جمعرات‬‮ ، 14 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پچھتانے والوں میں

datetime 17  جنوری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ 2011ء کی ایک شام تھی‘ میں اپنے دفترمیں بیٹھا تھا‘ ایک نوجوان پولیس آفیسر میرے کمرے میں داخل ہوا‘ سلام کیا اور میرے سامنے کھڑا ہو گیا‘ میں نے اسے بٹھایا‘ چائے منگوائی اور تشریف آوری کی وجہ پوچھی‘ نوجوان نے مسکرا کر جواب دیا ’’سر میں اے ایس پی ہوں‘ آپ کا فین ہوں‘ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا‘ میں جب اے ایس پی بن جاؤں گا تو آپ کو سلام کرنے آؤں گا‘ اسلام آباد میں آج میرا پہلا دن ہے‘ میں آپ کو سلام کرنے آیا ہوں‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’آپ کا نام کیا ہے اور آپ نے مجھ سے کب وعدہ کیا تھا‘‘ نوجوان نے مسکرا کر جواب دیا ’’میرا نام شاکر احمد شاہد ہے اور میں نے یہ وعدہ 2006ء میں کیا تھا‘‘ میں نے ذہن پر زور دیا لیکن وہ نوجوان مجھے یاد نہ آیا‘ میں نے اس سے وضاحت کی درخواست کی‘ شاکر نے جواب دیا’’میں 2006ء میں آپ کے پاس آیا تھا‘ میں نے آپ سے عرض کیا تھا‘ میں سی ایس ایس کرکے پولیس سروس جوائن کرنا چاہتا ہوں‘ آپ میری رہنمائی کریں‘ آپ نے میرا دیہاتی حلیہ دیکھا‘ میرے پاؤں کی پشاوری چپل دیکھی‘ میرے سر پر سرسوں کا تیل دیکھا‘ مجھ سے چند سوال پوچھے اور پھر مجھ سے میری کوالی فکیشن پوچھی‘ میں نے آپ کو بتایا‘ میں نے کیمسٹری اور سائیکالوجی میں ایم ایس سی کیا ہے‘ آپ نے فوراً جواب دیا‘ آپ سی ایس ایس نہیں کر سکیں گے‘ آپ سائیکالوجی یا کیمسٹری کے شعبے میں جائیں‘ آپ کا خیال تھا‘ میری انگریزی اور میرا حلیہ سی ایس پی کلاس کے ساتھ میچ نہیں کرتا‘ میں نے آپ کی رائے کو چیلنج سمجھ لیا‘ میں گھر گیا‘ تیاری شروع کی اور کامیاب ہو گیا‘ میں اب اسلام آباد میں اے ایس پی ہوں‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’شاکر صاحب میں شرمندہ ہوں‘ میری رائے غلط ثابت ہوئی‘ میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں‘‘ شاکر صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں آپ کو شرمندہ کرنے نہیں آیا‘ میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں‘ آپ اگر اس دن مجھے ’’ڈس کریج‘‘ نہ کرتے ‘ میں شاید آج پی ایس پی آفیسر نہ ہوتا‘ میں ان دنوں کنفیوژڈ تھا‘ آپ کی بات نے میرا کنفیوژن دور کر دیا‘ میں نے آپ کے سامنے بیٹھے بیٹھے سی ایس ایس کا فیصلہ کیا‘ گھر گیا‘ تیاری کی اور 2007ء میں کامیاب ہو گیا‘ میںآپ کو اپنا محسن سمجھتا ہوں‘‘ میں نوجوان کی مثبت سوچ سے متاثر ہوا اور یوں ہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔
شاکر صاحب 2011ء سے 2015ء کے آخر تک میرے واک فیلو بھی رہے‘ ہائیکنگ فیلو بھی‘ سینما فیلو بھی اور بکس فیلوبھی‘ وہ جو بھی کتاب پڑھتے تھے‘وہ پڑھنے کے بعد میرے حوالے کر دیتے تھے اور میں جو بھی کتاب خریدتا تھا‘ میں اس کی ایک کاپی شاکر صاحب کیلئے بھی خرید لیتا تھا‘ ہم روزانہ کافی پینے کیلئے بھی جاتے تھے‘ مجھے چار ساڑھے چار برس کے اس ساتھ نے شاکر احمد شاہد کا گرویدہ بنا دیا‘ یہ باکمال انسان ہیں‘ ہم اگر ملک میں سو بڑے سیلف میڈ لوگوں کی فہرست بنائیں توان سو لوگوں میں شاکرصاحب ضرور شامل ہوں گے‘ یہ جھنگ کے ایک غیر معروف گاؤں صحابا میں پیدا ہوئے‘ والد پرائمری سکول میں ٹیچر تھے‘ والد بچپن میں ڈھور ڈنگر چراتے تھے‘ گاؤں میں سکول کھلا تو ایک نیک دل استاد نے انہیں زبردستی سکول میں داخل کرا دیا‘ والدین انہیں روز سکول سے اٹھا کر لے جاتے تھے لیکن استاد انہیں زبردستی دوبارہ سکول لے آتے‘ والد نے اس عالم میں میٹرک کیا اور پھر اسی سکول میں ٹیچر بھرتی ہو گئے‘ والد کی تنخواہ بہت کم تھی‘ زمین جائیداد بھی نہیں تھی اور بچے بھی پانچ تھے‘ شاکر کا نمبر دوسرا تھا‘ شاکر نے اس ماحول میں تعلیم حاصل کی‘ گاؤں میں بجلی نہیں تھی‘ مٹی کے تیل کا لیمپ ان کا واحد سہارا تھا‘ یہ سکول بھی جاتے تھے‘ ڈنگروں کے چارے کا بندوبست بھی کرتے تھے اور رات کو لیمپ اور لالٹین کی روشنی میں پڑھتے بھی تھے‘ شاکر نے وظیفوں کے ذریعے پرائمری سے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ہوا لیکن کرایہ نہ ہونے کی و جہ سے لاہور نہ جا سکے‘ کالج کی تعلیم جھنگ میں حاصل کی‘ کیمسٹری میں ایم ایس سی کی‘ پھر سائیکالوجی میں ایم اے کیا اور پھر ایل ایل بی کیا‘ اس دوران سرکاری نوکریاں بھی کیں‘ ٹیوشنز بھی پڑھائیں اور ہاتھوں سے مزدوری بھی کی‘ ان کے باقی تین بھائی بھی لائق تھے‘ ایک نے بی ایس سی انجینئرنگ میں گولڈ میڈل لیا اور فل برائیٹ سکالر شپ پر امریکا چلا گیا‘ یہ بھی اب ایم ایس سی ہیں‘ دوسرے بھائی وکیل ہیں‘ شاکر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے سی ایس ایس کا فیصلہ کر لیا‘ میں نے انہیں جی بھر کر ’’ڈس کریج‘‘ کیا لیکن یہ ضدی اور ان تھک انسان ہیں‘ انہوں نے ’’ڈس کریج‘‘ ہونے سے انکار کر دیا‘ یہ گاؤں واپس گئے اور سی ایس ایس کی تیاری شروع کر دی۔
شاکر صاحب نے تیاری کیلئے چند دلچسپ طریقے وضع کئے‘ گاؤں میں بجلی نہیں تھی‘ برسات کا موسم تھا‘ بارش کے بعد حبس ہو جاتی تھی اور لاکھوں پتنگے جمع ہوجاتے تھے‘ شاکر کے پاس گیس سے چلنے والا ایک لیمپ تھا‘ یہ لیمپ انہوں نے وظیفے کی رقم سے لیا تھا‘ یہ قمیض کے بغیر دھوتی باندھ کر بان کی ننگی چارپائی پر بیٹھ جاتے اور ساری ساری رات پڑھتے رہتے ‘ یہ قمیض کیوں نہیں پہنتے تھے؟ وجہ حبس‘ گرمی اور پسینہ تھا‘ بان کی ننگی چار پائی پر کیوں بیٹھتے تھے؟ بان کی چارپائی میں سوراخ ہوتے ہیں چنانچہ ان پر حملہ آور پتنگے چار پائی کے سوراخوں سے نیچے گر جاتے تھے‘ شاکر رف کاغذ پر کاربن پنسل سے نوٹس بناتے تھے‘ کیوں؟ کیونکہ کاربن پنسل کی سیاہی پسینے کی وجہ سے پھیلتی نہیں تھی‘ رف کاغذ پسینہ چوس لیتے تھے لہٰذا یہ بھی ان کیلئے ضروری تھے‘ شاکر صاحب ٹاٹ سکول کے پڑھے ہوئے تھے‘ ان کی انگریزی اچھی نہیں تھی‘ انہوں نے اس کا بھی دلچسپ حل نکالا‘ انہوں نے دنیا کے عظیم مؤرخین کی کتابیں لیں‘ ان میں سے اعلیٰ پائے کے دو سو شاندار فقرے الگ کئے اور یہ فقرے رٹ لئے‘ یہ دو سو فقرے ان کا دفاع تھے‘ شاکر صاحب نے یہ فقرے تحریری امتحان میں بھی استعمال کئے اور انٹرویو میں بھی۔ میں نے ایک بار ان سے یہ سارے فقرے سنے‘ یہ فقرے واقعی لاجواب تھے‘ ان میں سے ہر فقرہ سننے اور پڑھنے والے کو مبہوت کر دیتا تھا‘ شاکر نے اس دھوتی‘ بان کی ننگی چار پائی‘ کاربن پنسل‘ رف کاغذ اور گیس لیمپ کے ذریعے 2007ء میں سی ایس ایس کر لیا‘ یہ پولیس سروس کا حصہ بن گیا‘ ٹریننگ لی اور 2011ء میں میرے پاس پہنچ گیا‘ میں نے محسوس کیا‘ شاکر کا سفر تمام ہو گیا ہے‘ یہ اب باقی زندگی اطمینان سے گزاریں گے لیکن شاکر صاحب ایک غیر مطمئن روح کے مالک ہیں‘ یہ چند برسوں میں نئے سفر پر روانہ ہو گئے۔
پاکستان میں تفتیش کا عمل انتہائی ناقص ہے‘ پولیس 2016ء میں بھی شک کی بنیاد پر دس بیس لوگوں کو گرفتار کرتی ہے‘ ان کی چھترول ہوتی ہے اور ان دس بیس ملزموں میں سے ایک دو لوگ جرم تسلیم کر لیتے ہیں اور یوں تفتیش مکمل ہو جاتی ہے‘ شاکر اس طریقہ کار سے مطمئن نہیں تھے‘ ان کا خیال تھا‘ دنیا بھر کے پولیس ڈیپارٹمنٹ تفتیش کیلئے فرانزک سائنس کی مدد لیتے ہیں لیکن پاکستانی پولیس فرانزک سائنس میں بہت پیچھے ہے‘ شاکر صاحب نے فرانزک پڑھنا شروع کر دی‘ یہ دن کو ڈیوٹی دیتے اور رات کو سٹڈی کرتے‘ محنت کا نتیجہ نکلا اور شاکر نے فرانزک کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر لی‘ اس دوران انہوں نے فل برائیٹ سکالر شپ کیلئے بھی اپلائی کر دیا‘ ان کے بڑے بھائی فل برائیٹ پر امریکا میں پڑھ رہے تھے‘ امریکی حکومت عموماً ایک خاندان میں دو لوگوں کو فل برائیٹ سکالر شپ نہیں دیتی لیکن شاکر کو یہ وظیفہ بھی مل گیا‘ امریکا کی یونیورسٹیوں میں اپلائی کرنے کا وقت آیا تو تین بڑے امریکی اداروں نے نہ صرف شاکر کی سو فیصد فیسیں معاف کر دیں بلکہ ان کے ذاتی ا خراجات‘ رہائش اور ہوائی سفر کی ذمہ داری بھی اٹھا لی‘ شاکر نے طویل غورو فکر کے بعد سٹی یونیورسٹی نیویارک کے جان جے کالج آف کریمنالوجی میں فرانزک کیمسٹری اور کریمنل جسٹس میں داخلہ لے لیا‘ یہ ایم ایس کی ڈگری ہے‘ میں شاکر کو چھوڑنے کیلئے دوہا تک گیا‘ وہ دوہا سے نیویارک چلے گئے اور میں میونخ۔
شاکر نے نیویارک میں نئی زندگی شروع کر دی‘ یونیورسٹی نے کوالی فکیشن دیکھ کر اس کی ڈگری کی مدت کم کر دی‘یہ اڑھائی سال کا کورس اب ایک سال میں ختم کرے گا‘ یہ جب یہ ڈگری مکمل کر لے گا تو اسے ایک نیا سکالر شپ دے دیا جائے گا‘ یہ سکالر شپ بھی اسے مل چکا ہے اور تیسرا حکومت نے اسے امریکا میں نوکری اور نوکری کے دو سے پانچ سال کے دوران شہریت کی پیش کش بھی کر دی‘ یہ جھنگ کے ایک ایسے دیہاتی نوجوان کیلئے لائف ٹائم اچیومنٹ ہے جس نے پرائمری سکول کے استاد کے گھر میں آنکھ کھولی‘ وظیفوں پر تعلیم حاصل کی‘ لالٹین کی روشنی میں پڑھائی کی‘ بانی کی ننگی چار پائی پر دھوتی باندھ کر سی ایس ایس کی تیاری کی‘ زندگی کی چٹان کو ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر نرم کیا اور صرف اور صرف محنت اور جدوجہد کے ذریعے اپنا راستہ بنایا‘ وہ شخص جو کبھی لاہور اور اسلام آباد کو خوابوں میں دیکھتا تھا‘ وہ شخص آج نیویارک کی باوقار یونیورسٹی میں امریکا کے وظیفے پر پڑھ رہا ہے اور امریکی حکومت اس کی صلاحیت‘ اس کی ذہانت سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن کل رات شاکر نے مجھے فون کر کے کہا ’’بھائی میں واپس آنا چاہتا ہوں‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’یہ معاشرہ‘ یہ لوگ اور یہ سسٹم مجھے اچھے لگ رہے ہیں‘ یہ لوگ مجھے عزت بھی دے رہے ہیں‘ میرے پروفیسر نے اڑھائی سال کے کورس کو سال میں تبدیل کر دیا‘ میں اب اپنے کلاس فیلوز کو پڑھا رہا ہوں‘ میں اس کلاس کا واحد طالب علم ہوں جو فرانزک کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہے لیکن ساتھ ہی ایم ایس بھی کر رہا ہے‘ مجھے نوکریوں کی پیش کش بھی ہو رہی ہے لہٰذا میں ڈرتا ہوں میں شاید سال چھ ماہ بعد واپسی کے قابل نہ رہوں‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’آپ امریکا ہی رہ جائیں‘ آپ کو واپس آنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’میرے ملک نے جھنگ کے ایک ایسے غریب نوجوان کو عزت دی جس کے گھر میں بجلی تھی اور نہ ہی پنکھا‘ جو سر پر تیل لگاتا تھا اور جس نے ایم ایس سی کرنے کے بعد پہلی بار پتلون پہنی تھی‘ میں اس ملک کو کیسے بھلا دوں‘ میں اگر آج کچھ ہوں تو یہ صرف اور صرف پاکستان کی وجہ سے ہوں‘ میری ذات کا فائدہ صرف پاکستان کو ہو گا‘‘ شاکر کا لہجہ قطعی تھا‘ میں نے اسے واپس آنے کا مشورہ دے دیا‘ یہ اب چند ماہ میں واپس آ جائے گا‘ یہ دوبارہ پولیس کی وردی بھی پہن لے گا لیکن سوال یہ ہے‘ کیا یہ ملک‘ یہ سسٹم شاکر کو کام کرنے دے گا؟ شاید نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں باصلاحیت لوگوں کی قدر ہے‘ ایماندار لوگوں کی اور نہ ہی کام کرنے والوں کی چنانچہ مجھے خطرہ ہے‘ شاکر کا فیصلہ کہیں ملک میں پچھتانے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ کر دے‘ یہ بھی ملک میں واپس آئے اور باقی زندگی اپنی ڈگریاں اور اپنی اسناد دیکھ دیکھ کر گزار دے۔



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…