کُری اسلام آباد کے مضافات میں ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے‘ یہ گاﺅں تاریخ میں شہر ہوتا تھا‘ یہ باقاعدہ کُری شہر کہلاتا تھا‘ ماضی میں یہاں تجارتی قافلے آتے تھے‘ یہ شہر علاقے کی سب سے بڑی اناج منڈی بھی تھا‘ مری اور کشمیر جانے والے لوگ بھی یہاں قیام کرتے تھے‘ سید پور اور کُری دونوں اس علاقے کے بڑے شہر تھے لیکن وقت کیونکہ کسی کا رشتے دار نہیں ہوتا چنانچہ یہ دونوں شہر زمانے کی دست برد کا شکار ہو گئے‘ یہ اب وفاقی دارالحکومت کے مضافات کہلاتے ہیں لیکن آپ آج بھی اگر کُری اور سید پور میں چند گھنٹے گزاریں تو آپ کو ان کی شکستہ دیواروں میں تاریخ کی بو باس ملے گی‘ آپ کو اس بوباس میں ان شہروں کے درخشاں ماضی کی روشنی بھی نظر آئے گی‘کُری شہر کا گردوپیش اسلام آباد کا خوبصورت ترین علاقہ ہے‘ راول ڈیم اس سے آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘ اس کے دائیں جانب مارگلہ کی پہاڑیاں اور پشت پر مری کے پہاڑ ہیںکُری شہر کے گرد دو نئے رہائشی سیکٹر ڈویلپ ہو رہے ہیں‘ پارک انکلیو اور بحریہ انکلیو۔ پارک انکلیو سی ڈی اے نے جولائی 2011ءمیں شروع کیا تھا جبکہ بحریہ انکلیو بحریہ ٹاﺅن کا منصوبہ ہے اور یہ بھی جولائی 2011ءمیں سٹارٹ ہوا‘ مجھے اتوار کے دن اپنے دوست ڈاکٹر اسلم کے ساتھ بحریہ انکلیو جانے کا اتفاق ہوا‘ ہم دونوں اس کی ڈویلپمنٹ دیکھ کر حیران رہ گئے‘ سڑکیں اور فٹ پاتھ بن چکے ہیں‘ عمارتیں‘ پلازے‘ شاپنگ مالز‘ فلیٹس کے کمپلیکس اور سینما گھر بن رہے ہیں‘ چڑیا گھر آباد ہے‘ لوگ سارا دن یہاں آتے رہتے ہیں‘ ریستوران اور کیفے بھی ہیں اور ڈیڑھ دو سو خاندان بھی یہاں آباد ہو چکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پارک انکلیو بے آباد اور بے آب و گیا ہے‘ یہاں صرف ایک سڑک بنی ہے اور یہ سڑک بھی سی ڈی اے کے موجودہ چیئرمین معروف افضل اورسینئر ممبر عامر احمد علی نے بنوائی‘ یہ لوگ بھی اگر ذاتی دلچسپی نہ لیتے تو پارک انکلیو ساڑھے چار برس گزرنے کے باوجود آج تک سڑک سے محروم ہوتا۔
میں اور ڈاکٹر اسلم دو گھنٹے وہاں پھرتے رہے‘ ہم نے وہاں تین باتیں نوٹ کیں‘ حکومتی سیکٹر پارک انکلیو کی لوکیشن پرائیویٹ ہاﺅسنگ سکیم بحریہ انکلیو سے سو درجے بہتر ہے لیکن دونوں کی ڈویلپمنٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ ایک طرف حکومت ساڑھے چاربرسوں میں سڑک کے سوا کچھ نہیں بنا سکی جبکہ دوسری طرف اتنے ہی عرصے میں پاکستان کا سب سے بڑا مال‘ تھیم پارک اور دارالحکومت کا وسیع ترین کمرشل ایریا بن رہا ہے‘ ایک طرف پلاٹس کی قیمتیں منفی میں جا رہی ہیں اور دوسری طرف لوگ دوگنی قیمتوں میں پلاٹس خرید رہے ہیں‘ ایک طرف کوئی گھر نہیں بنا اور دوسری طرف لوگ باقاعدہ رہائش پذیر ہیں اور ایک طرف ابھی کمرشل ایریا ڈیزائن نہیں ہوا اور دوسری طرف پانچ مرلے کے کمرشل پلاٹس پانچ پانچ کروڑ روپے میں بک رہے ہیں‘ کیوں؟ یہ فرق کیوں ہے؟ یہ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کا فرق ہے‘ ہمیں ماننا ہو گا‘ ہمارے ریاستی ادارے اہلیت‘ مہارت اور ٹیکنالوجی میں مار کھا رہے ہیں‘ یہ اب کوئی نئی چیز ڈویلپ کر سکتے ہیں اور نہ ہی چلا سکتے ہیں چنانچہ حکومت کو اب نئے منصوبے بنانے اور چلانے کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر پر فوکس کرنا ہو گا‘ حکومت پرائیویٹ اداروں کو کام کرنے دے‘ یہ سخت قوانین بنائے‘ تمام منصوبوں کی تکمیل کی ڈیڈ لائین طے کرے‘ اس ڈیڈ لائین پر نظر رکھے‘ ٹیکس جمع کرے اور صارفین کے حقوق کےلئے عدالتیں بنائے‘ یہ پالیسی ملک کو چند برسوں میں تبدیل کر دے گی‘ دوسری بات‘ ہمیں پارک روڈ سے بحریہ انکلیو تک سڑک کے دونوں طرف ہزاروں ایکڑ زمین نظر آئی‘ یہ سرکاری زمینیں ہیں‘ ان پر قبضے ہو چکے ہیں یا پھر ہو رہے ہیں‘ یہ سات آٹھ کلو میٹر کی پٹی ہے‘ حکومت اس پٹی کو نیلام کر کے کھربوں روپے کما سکتی ہے‘ بحریہ انکلیو اس پٹی کے آخر میں ہے‘ وہاں پانچ مرلے کا کمرشل پلاٹ پانچ کروڑ اور آٹھ مرلے کا آٹھ کروڑ میں بک رہا ہے‘ یہ پٹی اس علاقے سے سات آٹھ کلو میٹر پہلے آتی ہے‘ حکومت اگر سڑک کے دائیں بائیں موجود پلاٹوں کو کمرشل بنا کر فروخت کر دے اور پیچھے موجود زمین کے رہائشی بلاکس بنا کر نیلام کر دے تو یہ کھربوں روپے جمع کر لے گی‘ حکومت ملک کی مختلف تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر بھی کر سکتی ہے‘ یہ اشتہار دے‘ کمپنیوں کو دعوت دے‘ حکومت زمین فراہم کرے‘ یہ کمپنیاں ہاﺅسنگ سکیمیں بنائیں‘ پلاٹس بیچیں‘ ترقیاتی کام کریں اور منافع حکومت کے ساتھ شیئر کر لیں‘ عام لوگوں کو بھی فائدہ ہو گا‘ سرمایہ کاری بھی بڑھے گی‘ جابز بھی تخلیق ہوں گی اور سرکاری خزانے میں رقم بھی آئے گی‘ مجھے ایک بار یوسف رضا گیلانی کے دور میں وزیراعظم کے ساتھ تربیلا جانے کا اتفاق ہوا‘ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر مارگلہ کی پہاڑیوں کے اوپر سے ہوتا ہوا تربیلا پہنچا‘ آپ یقین کیجئے‘ ہری پور سے لے کر تربیلا تک کا علاقہ ملک کے خوبصورت ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے‘ یہ قیمتی اور خوبصورت علاقہ تین تین‘ چار چار مرلے کی بے ہنگم آبادیوں میں تبدیل ہو رہا ہے‘ پہاڑ کے ایک طرف اسلام آباد کا ای سیون سیکٹر ہے جس میں ایک کنال کا رہائشی پلاٹ آٹھ سے دس کروڑ روپے میں ملتا ہے جبکہ پہاڑ کی دوسری جانب اس سے ہزار درجے بہتر زمین قبضہ گروپوں کے قبضے میں ہے‘ حکومت اگر تھوڑی سی توجہ دے تو یہ مارگلہ کی پہاڑیوں کی دوسری طرف تین نئے اسلام آباد بنا سکتی ہے‘ یہ نئے شہر اسلام آباد پر آنے والا دباﺅ بھی کم کریں گے‘لوگوں کو رہائشی سہولت بھی ملے گی اور ملک میں نوکریوں اور سرمایہ کاری کے نئے سلسلے بھی شروع ہوں گے‘ ہم ہر سال صرف ڈیڑھ ارب ڈالر کےلئے آئی ایم ایف کی دہلیز چومتے ہیں اور یہ ہمیں ترسا ترسا کر اپنی شرائط پر رقم دیتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں بے شمار ایسے مقامات اور جگہیں موجود ہیں جنہیں ہم بیچ کر ہر مہینے آئی ایم ایف کی قسط سے زیادہ رقم حاصل کر سکتے ہیں‘ ہمیں بہرحال جلد یا بدیر اپنے اثاثوں سے استفادہ کرنا ہو گا۔
ہمارے حکمران کسی دن بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے یہ بھی سوچیں‘ وہ کیا جذبہ‘ وہ کیا چیز ہے کہ حکومت اشتہارات دے کر تھک جاتی ہے مگر اسے سونے کا گاہک نہیں ملتا جبکہ ملک ریاض کاغذ کا ایک ٹکڑا اربوں روپے میں بیچ دیتا ہے‘ یہ ہزاروں میل دور کوئی پراجیکٹ لانچ کرتا ہے‘ وہاں ابھی جھاڑیوں اور ریت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور لوگ اسے کھربوں روپے دے جاتے ہیں‘ کیوں؟ لوگوں کو حکومت پر اعتماد کیوں نہیں اور ملک ریاض کے نام کے ساتھ پرنٹر سے نکلنے والا ایک کاغذ کروڑوں اربوں روپے کا کیوں ہو جاتا ہے؟ حکمرانوں کو اس کی وجہ ضرور تلاش کرنی چاہیے اور ہم عوام کو بھی یہ بات کبھی نہ کبھی ٹھنڈے دل سے سوچنا ہو گی‘ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں‘ تمام حکومتیں اور نیب‘ ایف آئی اے‘ سپریم کورٹ اور فوج جیسے تمام مضبوط ترین ریاستی ادارے مل کر بھی ملک ریاض کی کریڈیبلٹی کو نقصان نہیں پہنچا سکے! لوگ ریاستی مخالفت کے باوجود آج بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور لوگ ریاست کو دس روپے نہیں دیتے لیکن ٹھیکیدار ملک ریاض کو کھربوں روپے دے دیتے ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی اور ہم عوام کو بھی بالآخر یہ وجہ تلاش کرنا ہوگی اور تیسری اور آخری بات۔
کُری روڈ سے واپس آتے ہوئے ڈاکٹر اسلم نے افسوس سے کہا ”ملک ریاض جیسے میٹرک پاس شخص نے ملک میں ہاﺅسنگ کا سارا تصور بدل دیا‘ یہ اس کے بیسیوں منصوبوں میں سے ایک چھوٹا سا منصوبہ ہے‘ یہ منصوبہ بھی دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے‘ یہ ملک کا سب سے بڑا ایمپلائر بھی ہے‘ چالیس ہزار لوگ اس کی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں‘ یہ بینکوں سے سود نہیں لیتا‘ اس نے کبھی کسی بینک سے قرضہ نہیں لیا‘ یہ ملک میں بے شمار خیراتی ادارے بھی چلا رہا ہے اور یہ عاجز بھی ہے‘ میں نے ہمیشہ اس کو اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے قبل کانوں کو ہاتھ لگاتے دیکھا لیکن اس کے باوجود ہمارا پورا سسٹم اس کے خلاف ہے‘ لوگ اس کو گالیاں دیتے ہیں‘ کیوں؟ مجھے آج تک وجہ سمجھ نہیں آئی“ میں نے مسکرا کر جواب دیا ”یہ ہمارا قومی المیہ ہے‘ ہم تھینک لیس قوم ہیں‘ ہم نے آج تک اسلام کو پوری طرح قبول نہیں کیا‘ ہم نے آج تک قائداعظم اور علامہ اقبال کو نہیں مانا‘ ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے قائداعظم کی بہن اور علامہ اقبال کے بیٹے کو ووٹ نہیں دیئے تھے اور ہم تو وہ ہیں جنہوں نے آج تک جمہوریت کو نہیں مانا لہٰذا ہم ملک ریاض کے کنٹری بیوشن کو کیسے مانیں گے؟ دوسرا‘ ہم ایک ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جس میں لوگ مخالفت‘ بدتمیزی اور غیبت کو باقاعدہ کام سمجھتے ہیں‘ آپ کسی دن اپنے تمام ملنے والوں کی گفتگو ریکارڈ کر لیں‘ آپ کو ان کی گفتگو میں یہ تینوں عنصر ملیں گے‘ یہ اپنی گفتگو میں کسی نہ کسی کی مخالفت کریں گے‘ یہ آپ کو اپنی بدتمیزی کا کوئی نہ کوئی واقعہ سنائیں گے اور یہ کسی نہ کسی شریف انسان کی غیبت بھی کریں گے‘ ہماری گفتگو کے ان تین لازم عناصر نے ملک سے دلیل‘ ثبوت اور تہذیب تینوں کا جنازہ نکال دیا‘ ہم من حیث القوم سب کے خلاف ہیں‘ آپ پبلک میں کسی معتبر شخص کا نام لے لیں‘ لوگ اس کے کپڑے اتار دیں گے اور اگر نہ اتار سکیں تو ”لیکن“ کا لفظ لگا کر آپ کے ذہن میں اس کے بارے میں شکوک وشبہات ضرور پیدا کر دیں گے اور تیسری اور آخری وجہ ہمارے ملک میں زیادہ تر نکمے لوگ مبصر بن جاتے ہیں‘ یہ لوگ پوری زندگی اپنے لئے اچھا ڈرائیور‘ اچھا چوکیدار اور اچھا خانساماں تلاش نہیں کر پاتے‘ انہیں عمر بھر اچھا دوست نہیں ملتا اور یہ ایک دکان‘ ایک دفتر اور ایک گھر نہیں چلا پاتے لیکن یہ لوگوں کے ایمان اور ایمانداری کا فیصلہ چٹکیوں میں کر دیتے ہیں‘ یہ لوگ ہر اس شخص کے خلاف ہیں جو کام کر رہا ہے یا کام کرنا چاہتا ہے اور ہر اس شخص کے حامی ہیں جو زندگی میں تنکا دوہرا نہیں کرتا اور ہم تو ایسے لوگ ہیں جو پیر بھی اس کو مانتے ہیں جو کپڑے بدلنے‘ کنگھی کرنے اور منہ دھونے کا تردد نہ کرے‘ ایسے معاشروں میں کام کرنے والے لوگ مجرم ہوتے ہیں اور ملک ریاض اس ملک کا سب سے بڑا مجرم ہے کیونکہ اس نے 25 سال میں وہ کر دکھایا جو ریاست 250 سال میں نہیں کر سکتی چنانچہ اس ملک کا ہر شخص پتھر لے کر اس کے سامنے کھڑا ہے اور یہ پتھر بردار لوگ اس وقت تک کھڑے رہیں گے جب تک یہ کام بند نہیں کرتا‘ جب تک یہ ملک نہیں چھوڑتا“۔
جب تک
1
دسمبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں