یہ 1951ءکی بات ہے‘ نوجوان تاجر نے کپڑے کا کاروبار شروع کیا‘ وہ مارکیٹ سے کھدر خریدتا تھا اور معمولی منافع لے کر سارا کپڑا بیچ دیتا تھا‘ وہ ایک صبح کپڑا مارکیٹ گیا‘ مارکیٹ میں دو راہ گیروں کے درمیان لڑائی ہوئی اور ایک نے دوسرے کو چھری مار دی‘ زخمی سڑک پر گرا اور درد سے تڑپنے لگا‘ لوگ جمع ہوئے اور زخمی کو دیکھنے لگے‘ وہ نوجوان بھی تماشائیوں میں شامل ہو گیا‘ وہ کبھی زخمی کو دیکھتا تھا اور کبھی لوگوں کو‘ لوگ زخمی کے دکھ میں شریک تھے لیکن ان میں سے کوئی شخص مدد کےلئے تیار نہیں تھا‘ وہ زخمی پٹھان تھا‘ وہ پشتو میں دہائی دے رہا تھا‘ زخمی کی چیخیں‘ پشتو زبان میں دہائی‘ خون اور تماشہ دیکھتے لوگ یہ سب جمع ہوئے اور نوجوان کو اس راستے پر دھکیل دیا جس کے آخر میں محبت‘ عقیدت‘ دعائیں‘ سلیوٹ اور 19 توپوں کی سلامی تھی۔
وہ نوجوان عبدالستار ایدھی تھا‘ وہ پیار سے دوسروں کو مولانا کہتے تھے چنانچہ پوری دنیا نے انہیں بھی مولانا کہنا شروع کر دیا‘ میں 2002ءمیں ان کے ساتھ کپڑا مارکیٹ کے اس چوک میں گیا جہاں انہوں نے زندگی کا پہلا زخمی اٹھایا تھا‘ وہ چوک میں کھڑے ہو کر منظر کشی کر رہے تھے اور لوگ ان کے گرد جمع ہوتے چلے جا رہے تھے‘ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا لوگوں نے اپنی جیبیں خالی کرنا شروع کر دیں‘ خواتین نے اپنے زیور اتارے اور مولانا کی جیب میں ڈال دیئے‘ ایک نوجوان موٹر سائیکل سے اترا اور اپنے خاندان کی واحد سواری مولانا کے حوالے کر دی‘ لوگ آتے جاتے تھے اور نوٹ ان کے حوالے کرتے جاتے تھے‘ مولانا نے تنگ آ کر قمیض کا دامن اٹھا لیا‘ لوگوں نے نوٹوں اور زیوروں سے ان کی جھولی بھر دی‘ مولانا نے مجھے اشارہ کیا اور ہم دوڑ کر ان کی ایمبولینس میں آ گئے‘ مولانا نے گاڑی سٹارٹ کی اور ہم واپس ان کے دفتر آ گئے‘ لوگوں کی یہ عقیدت حیران کن تھی‘ میں نے تعریف کی‘ مولانا بولے ” مولانا یہ اللہ کا کرم ہے لیکن میں نے جب کام شروع کیا تو مجھے اس وقت لوگوں نے بہت تنگ کیا تھا‘ میں نے اپنا سب کچھ بیچ کر ایک پرانی ویگن لی‘ اپنی دکان کو سینٹر بنایا‘ ٹیلی فون لگوایا‘ ویگن پر فری ایمبولینس اور ٹیلی فون نمبر لکھوایا اور کام شروع کر دیا‘ فون میرے سرہانے ہوتا تھا‘ یہ فون جب بھی بجتا تھا‘ میں سر پر ٹوپی رکھ کر چل پڑتا تھا‘ میں مریض کے لواحقین سے کوئی معاوضہ نہیں لیتا تھا‘ میں نے سینٹر کے سامنے ایک گلا (منی باکس) رکھ دیا تھا‘ میں شکریہ کےلئے آنے والوں سے صرف اتنا کہتا تھا ”آپ کو جو توفیق ہے وہ اس گلے میں ڈل دیں“ اور لوگ اس میں آنہ دو آنے ڈال جاتے تھے‘ یہ دو آنے ایدھی ایمبولینس سروس کا کل اثاثہ ہوتے تھے‘ میں اس پر خوش تھا لیکن میری برادری کو یہ کام اچھا نہیں لگتا تھا‘ یہ مجھے سودائی کہتے تھے‘ میں سودائی تھا بھی‘ میرے اندر اچھے کپڑوں‘ اچھے جوتوں‘ اچھے کھانوں اور اچھے گھروں کی خواہش پیدا نہیں ہوتی تھی‘ میں نہانے کو بھی اصراف سمجھتا تھا‘ میرا خیال تھا پانی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے‘ اسے نہا کر ضائع نہیں کرنا چاہیے اور مجھے پیسے لتے کی تمنا بھی نہیں تھی‘ میری یہ عادتیں میرے کاروباری خاندان کو پسند نہیں تھیں لیکن میں ڈٹا رہا یہاں تک کہ میں اب دنیا کے کسی بھی کونے میں جھولی پھیلا کر کھڑا ہو جاتا ہوں تو لوگ آنکھیں بند کر کے اپنی جیبیں خالی کر دیتے ہیں“۔
میری عبدالستار ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات 2002ءمیں ہوئی اور آخری 2011ءمیں‘ میں نے 2002ءمیں ”سیلف میڈ“ کے نام سے ڈاکومنٹری فلمیں بنانا شروع کیں‘ یہ ایک ناکام تجربہ تھا‘ یہ تجربہ میری ساری جمع پونجی بھی لے گیا اور میرا بے شمار وقت بھی لیکن یہ مجھے ایدھی صاحب جیسے انسان سے متعارف کرا گیا‘ میں نے ایدھی صاحب پر طویل ڈاکو منٹری فلم بنائی‘ میں فلم کے چکر میں ان سے دس بار ملا‘ یہ دس ملاقاتیں میری زندگی کا اثاثہ ہیں‘ میں نے ان میں ایدھی صاحب کو بہت قریب سے دیکھا‘ وہ حقیقتاً ایک بڑے انسان تھے‘ حیران کن حد تک بڑے انسان‘ وہ میمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ گجرات کاٹھیاواڑ میں جونا گڑھ کے قریب ان کا گاﺅں تھا‘ بانٹوا‘ گاﺅں کی آبادی 25 ہزار تھی‘ گاﺅں کے ستر فیصد لوگ میمن تھے‘ گجراتی زبان میں سست لوگوں کو ایدھی کہا جاتا ہے‘ مولانا کا خاندان ایدھی کہلاتا تھا۔ ”کیا آپ لوگ سست الوجود تھے؟“ میں نے ایک بار ان سے پوچھا‘ وہ ہنسے اور بولے ”بالکل نہیں‘ ہم کام کرنے والے لوگ تھے لیکن ہم نے دوسرے میمنوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی نہیں کی تھی شاید لوگ ہمیں اس لئے ایدھی کہتے تھے“ والد دوبار رنڈوے ہوئے‘ والدہ بھی طلاق یافتہ خاتون تھیں‘ والدہ کی پہلی شادی بری طرح ناکام ہوئی‘ اس شادی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی‘ یہ دونوں بچے ایدھی صاحب کی خالہ نے پالے‘ والدہ پوری زندگی ان دونوں بچوں اور اپنی پہلی شادی کے مظالم کو نہ بھلا سکیں‘ بچوں کی جدائی اور پہلے خاوند کی زیادتیوں نے انہیں ڈپریشن کا مریض بنا دیا‘ یہ ڈپریشن ایدھی صاحب میں بھی تھا‘ یہ شروع سے حساس‘ خاموش طبع اور پھیکے تھے‘ یہ تینوں خصوصیات پوری زندگی ان کے ساتھ رہیں‘ یہ ایک بار فرمانے لگے ”میں اپنے جاننے والوں کو مشورہ دیتا ہوں‘ آپ کسی ایسی عورت سے شادی نہ کریں جس کے پہلے بھی بچے ہوں کیونکہ ایسی عورت تقسیم ہوتی ہے‘ یہ پوری زندگی پچھلے بچوں کے غم سے نہیں نکل پاتی“ مولانا نے زندگی بھر ملیشیا کی شلوار قمیض اور پلاسٹک کے سلیپر پہنے‘ میں نے پوچھا ”کیا یہ آپ کی یونیفارم ہے“ ہنس کر جواب دیا ”نہیں‘ ہمارے معاشرے میں لوگ مُردوں کے کپڑے اور جوتے استعمال نہیں کرتے‘ یہ انہیں منحوس سمجھتے ہیں‘ میں نے ایک بار ایک پٹھان کو دفن کیا‘ اس کے گھر سے ملیشیا کے دو تھان نکلے‘ لواحقین نے وہ تھان مجھے دے دیئے‘ میں سال دو سال بعد ان تھانوں سے پانچ میٹر کپڑا نکالتا ہوں اور سلوا کر پہن لیتا ہوں‘ یہ دو تھان میرے لئے کافی ہیں‘ میں جوتے بھی مُردوں کے پہنتا ہوں‘ اس سے اللہ بھی یاد رہتا ہے‘ موت بھی اور زیادہ اصراف بھی نہیں ہوتا“ وہ مجھے ایک مسجد میں بھی لے گئے‘ یہ سفید رنگ کی چھوٹی سی مسجد تھی‘ بتانے لگے ” میں اس مسجد میں فجر کی نماز پڑھتا تھا‘ میں نے ایک صبح مسجد کے فرش پر نومولود بچہ دیکھا‘ بچہ ٹھنڈے فرش پر پاﺅں پٹخ پٹخ کر چیخ رہا تھا‘ لوگ اس کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے تھے‘ امام صاحب بھی وہاں موجود تھے‘ وہ بار بار کہہ رہے تھے ”یہ بچہ ناجائز ہے‘ اسے مار دو“ میں نے سنا تو مجھے غصہ آ گیا‘ میں نے نمازیوں سے کہا ”آپ یہ بچہ مجھے دے دیں‘ میں اسے پالوں گا“ امام صاحب نے انکار کر دیا مگر نمازیوں نے انہیں قائل کر کے بچہ میرے حوالے کر دیا‘ میں نے بچے کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام لکھوایا اور اس کی پرورش شروع کر دی‘ وہ بچہ ماشاءاللہ اب بینک میں سینئر وائس پریذیڈنٹ ہے“ مولانا نے بتایا ” میں نے اس بچے کے بعد کراچی میں جھولا مہم شروع کر دی‘ ہم نے مختلف جگہوں پر جھولے رکھوا دیئے‘ لوگ بچوں کو اب کچرے کے ڈھیروں اور گندے نالوں میں پھینکنے کی بجائے ہمارے جھولوں میں ڈال جاتے ہیں“ وہ مجھے اس کے بعد ڈیفنس کے ایک ایدھی ہوم میں لے گئے‘ وہ بچوں کا سکول تھا‘ صحن میں کپڑوں کے ڈھیر لگے تھے‘ بتایا ”لوگ بچوں کے نئے کپڑے خرید کر دے جاتے ہیں‘ ہم ان میں سے مختلف سائز کے کپڑے الگ کرتے ہیں اور بچوں میں تقسیم کر دیتے ہیں“ سکول کے اندر بچے ایدھی صاحب کے ساتھ لپٹ گئے‘ وہ سب انہیں ابو کہہ رہے تھے اور ابو پیار سے ان کے سروں پر ہاتھ پھیر رہے تھے‘ وہ بتانے لگے‘ میں ان کی شادیاں بھی کرا دیتا ہوں‘ انہوں نے ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو بلایا‘ وہ دونوں بھی ابو کہہ کر ان سے لپٹ گئے‘ بتایا” یہ دونوں بھی اللہ نے ہمارے پاس بھیجے تھے‘ یہ جوان ہو گئے تو میں نے ان کی شادی کر دی‘ یہ اب ماشاءاللہ بیٹی کے والدین ہیں“ میں ایک بار ان کے ساتھ گندے نالے سے لاش نکالنے بھی گیا‘ وہ دس بارہ سال کے بچے کی لاش تھی‘ بچہ کھیلتے ہوئے نالے میں گر گیا‘ والدین تلاش کرتے رہے مگر لاش نہ ملی‘ یہ لاش پندرہ دن بعد تین کلو میٹر دور نالے میں پڑی ملی‘ پولیس‘ ہسپتال کا عملہ اور لواحقین نالے میں اترنے اور لاش نکالنے کےلئے تیار نہیں تھے‘ ایدھی فاﺅنڈیشن فون کیا گیا‘ پیغام ایدھی صاحب تک پہنچا اور وہ اٹھ کر چل پڑے‘ میں بھی ساتھ چلا گیا‘ نالے کے کنارے مجمع لگا تھا‘ لوگوں نے بدبو سے بچنے کےلئے ناک پر رومال رکھے ہوئے تھے‘ ایدھی صاحب ایمبولینس سے اترے‘ چپل اتاری‘ شلوار اونچی کی اور نالے میں اتر گئے‘ وہ ناف تک پانی میں چلے گئے‘ وہ لاش تک پہنچے‘ لاش کو دھکیل کر کنارے تک لائے‘ باہر نکلے‘ لاش کو اٹھایا اور ایمبولینس میں ڈال دیا‘ ان کا آدھا جسم غلاظت سے لتھڑا ہوا تھا‘ وہ اسی طرح ایمبولینس میں بیٹھ گئے‘ میں بھی ساتھ بیٹھ گیا‘ آپ یقین کیجئے میں بدبو سے بے حال ہو گیا‘ میرا معدہ بار بار الٹ کر منہ میں آتا تھا لیکن وہ شخص اطمینان سے گاڑی چلا رہا تھا‘ اس کے ماتھے پر شکن تھی اور نہ ہی چہرے پر کوئی ملال‘ وہ لاش کو سیدھا غسل گاہ لے گئے‘ لاش کو چبوترے پر رکھا‘ مسلم شاور کے ساتھ ساری غلاظت دھوئی‘ کفن پہنایا‘ لاش کو تابوت میں رکھا‘ اس پر مشک بو لگائی‘ یہ لاش لواحقین کے حوالے کی‘ کپڑوں سمیت غسل کیا اور گیلے بدن اور گیلے کپڑوں میں ہمارے ساتھ بیٹھ گئے‘ میں نے آگے بڑھ کر اس عظیم انسان کے ہاتھ چوم لئے‘ ان کے ہاتھوں سے اس وقت بھی بو آ رہی تھی۔
عبدالستار ایدھی وسیع خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ کراچی کی معیشت آج بھی ان کی برادری کے ہاتھ میں ہے‘ یہ ارب پتی لوگ ہیں لیکن ان میں سے کسی شخص کو عبدالستار ایدھی جیسا جنازہ اور محبت نصیب نہیں ہوئی‘ ان میں کسی شخص کو تینوں افواج کے سربراہوں نے سلیوٹ نہیں کیا اور کسی کو 19 توپوں کی سلامی نہیں ملی‘ یہ رتبہ صرف عبدالستار ایدھی کو ملا‘ اس عبدالستار ایدھی کو جس نے زندگی بھر ملیشیا کے کپڑے پہنے‘ مُردوں کی چپلیں استعمال کیں‘ گندے نالوں سے لاشیں نکالیں اور انسانیت کےلئے انسانوں کے سامنے جھولی پھیلائی‘ ایدھی صاحب نے لفظ ایدھی کے معانی تک بدل دیئے‘ اس لفظ کے معانی اب سست نہیں رہے‘ یہ فلاح و بہبود بن چکا ہے‘ ایدھی صاحب نے یہ بھی ثابت کر دیا خدا کبھی خدا کے نام پر نکلنے والوں کو بے نام نہیں رہنے دیتا‘ یہ اقتدار والوں کو‘ یہ اختیار والوں کو بھی اپنے دوستوں کی قبروں پر جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
کاش پیسے کے پیچھے بھاگنے والے تمام لوگ یہ نقطہ سمجھ جائیں‘ یہ جان لیں خدا خدمت والوں کو پسند کرتا ہے پیسے اور اقتدار والوں کو نہیں۔
یہ ایک نقطہ
12
جولائی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں