ویٹاموکیوز (Waitomo Caves) اور گزبورن (Gisborne) یہ دونوں لائف ٹائم تجربات ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو وسائل دیئے ہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کی بنائی زمین دیکھنے کے شوقین ہیں تو آپ کو زندگی میں کم از کم ایک بار ویٹامو کے غاروں میں بھی ضرور جانا چاہیے اور گزبورن میں طلوع آفتاب کا نظارہ بھی کرنا چاہیے‘ یہ دونوں حاصل زندگی ہیں۔
ویٹامو نیوزی لینڈ کے شمالی جزیرے کا چھوٹا سا خوبصورت قصبہ ہے‘ یہ قصبہ آتش فشانی زمین پر قائم ہے‘ اس کے نیچے ہر وقت زلزلے پروان چڑھتے رہتے ہیں‘ یہ علاقہ قدرتی آفتوں کے نشانے پر ہے لیکن ان تمام خطرات کے باوجود قدرت نے اس قصبے کو حیران کن تحفہ دے رکھا ہے‘ قصبے کے لوگ 125 برسوں میں اس تحفے سے اربوں ڈالر کما چکے ہیں‘ ویٹا مو کے نیچے چونے کی چٹانیں ہیں‘ چٹانوں کے اندر غار ہیں اور غاروں میں ایک دریا بہہ رہا ہے‘ یہ خفیہ دریا اندھیرے غاروں کے اندر بہتا ہوا باہر نکل جاتا ہے‘ علاقے کو سیراب کرتا ہے اور گھومتا گھماتا سمندر میں گر جاتا ہے‘ آج سے ایک سو 32 سال قبل فریڈ میک کے دل میں دریا کا ماخذ تلاش کرنے کی خواہش پیدا ہوئی‘ وہ ریلوے میں انجینئر تھا‘ اس نے مقامی سردار تائی تینورو سے بات کی لیکن وہ راضی نہ ہوا‘ نیوزی لینڈ کے قدیم باشندے موری کہلاتے ہیں‘ یہ لوگ غاروں‘ پہاڑوں اور دریاﺅں کی عبادت کرتے تھے‘ یہ ان سے چھیڑ چھاڑ کے قائل نہیں ہیں لیکن میک نے تانی تینورو کو راضی کر لیا یوں ان دونوں نے 1887ءمیں چھوٹی سی کشتی بنا لی اور یہ غاروں کے سلسلے میں داخل ہو گئے‘ غار کے اندر کی دنیا نے ان لوگوں کو حیران کر دیا‘ اندر تہہ در تہہ غار تھے‘ یہ غار کئی منزلہ تھا اور اس کے نیچے دریا بہہ رہا تھا‘ یہ لوگ جب دریا میں اترے تو انہوں نے غار کی چھت پر ایک عجیب منظر دیکھا‘ چھت سے کروڑوں کی تعداد میں ایسے کیڑے لپٹے ہوئے تھے جو اندھیرے میں جگنوں کی طرح چمکتے تھے‘ یہ چمکتے کیڑے قدرت کا معجزہ تھے‘ یہ ستاروں کی طرح چمک رہے تھے اور ان کی چمک سے غار کی چھت آسمان محسوس ہوتی تھی‘ موری سردار فوراً سجدے میں گر گیا‘ یہ ان کیڑوں کو خدا کا پرتو سمجھ رہا تھا‘ یہ دلچسپ دریافت تھی‘ فریڈ میک نے غار میں اتر کر بار بار چمکتے کیڑوں کا نظارہ کیا اور آخر میں قدرت کے اس تحفے کو سیاحتی مرکز بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ میک نے چند برسوں میں غاروں کے راستے کھولے‘ آمد اور رفت کے روٹس بنائے اور سیاحوں کو غاروں میں لے جانے کا سلسلہ شروع کر دیا‘یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں نیوزی لینڈ کی سب سے بڑی ”ٹوریسٹ اٹریکشن“ بن گیا‘ یہ اٹریکشن پچھلے 125 سال سے جاری ہے‘ غاروں میں 1926ءمیں بجلی کے بلب لگائے گئے‘ 1953ءمیں ملکہ الزبتھ نے اس کا دورہ کیا اور 1975ءمیں کیڑوں کے لائف سائیکل پر تحقیق کےلئے ریسرچ کونسل بنائی گئی اور یوں قدرت کا یہ معجزہ سائنسی دائرے میں آ گیا۔
میں قیصر رشید صاحب کے ساتھ 24 جون کو ویٹامو گیا‘ غاروں کا استقبالیہ بہت خوبصورت ہے‘یہ عمارت اب تک درجنوں انٹرنیشنل آرکی ٹیکچر ایوارڈز حاصل کر چکی ہے‘ میں اس کی خوبصورتی دیکھ کر مبہوت رہ گیا‘ کاش میرے آرکی ٹیکٹ دوست اعجاز قادری ساتھ ہوتے تو وہ اس عمارت کو دیر تک انجوائے کرتے تاہم میں نے ان کےلئے عمارت کی تصویریں بنا لیں‘ ہم غار میں داخل ہوئے تو ہمیں لوہے کی سیڑھیوں کے ذریعے 16 میٹر زمین کے اندر لے جایا گیا‘ غار کے اندر روشنی اور سایوں کا خوبصورت امتزاج تھا‘ یہ لائم سٹون کے غار ہیں‘ یہ علاقہ اڑھائی سے ساڑھے تین کروڑ سال قبل پانی میں چھپا ہوا تھا‘ پانی لائم سٹون کی مختلف چٹانوں کے اندر سے گزرتا رہا‘ پانی کی گزر گاہیں لائم سٹون کے اندر غار تخلیق کرتی رہیں‘ آج سے ڈیڑھ کروڑ سال پہلے پانی اتر گیا‘ ویٹامو ظاہر ہوا‘ چٹانوں کی بالائی سطح پر مٹی کی تہہ چڑھی‘ کائی پہلے گھاس بنی‘ گھاس سے جھاڑیاں نکلیں اور جھاڑیاں جنگل بن گئیں اور پھر یہاں انسان آباد ہو گئے لیکن یہ انسان 1887ءتک اس حقیقت سے ناواقف تھے ان کے پیروں تلے سینکڑوں میل لمبے غار ہیں اور ان غاروں کے اندر چمک دار کیڑوں کی شکل میں زندگی موجود ہے‘ غاروں کی چھت سے آج بھی پانی ٹپکتا ہے‘ یہ پانی کہاں سے آتا ہے‘ لوگ ابھی تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ شاید یہ بارش کا پانی ہے یا پھر یہ غاروں کی بالائی سطح پر اگے درختوں کی جڑوں سے آتا ہے‘ یہ مسٹری ابھی تک باقی ہے‘ یہ پانی جن مقامات سے نیچے آتا ہے‘ وہ جگہیں لائم سٹون کی چھریاں‘ تلواریں اور تیر بن کر چھت سے لٹک رہی ہیں‘ ان لٹکتے مقامات کے آخری سرے پر پانی کے قطرے نظر آتے ہیں‘ یہ قطرے تسلسل سے فرش پر گرتے ہیں‘ پانی کے قطروں میں لائم سٹون کے کرسٹل ہوتے ہیں‘ یہ کرسٹل فرش پر چھوٹے بڑے بت بنا دیتے ہیں‘ ہم جوں ہی غار میں داخل ہوئے‘ ہم نے فرش اور چھت پر درجنوں بت‘ شبیہیں اور تصویریں دیکھیں‘ یہ تمام بت پانی اور لائم سٹون کے اتصال سے پیدا ہوئے تھے اور انہیں ان شکلوں میں آنے میں لاکھوں سال لگے تھے‘ ہمیں اس کے بعد زیر زمین دریا پر لے جایا گیا‘ دریا پر اندھیرے کی چادر تنی تھی‘ہم ٹٹول ٹٹول کر کشتی میں بیٹھے‘ کشتی چلی اور ہم اس غار میں آ گئے جس کی چھت پر لاکھوں چمکدار کیڑے لپٹے تھے‘ یہ کیڑے ستاروں کی طرح جل بجھ رہے تھے‘ یہ منظر انسان کو ٹرانس میں لے جاتا ہے‘ یہ چمکدار کیڑے پھپھوندی کی قدیم قسم ہیں‘ موری لوگ انہیں ”ٹی ٹی وائی“ (Titi Wai) کہتے ہیں‘ اس کا مطلب ہوتا ہے پانی پر روشنی‘ یہ اسے اندھا یا کانا کیڑا بھی کہتے ہیں‘ یہ کیڑے زمین کے اندر ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں ہوا نہیں ہوتی یا پھر انتہائی کم ہوتی ہے‘ کیڑے کا لائف سائیکل 12 مہینوں پر مشتمل ہے‘ یہ انڈے سے لاروا بنتے ہیں پھر پیوپا اور آخر میں جوان ہو جاتے ہیں‘ یہ لاروے کی عمر میں کرسٹل کا سفید دھاگہ بن جاتے ہیں اور فضا میں لٹک جاتے ہیں‘ دھاگے کی لمبائی دس سے پچاس سینٹی میٹر ہوتی ہے‘ یہ نو ماہ تک اس حالت میں رہتے ہیں‘ پھر تین ماہ کےلئے پیوپا بنتے ہیں‘ پھر چار دن کےلئے جوان ہوتے ہیں‘ ڈیڑھ سو انڈے دیتے ہیں اور آخر میں مر جاتے ہیں‘ غار میں پائی جانے والی مکھی ان کی خوراک ہوتی ہے‘ یہ مکھی روشنی کی تلاش میں رہتی ہے‘ کیڑے جل بجھ کر مکھی کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں‘ ویٹامو میں غاروں کے دو مزید سلسلے بھی ہیں‘ یہ بھی قدرت کی صناعی کا عظیم مظہر ہیں لیکن ہم وقت کی کمی کے باعث وہاں نہیں جا سکے‘ ایک غار کے اندر آبشار بہتی ہے اور لوگ اندھیرے میں اس آبشار کے اوپر سے بہنے کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ یہ ایک کھیل ہے‘ اس کھیل کا بندوبست بلیک واٹر نام کی ایک کمپنی کرتی ہے‘ یہ لوگ آبشار سے بہتے ہوئے باہر ندی میں جا گرتے ہیں‘ یہ بھی لائف ٹائم تجربہ ہے لیکن اس تجربے کےلئے حوصلہ اور ہمت دونوں چاہئیں اور مجھ میں ہمت تھی اور نہ ہی حوصلہ۔
گزبورن میری آخری منزل تھا‘ یہ دنیا کے انتہائی مشرق میں آباد ہے‘ گزبورن میں صرف ایک خصوصیت ہے‘ یہ دنیا کی وہ آبادی ہے جو روزانہ سورج کی پہلی کرن دیکھتی ہے‘ ہماری زمین 360 ڈگری ہے‘ انسان نے وقت کی تقسیم‘ فاصلوں کے تعین اور سمتوں کا اندازہ لگانے کےلئے 360 ڈگری کی اس زمین کو عین درمیان سے گولائی میں کاٹ دیا‘ یہ گولائی خط استوا کہلاتی ہے‘ ہمارا خط استوا زمین کو 180 ڈگری اور 180 ڈگری دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے‘ سورج 180 ڈگری کے سرے سے طلوع ہوتا ہے اور گزبورن اس سرے پر واقع ہے‘ یہ 178.1 ڈگری پر ہے یوں اس کے شہری روزانہ سورج کی پہلی کرن کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ سورج یہاں سے ہوتا ہوا پوری دنیا کا سفر کرتا ہے اور آخر میں نیوزی لینڈ کے ہمسائے میں واقع ساموا جزیرے میں غروب ہو جاتا ہے‘ سورج کا یہ سفر 24 گھنٹوں پر مشتمل ہے‘ انسان نے اس سفر کو متعین کرنے کےلئے سورج کے راستے میں 24 لکیریں کھینچ دی ہیں‘ کرہ ارض کی ایک لکیر ایک گھنٹے کے برابر ہے‘ سورج کے پیچھے اندھیرا ہے‘ زمین جوں جوں وقت کی ان لکیروں پر آگے کی طرف سفر کرتی جاتی ہے اس کے پیچھے اندھیرا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ رات ہو جاتی ہے‘ رات اور دن کا یہ کھیل 24 گھنٹوں پر مشتمل ہے جہاں راتیں لمبی ہوتی ہیں وہاں دن مختصر ہو جاتے ہیں اور جہاں دن لمبے ہوتے ہیں وہاں کی رات چھوٹی ہوتی ہے‘ زمین کے دو قطب بھی ہیں‘ شمالی قطب اور جنوبی قطب۔ یہ دونوں قطب سورج کی پہنچ سے دور ہیں یہاں روشنی نہیں پہنچتی‘ ہمارے سال کے ہر چھ ماہ بعد ایک قطب تھوڑا سا سورج کے قریب ہو جاتا ہے‘ یہ قربت موسموں کی تبدیلی کا باعث بنتی ہے‘ گرمیوں میں شمالی قطب سورج کے قریب اور جنوبی دور ہوتا ہے‘ اس کے نتیجے میں شمالی قطب کے قریب آباد ملکوں میں دن لمبے ہو جاتے ہیں اور جنوبی قطب میں مختصر۔ آپ جون اور جولائی میں شمالی قطب کی طرف سفر کریں آپ کو وہاں 24 گھنٹے کا دن ملے گا ‘وہاں سورج غروب نہیں ہوتا‘ مجھے دو سال قبل ناروے میں شمالی قطب کے کنارے پر 24 گھنٹے کا دن دیکھنے کا موقع ملا‘ وہ بھی لائف ٹائم تجربہ تھا جبکہ جون جولائی میں قطب جنوبی سورج سے دور ہوتا ہے لہٰذا یہاں سردیاں شروع ہوتی ہیں جن کی وجہ سے دن مختصر اور روزے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں‘ نومبر دسمبر میں قطب جنوبی ذرا سا اوپر اور قطب شمالی نیچے چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں گرمیاں اور مغرب میں سردیاں شروع ہو جاتی ہیں‘ آپ اگر دسمبر میں جنوب سے شمال کی طرف سفر کریں تو آپ کے سفر کے ساتھ ساتھ سردیاں اور رات دونوں بڑھتی چلی جائیں گی یہاں تک کہ آپ کو ناروے‘ سویڈن اور آئس لینڈ میں سورج نظر نہیں آئے گا‘ یہ ملک تین ماہ مکمل اندھیرے میں رہتے ہیں‘ نیوزی لینڈ کا گزبورن اور ناروے کا اینڈ آف دی ورلڈ سورج کے اس سفر کو سمجھنے کےلئے بہت اہم ہیں‘ آپ سورج کی پہلی کرن دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو نیوزی لینڈ میں گزبورن اور فجی کے جزیرے تویونی میں جانا ہو گا‘ تویونی کے تین کمالات ہیں‘ یہ دنیا کی 180 ڈگری پر واقع ہے‘ تویونی اور لندن کے گرین وچ کے درمیان پورے بارہ گھنٹے کا فرق ہے‘ گرین وچ صفر وقت پر واقع ہے جبکہ تویونی بارہ گھنٹے کی دوری پر ہے لہٰذا دن ہو یا رات دونوں کا آغاز اس جزیرے سے ہوتا ہے‘ اس انفرادیت کے باعث اس مقام پر بیک وقت دو دن ہوتے ہیں‘ چھ انچ کی لکیر کے دائیں ہاتھ ٹوڈے یعنی آج کا دن اور بائیں ہاتھ یسٹر ڈے یعنی گزشتہ دن۔ آپ اگر اس لکیر کے بائیں ہاتھ سفر شروع کر دیں تو آپ کیلینڈر میں پیچھے کی طرف چلنے لگیں گے یہاں تک کہ آپ کینیڈا اور امریکا پہنچ کر ایک دن پیچھے چلے جائیں گے اور آپ اگر لکیر کے دائیں ہاتھ سفر شروع کر دیں تو آپ امریکا اور کینیڈا تک آج کی تاریخ میں رہیں گے‘ آپ کی گھڑی کی سوئیاں اپنا سفر مکمل کر لیں گی مگر آپ کا سورج نہیں ڈوبے گا‘ آپ اسی تاریخ میں رہیں گے جس میں آپ نے چلنا شروع کیا تھا اور تویونی کا تیسرا کمال اذان ہے‘ یہ وہ مقام ہے جہاں دنیا میں فجر کی پہلی اذان ہوتی ہے‘ یہ اذان سورج کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کا سفر کرتی ہے‘ میں گزبورن کے بعد تویونی جاﺅں گا لیکن اس سے قبل 25 جون کے سورج کی پہلی کرنیں اور قیصر رشید کا ساتھ یہ اس دن کا کمال تھا۔
ہم آٹھ گھنٹے ڈرائیو کر کے گزبورن پہنچے‘ اگلی صبح سورج سات بج کر 27 منٹ پر نکلنا تھا‘ ہم سات بج کر 20 منٹ پر گزبورن کے بلند ترین مقام پر پہنچ گئے‘ ہم سے پہلے وہاں تین لوگ پہنچ چکے تھے‘ دنیا کی آخری یا شاید پہلی رصد گاہ کیپٹن کک آبزرویٹری ہمارے سامنے تھی‘ رصد گاہ کے کونے میں پوپھٹ رہی تھی‘ آسمان سرخ ہو رہا تھا اور بادل اپنے پردے دائیں بائیں کھینچ کر کرنوں کو راستہ دے رہے تھے‘ ہماری نظریں آسمان پر جمی تھیں‘ آسمان کی سرخی بڑھتی رہی‘ بڑھتی رہی یہاں تک کہ وہ لمحہ آ گیا جب سورج کی گولائی ذرا سی باہر نکلی اور دن کی پہلی کرن نے سمندر میں چھلانگ لگا دی‘ ہم پانچ لوگ اب یہ دعویٰ کر سکتے تھے‘ سات ارب لوگوں کی اس دنیا میں 25 جون 2016ءکا سورج ہم نے سب سے پہلے دیکھا تھا لیکن ٹھہریئے شاید نہیں! شاید تویونی میں ہم سے بھی بڑا کوئی پاگل موجود ہو اور وہ ہم سے دو سیکنڈ پہلے اس سورج تک پہنچ گیا ہو‘ وہ پاگل کون ہے‘ میں دو دن بعد اس کی تلاش میں تویونی پہنچ گیا۔
سورج کے ساتھ ساتھ
1
جولائی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں