکی دنیا کی دس بڑی سیاحتی منازل میں شامل ہو گیا‘ ترکی میں ہر سال تین کروڑ سے زائد سیاح آنے لگے‘ ترکش ائیر لائین یورپ کی بہترین اور دنیا کی ساتویں بڑی ائیر لائین بن گئی‘ ہوٹل اور ریستوران کی انڈسٹری بھی پروان چڑھی اور تعلیم بھی صنعت بن گئی‘ دنیا بھر کے طالب علم ترکش یونیورسٹیوں میں داخلے لینے لگے‘ طیب اردگان نے معاشرے پر بھی توجہ دی‘ لوگوں کو سولائزڈ بنایا گیا‘ ناپ تول میں گڑ بڑ‘ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ختم ہوئی‘ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا‘ ترک خاندان خوش حال ہوئے‘ انصاف کے محکمے مضبوط ہوئے‘ صحت اور تعلیم کا معیار بھی بلند ہوا اور عوام کو یہ سہولتیں مفت بھی ملنے لگیں‘ میٹرو بس سروس شروع ہوئی‘ ترکی کے پانچ سو چھوٹے بڑے شہروں کو تجاوزات سے بھی پاک کر دیا گیا‘ پانی‘ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو گئی اور بل بھی کم ہو گئے اور ٹریفک کا نظام بھی ٹھیک ہو گیا چنانچہ ترک معاشرہ بڑی تیزی سے یورپ کے برابر پہنچ گیا‘ عوام طیب اردگان سے خوش تھے‘ یہ انہیں ووٹ دیتے رہے اور یہ اپنے ماڈل پر کام کرتے رہے‘ عوام نے انہیں 2002ءکے الیکشن میں 34.28فیصد‘2007ءمیں 46.85 فیصد اور 2011ءمیں 49.83فیصد ووٹ دیئے یوں یہ ترک تاریخ کے مضبوط ترین لیڈر بن گئے۔
طیب اردگان کا اگلا ٹارگٹ اسلامی تشخص کی بحالی اور فوجی اختیارات میں کمی تھا‘ یہ گورننس کے بعد ادھر متوجہ ہوگئے‘ پردے‘ حجاب اور برقعے سے پابندی ہٹا لی گئی‘ سکولوں میں عربی رسم الخط دوبارہ متعارف کرا دیا گیا‘ ملک بھر کی مساجد آباد کر دی گئیں‘ مدارس بحال ہو گئے‘ صوفی رقص اور تبلیغ کی اجازت دے دی گئی‘ داڑھی پر پابندی ختم ہو گئی‘ قرآن مجید کی تلاوت شروع ہو گئی‘ ترکش قاری قرا¿ت کے بین الاقوامی مقابلوں میں شریک بھی ہونے لگے اور انعام بھی پانے لگے اور ملک میں شراب نوشی بھی محدود ہوتی چلی گی‘ طیب اردگان نے اس کے ساتھ ساتھ فوجی اختیارات کی تراش خراش بھی شروع کر دی‘ فوج کے خلاف بھرپور اقدامات 2010ءمیں شروع ہوئے اور یہ وہ اقدامات تھے جو آگے چل کر 15 جولائی 2016ءکی بغاوت کی بنیاد بنے‘ یہ اقدامات کیا تھے‘ یہ میں آپ کو اگلے کالم میں عرض کروں گا۔
مگر پاکستان ترکی نہیں
19
جولائی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں