جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پفنگ بیلی

datetime 19  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

میلبورن یارا ویلی کے ہمسائے میں آباد ہے‘ دریائے یارا وادی کے مختلف چشموں‘ آبشاروں اور ندی نالوں سے نکلتا ہے اورگھوم کر میلبورن شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور پھر سمندر میں اتر جاتا ہے‘ پوری وادی جنگلوں‘ چراہ گاہوں اور پہاڑی اترائیوں پر مشتمل ہے‘ آپ کو یارا ویلی میں پانچ پانچ سو سال پرانے درخت ملتے ہیں‘ یہ درخت ہمارے سفیدے کے درختوں کی نسل ہیں لیکن یہ ان سے کئی اونچے اور صحت مند ہیں‘ میں نے وہاں سو سو فٹ اونچے اور دس دس فٹ موٹے سینکڑوں درخت دیکھے‘ جنگل فرن کے درختوں سے بھی اٹے ہوئے ہیں‘ فرن ٹری کھجور کی نسل کا پستہ قامت درخت ہے‘ اس کا تنا کھجور جیسا لیکن سر اور سر پر اگی شاخیں پام ٹری جیسی ہوتی ہیں‘ آسٹریلیا میں اونٹ اور بکری کی درمیانی قسم کا ایک جانور بھی پایا جاتا ہے‘ اس جانور کی قامت اونٹ کے بچے اور منہ بکری جیسا ہوتا ہے‘ یہ لاما کہلاتا ہے‘ فرن کی چھال اور پتے لاما کی مرغوب غذا ہیں چنانچہ فرن اور لاما دونوں ایک دوسرے کےلئے لازم و ملزوم ہیں۔
یارا ویلی میں ایک ٹرین چلتی ہے‘ یہ ٹرین پفنگ بیلی (Puffing Billy) کہلاتی ہے‘ یہ ”بیل گریو“ کے ریلوے سٹیشن سے شروع ہوتی ہے اور پہاڑوں اور وادیوں سے ہوتی ہوئی دو گھنٹے میں گم بروک پہنچتی ہے‘ یہ ٹوریسٹ ٹرین ہے‘ اس کی خاصیت اس کا پرانا ہونا ہے‘ یہ ٹرین اور اس کا ٹریک 1900ءکے شروع میں بنا تھا اور یہ کوئلے اور بھاپ سے چلنے والی دنیا کی قدیم ترین ٹرینوں میں شمار ہوتی ہے‘ آپ نے اگر ہالی ووڈ کی پرانی فلموں میں بھاپ کی ٹرین دیکھی ہو یا پھر راجیش کھنہ پر فلمایا گیا گانا ”میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو“ دیکھا ہو اور اس گانے کی ٹرین‘ اس ٹرین کی سیٹی اور اس ٹرین کی چھک چھک سنی ہو تو آپ پفنگ بیلی ٹرین کو آسانی سے سمجھ جائیں گے‘ ٹرین کے انجن اور پٹڑیاں پرانی ہیں‘ ڈبے اور ریل کا نظام بھی سوسال پرانا ہے‘ راستے کے تمام پل درختوں کے اونچے تنوں پر کھڑے ہیں‘ ڈبے دونوں سائیڈوں سے اوپن ہیں‘ آپ ان سے باقاعدہ باہر لٹک سکتے ہیں‘ سیٹوں کی جگہ بینچ ہیں‘ دروازے بھی پرانے اور باہر کی طرف کھلنے والے ہیں‘ ریلوے سٹیشن بھی قدیم ہیں‘ عملہ بھی بزرگ اور ان کی نیلی یونیفارم بھی پرانی ہے‘ ریل کے کانٹے کا نظام‘ ٹی ٹی کی حرکات و سکنات‘ ٹکٹ کو پنچ کرنے کا طریقہ کار‘ ٹرین کی آمد اور روانگی کااعلان‘ جھنڈی لہرانے کا طریقہ کار‘ پھاٹک‘ کانٹے کے ٹاور اور ٹاورز کے اوپر لگی پرانی لالٹین‘ پٹڑیاں‘ ویٹنگ روم‘ پلیٹ فارم اور پلیٹ فارم کے بینچ بھی پرانے ہیں‘ یہ ٹرین صاف ٹرین نہیں‘ یہ ”بیک ٹو دی فیوچر“ ہے‘ آپ اس میں بیٹھتے ہیں اور یہ آپ کو سو سال پیچھے لے جاتی ہے‘ آسٹریلیا میں 1974ءسے کلو میٹر کا نظام نافذ ہو چکا ہے لیکن یہ ٹرین آج بھی فاصلوں کو میلوں میں ناپتی ہے‘ اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار بیس میل فی گھنٹہ ہے‘ حکومت نے یہ ٹرین 1900ءمیں جنگل سے لکڑی کاٹنے کےلئے بنائی تھی‘ یہ جنگل میں پہنچتی تھی‘ درخت کاٹے جاتے تھے اور لکڑی ٹرین میں لاد کر ”بیل گریو“ لائی جاتی تھی‘ ٹرین کا سسٹم تبدیل ہو گیا‘ بھاپ انجن کی جگہ ڈیزل اور پھر بجلی کا انجن آ گیا‘ پٹڑیاں بھی بدل گئیں اور مسافروں کی رفتار بھی بڑھ گئی چنانچہ یہ روٹ بند ہونے لگا لیکن پھر حکومت کے ذہن میں اچانک ایک اچھوتا خیال آیا‘ اس نے اس ٹرین کو سیاحتی ٹرین بنا دیا‘ یہ اب میلبورن آنے والے سیاحوں کےلئے تفریح کا شاندار ذریعہ بن گئی ہے‘ ہزاروں سیاح ہر مہینے اس ٹرین میں سفر کرتے ہیں اور شاندار دن گزار کر واپس آتے ہیں‘ حکومت نے اس ٹرین کےلئے ریلوے کی ساری پرانی ٹیکنالوجی بھی محفوظ کر رکھی ہے۔ ”بیل گریو“ میں باقاعدہ ”لوکوموٹو“ ہے‘ اس ”لوکوموٹو“ میں انجن کی خرابیاں دور کی جاتی ہیں‘ اس کی ”اوورہالنگ“ ہوتی ہے‘ یہ ریل ایک تجربہ ہے‘ کاش ہمارے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو عمران خان سے چونچیں لڑانے سے ذرا سی فرصت مل جائے اور یہ ”پفنگ بیلی“ کی اس ٹرین کا ایک ”جھوٹا“ لے لیں تو ان کے کشمیری دماغ کی کئی کھڑکیاں کھل جائیں گی‘ میری درخواست ہے حکومت کو ریلوے کے وزراءاور 20 گریڈ سے اوپر ریلوے کے تمام ملازمین کےلئے سوئٹزرلینڈ‘ جاپان اور چین کے ریلوے نظام کی سٹڈی اور میلبورن کی پفنگ بیلی اور ناروے کی فلون بانا کی سیاحتی ٹرینوں کی سیر لازمی قرار دے دینی چاہیے‘ ہمارے وزراءاور سینئر بیورو کریٹس اگر دنیا کو دیکھیں گے نہیں تو یہ سیکھیں گے کیا اور یہ اگر سیکھیں گے نہیں تو یہ بنائیں اور چلائیں گے کیا؟ چنانچہ خواجہ سعد رفیق کو پہلی فرصت میں پفنگ بیلی آنا چاہیے اور اس کے بعد فلون بانا جانا چاہیے اور اس کے بعد ریلوے کا سوئس‘ جاپانی اور چینی ماڈل دیکھنا چاہئے‘ مجھے یقین ہے یہ اگلے دو سال میں وہ کام کر جائیں گے جو یہ پچھلے تین برسوں میں نہیں کر سکے۔
میں بھائی ڈاکٹر شہباز چودھری کے ساتھ جمعرات کی دوپہر پفنگ بیلی گیا‘ ٹرین کے پانچوں ڈبے سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے‘ ٹرین چلی تو تمام لوگ کھڑکیوں کے ساتھ لٹک گئے اور دھڑا دھڑ تصویریں بنانے لگے‘ ٹرین بلندی کی طرف رواں دواں تھی‘ ہمارے دونوں طرف گھنا جنگل‘ فلک بوس درخت اور گہری کھائیاں تھیں‘ جنگل کے درمیان لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھر اور دور دور تک پھیلی چراہ گاہیں بھی تھیں اور ان چراہ گاہوں میں گھوڑے اور گائیں چرتی نظر آ رہی تھیں‘ موسم ابر آلود تھا‘ سردی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ سردی جیکٹ اور سویٹر کی تہوں کو چیر کر اندر داخل ہو رہی تھی‘ ہاتھ باہر رکھنا محال تھا‘ آپ قدرت کا کمال دیکھئے پوری دنیا میں جون اور جولائی گرم ہوتے ہیں لیکن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ان مہینوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد کو چھو رہا ہوتا ہے‘ یہاں سردیاں ہوتی ہیں‘ پوری دنیا میں اسی طرح جنوری میں سردی پڑتی ہے‘ ہمارے اور یورپ کے پہاڑوں پر برف باری ہوتی ہے جبکہ یہاں دسمبر جنوری میں گرمیاں ہوتی ہیں‘ ان کی کرسمس وائیٹ کی بجائے ہاٹ ہوتی ہے‘ میں جوں جوں دنیا دیکھ رہا ہوں اللہ پر میرا ایمان پختہ ہو رہا ہے‘ واہ سبحان اللہ‘ یا پروردگار آپ نے کیا دنیا بنائی ہے اور آپ کے نائب یعنی انسان نے اس خوبصورت دنیا کی خوبصورتی میں کیا کیا اضافے کئے ہیں اور یا پروردگار آپ کا لاکھ لاکھ شکر ہے آپ نے مجھے اپنی دنیا دیکھنے کی استطاعت اور ہمت عطا کی‘ میں اس دنیا کو دیکھتا ہوں‘ شکر ادا کرتا ہوں اور سبحان اللہ کی تسبیح کرتا ہوں‘ سفر کے ہزار فائدے ہیں اور ان ہزار فائدوں میں کم ترین فائدہ وژن ہے‘ یہ آپ کے وژن کو ”براڈ“ کرتا ہے‘ یہ آپ کے ذہن کو کھولتا ہے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کبھی اپنے شہر‘ اپنے گاﺅں سے نکل کر دوسرے گاﺅں‘ دوسرے شہر میں جا کر دیکھ لیں آپ کو اپنے اندر تبدیلی محسوس ہو گی۔
ڈاکٹر شہباز میرے ساتھ تھے‘ یہ ساتھ ساتھ ”ایکسپلین“ کرتے جا رہے تھے‘ راستے میں مینزیز کریک اور ایمرلڈ لیک کے دو سٹیشن آئے‘ ٹرین چند لمحوں کےلئے یہاں رکی‘ انجن میں پانی بھرا گیا‘ مسافر یہ منظر دیکھنے کےلئے انجن کے گرد جمع ہو گئے‘ ہماری آخری منزل ”لیک سائیڈ سٹیشن“ تھی‘ یہ آدھا سفر تھا‘ آگے پٹڑیاں مرمت ہو رہی تھیں چنانچہ اس دن ٹرین آگے نہیں جا رہی تھی‘ ہمارے پاس بیس منٹ تھے‘ ہم سٹیشن سے باہر نکلے تو سامنے ایک چھوٹی سی جھیل تھی‘ جھیل پر دھند چھائی ہوئی تھی‘ راستے میں چنار کے سوکھے پتے بکھرے ہوئے تھے‘ ان سوکھے پتوں پر چل کر جھیل تک جانا ایک رومانوی تجربہ تھا‘ جھیل کے کنارے لکڑی کا پرانا گھر تھا‘ برآمدہ پانی کی طرف کھلتا تھا‘ برآمدے میں دو صوفے پڑے تھے‘ ریلنگ کے ساتھ موٹر بوٹ بندھی تھی اور یہ سارا منظر جنگل میں گھرا ہوا تھا‘ میں چند لمحوں کےلئے ساکت ہو گیا‘ مجھے محسوس ہوا یہ جھیل‘ اس جھیل کا مکان‘ مکان کا اداس برآمدہ‘ برآمدے کے بیوہ صوفے اور صوفوں کی گدیوں میں چھپی انسانی یادیں‘ ریلنگ کے ساتھ بندھی موٹر بوٹ‘ موٹر بوٹ کے عرشے پربکھری ہوئی لائف جیکٹس‘ جھیل کا نیلگوں پانی‘ پانی پر جھکے ہوئے درخت‘ درختوں کی انتہا پر تنا ہوا آسمان اور آسمان پر تیرتے ہوئے بادل اور ان بادلوں پر اڑتے ہوئے سرخ طوطے اور طوطوں کو دیکھتے ہوئے لوگ اور لوگوں کے پاﺅں تلے موجود چنار کے پتے اور لوگوں کے سروں کو حیرت سے تکتی ہوئی درختوں کی ننگی ٹہنیاں یہ حقیقت نہیں ہے‘ یہ خواب ہے یا پھر خواب جیسی کوئی پینٹنگ‘ کوئی فل سکیپ تصویر ہے‘ وہ لمحہ تخلیق کا لمحہ تھا‘ میرے اندر تخلیق کے چشمے ابلنے لگے‘ مجھے محسوس ہوا اس ایک لمحے نے مجھے اندر سے لبالب بھر دیا ہے‘ منظر بھی رزق ہوتے ہیں‘ قدرت جس طرح آپ کو رزق سے توانائی دیتی ہے‘ یہ بالکل اسی طرح مناظر کے ذریعے بھی آپ کے ذہن کی جھولی بھرتی رہتی ہے‘ یہ منظر ہماری روح کو مضبوط کرتے ہیں‘ میں دنیا میں جہاں بھی جاتا ہوں میں رات سونے سے پہلے کھڑکی کا پردہ ہٹا دیتا ہوں‘ صبح پہلی کرن کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے‘ میں بستر پر لیٹے لیٹے باہر کا منظر دیکھتا ہوں اور یہ منظر پورے دن کےلئے میری بیٹریاں چارج کر دیتا ہے‘ آپ بھی یہ تجربہ کریں‘ آپ کی زندگی سے بھی اینگزائٹی‘ ٹینشن اور ڈپریشن کم ہو جائے گا‘ ہم دونوں چند لمحوں تک قدرت کی اس پینٹنگ میں کھڑے رہے‘ پوری کائنات ساکت تھی‘ پھر ایک شرارتی بگلے نے چیخ ماری اور جھیل کی انگڑائی لیتی سطح کو الوداع کہہ دیا‘ بگلے کے پروں سے پانی کے موتی ٹوٹے‘ جھیل کے نیلگوں دامن پر گرے اور پینٹنگ کا سکوت ٹوٹ گیا‘ ہر چیز متحرک ہو گئی‘ درختوں کی شاخوں نے سانس لی اور ہاتھ ہلا کر بگلے کو بائے بائے کرنے لگیں‘ چنار کے پتوں نے انگڑائی لی اور جھیل کے کنارے کی طرف دوڑ لگا دی‘ جھیل کے پانی میں لہروں نے جنم لیا اور یہ بھی تیزی سے ہماری طرف دوڑنے لگیں اور ہم پر ٹنگا ہوا آسمان بھی برسنے لگا‘ بارش کی پہلی پھوار پڑ رہی تھی‘ سٹیشن سے مسافروں کو بلاوا بھی آ گیا‘ ہم واپس چل پڑے لیکن میں اپنا دل وہیں چھوڑ آیا‘ یہ دل آج بھی لکڑی کے اس گھر کے اس برآمدے کے ان صوفوں پر پڑا ہو گا جہاں سے موٹر بوٹ اور جھیل اور جھیل کے کناروں پر اگا جنگل اور اس جنگل پر تنا ہوا آسمان اور اس آسمان پر تیرتے بھاگتے بادل نظر آتے ہیں اور چنار کے پتے بادلوں کی اس میرا تھن کا ساتھ دیتے ہیں اور آخر میں بارش کی پھواریں اس سازش میں شریک ہو جاتی ہیں اور یہ منظر کے ہونٹوں پر لپ سٹک لگا دیتی ہیں‘ میرا دل اس منظر کے سرہانے‘ لیک سائیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر‘ کافی کے مگ اور اپنی محبوب ترین کتاب کے ساتھ پڑا ہے‘ یہ باقی زندگی یہاں بیٹھ کر میرے وجود کا انتظار کرے گا۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…