عطاءالحق قاسمی صاحب ملک کے ان چند دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں جو حقیقتاً تعارف کے محتاج نہیں ہیں‘ بس ان کا نام ہی کافی ہے‘ یہ انتہائی دلچسپ انسان ہیں‘ آپ ”بور“ ہوئے بغیر ان کے ساتھ مہینوں گزار سکتے ہیں‘ یہ قہقہہ لگانے اور قہقہہ لگوانے دونوں کے ماہر ہیں‘ میں ان کی دو نسلوں کا مرید ہوں‘ قاسمی صاحب کا اور ان کے صاحبزادے یاسر پیرزادہ کا‘ میں قاسمی صاحب سے ملاقات سے پہلے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا‘ اچھے انسان اور برے انسان لیکن آج سے 19 سال پہلے جب قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے انسانوں کی یہ درجہ بندی تبدیل کر دی‘ میں اب انسانوں کو دلچسپ انسان اور بور انسان میں تقسیم کرتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ اچھائی اور برائی کا تعلق براہ راست انسان اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے‘ اللہ تعالیٰ چاہے تو یہ نسل انسانیت کے سب سے بڑے قاتل چنگیز خان کو معمولی سی نیکی کے عوض معاف کردے اور اگر اللہ تعالیٰ کی پکڑ ”ایکٹو“ ہو جائے تو یہ فرات کے کنارے بیٹھے بھوکے جانوروں کی وجہ سے حضرت عمرؓ کا احتساب شروع کر دے لہٰذا جب اچھائی اور برائی کی یہ اوقات ہے‘ جب اس کا فیصلہ رب العزت نے کرناہے تو پھر میں انسانوں کو اچھا یا برا سمجھنے والا کون ہوتا ہوں‘ اسی طرح اگر کوئی انسان اچھا ہے تو وہ اس اچھائی کا سب سے بڑا ”بینی فیشری“ خود ہے‘ کسی دوسرے انسان کو اس کی اچھائی کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر یہ برا ہے تو اس برائی کا نقصان بھی یہ خود اٹھائے گا‘ ہمیں اس کی برائی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے‘ ہمیں زندگی میں صرف بور لوگوں سے بچنا چاہیے اور دلچسپ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہیے‘ یہ عادت ہمیں ہمیشہ فائدہ پہنچائے گی اور قاسمی صاحب انتہائی دلچسپ انسان ہیں‘ آپ ان کی موجودگی میں بور نہیں ہوتے‘ یہ خاموش بھی ہوں تو آپ کو ان کی شخصیت سے خوشگوار لہریں اٹھتی محسوس ہوتی ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عطاءالحق قاسمی صاحب غیر سنجیدہ انسان ہیں‘ یہ انتہا درجے کے سیریس انسان ہیں لیکن انہوں نے اپنی سنجیدگی کو لطافت کے غلاف میں چھپا رکھا ہے‘ یہ تلوار پر شہد لگا کر چٹوانے کے ماہر ہیں‘ یہ انتہائی سنجیدہ بات لطیفے کی صورت میں کریں گے‘ آپ دو دن تک ہنستے رہیں گے لیکن جب تیسرے دن لطافت کی کوٹنگ اترے گی تو آپ باقی زندگی سردھنتے اور اس بات میں چھپی ”وزڈم“ سے لطف اٹھاتے رہیں گے‘ قاسمی صاحب کی بے شمار ایسی باتیں ہیں جنہوں نے میرے ذہن کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کیا‘ جنہوں نے میرے دماغ پر چھائی برسوں کی دھند لمحوں میں اڑا دی لیکن میں پچھلے پندرہ دنوں سے ان کی ایک بات بار بار دہرا رہا ہوں اور دہرانے کے بعد ہر بار سردھنتا ہوں‘ قاسمی صاحب نے چند ماہ قبل فرمایا ”ہم لوگ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بول سکتے ہیں لیکن ہم جابر عوام کے سامنے نہیں“ میں نے جب یہ فقرہ سنا تو میں بھی قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا تھا لیکن جب حکومت نے ممتاز قادری صاحب کو پھانسی دی‘ ان کا جنازہ ہوا‘ حکومت نے میڈیا کوریج پر پابندی لگائی اور ہم لوگ حکومتی پابندی اور اپنی فکری کنفیوژن کی وجہ سے خاموش رہے اور ہماری اس خاموشی پر عاشقان رسول نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا‘ ہمیں جس طرح ماں بہن کی گالیاں دیں‘ ہم میڈیا پرسنز کو بکاﺅ صحافی‘ منافق صحافی‘ یورپ کے زرخرید صحافی اور حکومت کے پٹھو قرار دیا گیا‘ ہمیں کافر تک لکھا گیا تو میں قاسمی صاحب کی وزڈم کا قائل ہو گیا اور مجھے محسوس ہوا‘ ہمارے عوام اس قدر جابر ہیں کہ یہ کلمہ حق تو دور یہ ہماری خاموشی تک برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔
میں اس واقعے کے بعد مزید کنفیوز ہو گیا ہوں‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی‘ میں نے جو اسلام سیرت‘ تفاسیر‘ تاریخ اور احادیث کی کتابوں میں پڑھا تھا‘ وہ ٹھیک تھا یا پھر یہ جس کا نمونہ ہم سڑکوں پر دیکھ رہے ہیں‘ میں نے پڑھا تھا کون شہید ہے‘ کون غازی‘ کون منافق ہے‘ کون مومن‘ کون متقی اور کون گنہگار اس کا فیصلہ اس ذات نے کرنا ہے جو نیتوں کے بھید جانتی ہے‘ ہم جنتی ہیں یا دوزخی اس کا فیصلہ بھی حشر کے اس میدان میں ہو گا جو اس پوری کائنات کو لپیٹنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ذات قائم کرے گی‘ ہم سب کو دوبارہ اٹھایا جائے گا‘ حساب ہو گا اور اللہ تعالیٰ کو اگر اس شخص کی ریت کے ذرے کے برابر بھی کوئی نیکی پسند آ گئی جسے پوری دنیا ہزاروں سال تک گناہ گار سمجھتی رہی تو وہ شخص سیدھا جنت میں جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ کو کسی ایسے کامل ولی کے وضو پر بھی شک ہو گیا جس کے مزار کی خاک سینکڑوں سال تک ہم گناہ گاروں کی آنکھوں کا سرمہ بنتی رہی تو اسے دوزخ سے معافی نہیں مل سکے گی‘ ہم انسان تو اس قدر کمزور ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علیؓ جیسی ہستیاں بھی جب اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بخشش کی دعا کرتی تھیں تو ان کی ہچکیاں بندھ جاتی تھیں لیکن ہم لوگ سڑکوں پر دوسروں کی شہادتوں‘ تقوے‘ گناہوں‘ کفر اور بخشش کا فیصلہ کر رہے ہیں‘ آپ کمال ملاحظہ کیجئے‘ جنید جمشید 17سال گانا گاتا اور دھنوں پر تھرکتا رہا مگرکسی نے اعتراض نہیں کیا‘ لوگ اس کے ساتھ تصویریں بھی بنواتے رہے اور اس کے آٹو گراف بھی لیتے رہے لیکن جب اس نے اپنی پرانی زندگی ترک کر دی‘ اس نے توبہ کر لی اور یہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے لگا تو اس پر حملے شروع ہو گئے‘ آپ جنید جمشید پر حملے کی ویڈیو دیکھئے‘ آپ ویڈیو میں عشق رسول کے نعروں کے ساتھ بہن کی گالی بھی سنیں گے‘ ہم جیسے سیاہ کار اور گناہ گار کنفیوز مسلمان جب اس واقعے کو حیرت سے دیکھتے ہیں اور معاشرے کو مزید تقسیم سے بچانے اور جلتی پر تیل نہ پھینکنے کے جذبے سے خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اہل ایمان ہمیں منافق بھی قرار دیتے ہیں‘ بکاﺅ بھی اور بے ایمان بھی‘ آپ بتائیے‘ ہم کیا کریں‘ کیا ہم بھی لوگوں کو کافر قرار دینے‘ شہید قرار دینے‘ مومن قرار دینے اور جہنمی قرار دینے کے ٹھیکیدار بن جائیں‘ کیا ہم بھی وہ فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیں جنہیں استعمال کرنے کا حق اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاءکو بھی نہیں دیا تھا‘ ہم کون ہوتے ہیں‘ دوسروں کے ایمان اور کفر کا فیصلہ کرنے والے‘ ہمیں اپنی نمازوں کی قبولیت کا یقین نہیں لیکن ہم ایک ہی سانس میں کسی بھی شخص کو کافر قرار دے دیتے ہیں اور کسی بھی شخص کو شہادت کے درجے پر فائز کر دیتے ہیں‘ تاریخ اسلام میں تو جب حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے درمیان جنگ ہوئی تھی اور دونوں طرف سے صحابہؓ آمنے سامنے کھڑے ہو گئے تھے تو مو¿رخین پریشان ہو گئے‘ یہ کس کو درست اور کس کو غلط قرار دیں‘ یہ کس کے خون کو حق اور کس کے خون کو ناحق قرار دیں اور ان میں شہید کون ہے اور مقتول کون چنانچہ مو¿رخین سارا الزام غلط فہمیوں اور سازشیوں کی گردن میں ڈال کر آگے نکل گئے جبکہ ہم ریڈزون میں کھڑے ہو کر ماں بہن کی ننگی گالیوں کے ذریعے دوسروں کے ایمان کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ حالات دیکھ کر جب میرے جیسے گناہ گار اور دنیا دار صحافی خاموش رہتے ہیں تو ہمیں بھی گالی دے دی جاتی ہے‘ کیوں؟ ہم صحافی ایمان اور کفر کے ان ٹھیکیداروں سے اس سوال کا جواب چاہتے ہیں۔
میرا دوسرا سوال میرے قارئین‘ ناظرین اورسوشل میڈیا یوزرز سے ہے‘ کالم ایک شخص کی ذاتی رائے ہوتا ہے‘ یہ نعوذ باللہ آسمانی صحیفہ نہیں ہوتا جس پر آپ نے ایمان لانا ہے یا جسے آپ نے مسترد کرنا ہے‘ آپ کو کالم پسند نہیں تو آپ نہ پڑھیں‘ ملک میں درجنوں بلکہ سینکڑوں کالم نگار مجھ سے بہتر لکھتے ہیں‘ آپ ان کی تحریریں پڑھ لیں اور اگر یہ کالم پڑھنا آپ کی مجبوری ہے تو پھر آپ اسے ایک عام‘ گناہ گار اور نالائق شخص کی رائے سمجھیں‘ یہ رائے اگر آپ کو سوٹ کرتی ہے تو آپ پسند کر لیں‘ یہ سوٹ نہیں کرتی تو آپ اسے مسترد کر دیں‘ میں آپ کو اچھا لگتا ہوں تو آپ پڑھ لیں‘ میں اگر بے ایمان‘ بکا ہوا یا جانبدار ہوں تو آپ ایماندار‘ غیر جانبدار اور مومنین کے کالم پڑھ لیں مگر آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ آپ اپنی ساری توانائیاں مجھے غیر جانبدار‘ ایماندار اور سچا بنانے پر صرف کر دیں‘ آپ مجھے میرے مطابق کام کرنے دیں اور آپ اپنا ایمانی سفر جاری رکھیں‘ فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں‘ آپ کو میرے فیصلے کی کیا جلدی ہے؟ آپ کیوں چاہتے ہیں‘ آپ جو چاہیں میں وہ لکھوں‘ آپ جس کو کافر کہیں‘ میں اس پر کفر کی مہر لگا دوں اور آپ جس کو شہید قرار دیں‘ میں اس کی شہادت کی بیعت کر لوں‘ آپ مجھے جس فرقے میں دھکیلیں‘ میں اس میں شامل ہو جاﺅں اور آپ مجھے جس طبقے سے نکالنا چاہیں‘ میں اس سے نکل آﺅں اور آپ جب چاہیں میں لکھوں اور جب نہ چاہیں تو میں قلم سے ”ناڑے پانی“ کا کام لینا شروع کردوں‘ کیوں؟ ٹیلی ویژن شو بھی ایک ادارے اور ایک اینکر کا شو ہوتا ہے‘ ایک بے وقوف سائنس دان نے 1945ءمیں ریموٹ کنٹرول ایجاد کر دیا تھا‘ یہ اب ہر ٹیلی ویژن کے ساتھ موجود ہوتا ہے‘ آپ کو شو پسند نہیں تو آپ دوسرے چینل پر چلے جائیں‘ پاکستان میں بے شمار مذہبی چینلز بھی موجود ہیں‘ آپ وہ دیکھیں‘ آپ ٹی وی نہیں دیکھنا چاہتے تو آپ سوئچ آف کر دیں مگر آپ کیوں یہ چاہتے ہیں‘ آپ جو چاہیں ٹیلی ویژن انڈسٹری وہ دکھائے اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ ہم اگر آپ کی بات مان لیتے ہیں تو کل کوئی دوسرا گروپ زیادہ بڑا لشکر لے کر ہم پر حملہ آور نہیں ہو گا اور ہم اس کے دباﺅ میں نہیں آئیں گے؟ آپ سوشل میڈیا کو بھی اسی طرح ہینڈل کر سکتے ہیں‘ آپ کو جو پیج یا ویب سائیٹ پسند ہے‘ آپ اسے لائیک کریں اور آپ کو جو پسند نہیں آتا‘ آپ اسے ”ان لائیک“ کر دیں‘ آپ دوسروں کو ”پش“ کیوں کرتے ہیں‘ آپ جابر عوام بن کر اپنی اور دوسروں کی ”اینگزائٹی“ کیوں بڑھاتے ہیں‘ آپ کیوں یہ سمجھتے ہیں‘ آپ کے ساتھ کھڑے فرشتے ہیں اور دوسروں کے ساتھی شیطان ہیں۔
ہم بھی آپ کی طرح انسان ہیں‘ ہمارے اوپر بھی آپ کی طرح 28 موڈز آتے ہیں اور یہ موڈز ہماری شخصیت اور ہمارے کام میں بھی ریفلیکٹ ہوتے ہیں‘ صحافت ہمارا پیشہ‘ ہمارا کام ہے بالکل آپ کے پیشوں اور آپ کے کام کی طرح‘ آپ سوچیں جس طرح آپ کے بعض کام چھکے اور چوکے ثابت ہوتے ہیں اور آپ جس طرح بعض اوقات صرف ایک آدھ سکور لیتے ہیں یا پھر کسی خوفناک باﺅلر کی یلغار کے دوران صرف اپنی وکٹ بچاتے ہیں بالکل اسی طرح ہم بھی چند اچھے کالم لکھ لیتے ہیں‘ چند برے اور چند ایوریج اور چند ایشوز پر خاموش رہ کر اپنی وکٹ بچا لیتے ہیں‘شوز کی فلاسفی بھی یہی ہوتی ہے‘ چند اچھے‘ چند ایوریج اور چند برے اور بس اور اللہ تعالیٰ نے جب تک یہ زندگی دے رکھی ہے‘ جب تک ہمت ہے اور اس نے جب تک اس شعبے میں رزق لکھا ہے‘ ہم کام کرتے رہیں گے‘ جب یہ مہلت ختم ہو جائے گی تو ہم بھی ماضی کا قصہ بن جائیں گے‘ بالکل ان کی طرح جو ہم سے پہلے تھے مگر جب تک اللہ تعالیٰ کا کرم اور زندگی باقی ہے‘ آپ مہربانی فرما کر ہمیں اپنے ایمان اور صلاحیت کے مطابق کام کرنے دیں‘ ہمارے قارئین اور ناظرین رہیں خدا بننے کی کوشش نہ کریں‘ کیوں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو مٹی کے خدا پسند نہیں ہیں‘ جابر حکمران ہوں یا عوام اللہ تعالیٰ انہیں پسند نہیں کرتا۔
جابر عوام
9
اپریل 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں