یہ 27 جون کی شام تھی اور 2008ء کا سن‘اس نے کاغذ پر دستخط کئے‘ فائل بند کی اور کاغذوں کا پلندہ اپنی سیکرٹری کے ہاتھ میں دے دیا‘ اس کے سٹاف کے پچاس افراد نے تالیاں بجائیں اور اس کی زندگی کا ایک باب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا‘ اس کی دائیں آنکھ کے کونے سے پانی کا ایک قطرہ ابھرا ‘ قطرہ ایک لمحہ کیلئے رکا‘ لکیر بنا اور ٹھوڑی پر آ کر تھم گیا‘ اس نے فوراً آنکھوں پر ٹشو رکھ لیا‘
سامنے مائیکرو سافٹ کا چیف ایگزیکٹو سیٹو بالمر بیٹھا تھا‘ اس نے بل گیٹس کور وتے ہوئے دیکھا تو اس کے منہ سے بھی چیخ نکل گئی اور یوں پورا دفتر آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گیا‘ وہ زندگی میں صرف تین بار رویا تھا‘ پہلی بار اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے جب وہ ہاورڈ یونیورسٹی کا ایک نالائق طالب علم تھا‘ ایک بار اس کا استاد اس کے ساتھ ناراض ہوا اور اس نے اسے ڈانٹ کر کہا ’’بل تم میری بات کان کھول کر سن لو ٗ تم زندگی میں زیادہ سے زیادہ ٹرک ڈرائیور بن سکتے ہو‘‘ پوری کلاس نے قہقہہ لگایااور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس دن اس نے ہاورڈ یونیورسٹی چھوڑ دی‘ شام وہ اپنے جگری دوست پال ایلن سے ملا اور اس نے اس کو دعوت دی ’’آؤ پال ہم اس دنیا کی بنیاد رکھیں جو آج تک صرف ہمارے ذہن میں تھی‘‘ پال ایلن نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔وہ 28 اکتوبر 1955ء کو واشنگٹن ریاست کے شہر سیاٹل میں پیدا ہوا ٗ اس کے والد وکیل تھے ٗ سارا گھرانہ پڑھا لکھا اور معزز تھا لیکن بل پڑھائی میں کمزور تھا ٗ اس میں یکسوئی نہیں تھی ٗ اس کی سوچیں منتشر ہو جاتی تھیں لہٰذا اس کے والدین اس کی وجہ سے پریشان رہتے تھے ٗ اس کے والد کی خواہش تھی وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈگری لے لیکن یونیورسٹی نے اس کا نام خارج کردیا ٗ اس کے والد کو شدید صدمہ پہنچا لیکن بل مطمئن تھا ‘
اس کا خیال تھا ہارورڈ یونیورسٹی کسی نہ کسی دن اپنے اس نالائق طالب علم پر فخر کرے گی ۔ آنے والے دنوں میں اس کی بات سچ ثابت ہوئی اور ہارورڈ یونیورسٹی نے نہ صرف اپنے گیٹ پر اس کے نام کی تختی لگا دی تھی بلکہ خود کو بل گیٹس کی یونیورسٹی کہلانے لگی لیکن یہ بہت بعد کی بات تھی‘ ہم ابھی 1975ء میں ہیں ٗ1975ء میں اس نے اپنے دوست پال ایلن کے ساتھ مل کر دنیا کی پہلی سافٹ وئیر کمپنی بنائی ‘
اس کمپنی کا نام انہوں نے ’’مائیکرو سافٹ‘‘ رکھا ٗ لوگ اس کے آئیڈیاز اور کمپنی کے نام دونوں پر ہنستے تھے لیکن اس نے ہمت نہ ہاری ٗ وہ کام کرتا چلا گیا یہاں تک کہ 1979ء تک کمپنی نے پر پرزے نکال لئے اور وہ ٹھیک ٹھاک امیر ہوگیا لیکن ابھی وہ اس کامیابی سے دور تھا جو بچپن سے اس کے ذہن پر دستک دیتی آرہی تھی ٗ 1980ء میں سٹیوبالمر نے کمپنی جوائن کی اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مائیکرو سافٹ واشنگٹن ریاست کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی اور اس پر دولت بارش کی طرح برسنے لگی یہاں تک کہ 1994ء میں وہ صرف 39 برس میں دنیا کا امیر ترین شخص بن گیا‘
وہ اتنا مشہور ہوگیا کہ امریکی صدر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوگیا ’’وی آر دی نیشن آف بل گیٹس‘‘ یہ ہارورڈ یونیورسٹی کے اس نالائق طالب علم کا پہلا اعزاز تھا اور یہ اعزاز پا کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ یہ دوسری بار تھی جب وہ دروازہ بند کر کے رو پڑا تھا۔جی ہاں اس شخص کا نام بل گیٹس ہے اور یہ پچھلے 14 برس سے دنیا کا امیر ترین شخص چلا آ رہا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد شخص ہے جو39 برس کی عمر میں دنیا کا امیر ترین شخص بنا اور اس نے مسلسل 14 سال تک یہ اعزاز برقرار رکھا ٗ
مائیکرو سافٹ دنیا کی پانچ بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے‘ اس میں اس وقت 63 ہزار 5 سو 64 لوگ ملازم ہیں ٗ اس کا کاروبار 102 ممالک تک پھیلا ہے جبکہ یہ کمپنی اب تک دنیا کے ایک لاکھ 28 ہزار لوگوں کو ارب پتی بنا چکی ہے ٗ مائیکرو سافٹ کے ملازمین اوسطاً 89 ہزار 6 سو ڈالر سالانہ تنخواہ لیتے ہیں ٗ مائیکروسافٹ کے پانچ ڈائریکٹر ہیں اور بل گیٹس کے پاس سب سے زیادہ شیئرز ہیں ٗ وہ 97 کروڑ 74 لاکھ ٗ 99 ہزار 3 سو 36 شیئرز کا مالک ہے اور پچھلے 15 برسوں میں میڈیا نے بل گیٹس کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ کوریج دی ٗ
وہ دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں شمار ہوتا ہے ٗ لوگ اس کے ساتھ ہاتھ ملانا اور اس کے ساتھ تصویر کھنچوانا اعزاز سمجھتے ہیں جبکہ اسے دنیا کے 35 ممالک میں سربراہ مملکت کا پروٹوکول دیا جاتا ہے‘بل گیٹس نے 15 جون2006ء کو اعلان کیا تھا وہ جولائی 2008ء کو مائیکرو سافٹ چھوڑ دے گا اور باقی زندگی فلاح عامہ کے کاموں کے لئے وقف کر دے گا۔اس کا کہنا تھا وہ یکم جولائی 2008ء سے اپنا سارا وقت فلاح عامہ کیلئے صرف کرے گا‘
اس اعلان کے بعد وہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد شخص بن گیا تھا ‘اس سے پہلے دنیا میں عورتوں کیلئے تخت اور تاج چھوڑنے والے بے شمار لوگ تھے‘دنیا میں مہاتما بدھ جیسے لوگ بھی تھے جنہوں نے سکون کیلئے اقتدار تیاگ دیا تھا لیکن یہ تاریخ کا پہلا شخص تھا جس نے عام لوگوں کیلئے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی چھوڑنے کا اعلان کیاتھااور اس نے باقی زندگی بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
بل گیٹس نے اپنی بیوی میلینڈا کے ساتھ مل کر جنوری 2000ء میں فلاح عامہ کی ایک فاؤنڈیشن بنائی تھی ٗ اس کا نام ’’بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ تھا ٗ اس وقت یہ دنیا کا ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ ہے ‘ فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹس میں 29 بلین ڈالر ہیں یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ آپ پاکستان کے بجٹ سے لگا لیجئے پاکستان کا ٹوٹل بجٹ 12 بلین ڈالر ہوتاہے ٗ بل گیٹس کی یہ فاؤنڈیشن پوری دنیا میں صحت ٗ تعلیم ٗ لائبریریوں اور کمپیوٹر کی تربیت کے لئے کام کرتی ہے ٗ
یہ فاؤنڈیشن ہر سال غریب ممالک کے ذہین طالب علموں کو ایک ارب ڈالر کے وظائف دیتی ہے ٗ یہ تنظیم غیر امریکی لائبریریوں کو ایک ملین ڈالر کا ایوارڈ دیتی ہے ٗ فاؤنڈیشن ہر سال تیسری دنیا کے سو ذہین طالب علموں کو اپنے خرچ پر کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلاتی ہے ٗ فاؤنڈیشن ڈیوک یونیورسٹی کی ہر کلاس کے دس ذہین طالب علموں کو وظیفے دیتی ہے ٗ بل گیٹس نے پندرہ ملین ڈالر سے کمپیوٹر ہسٹری میوزیم بنایا ٗ اس نے چاول کی نئی قسم دریافت کرائی ٗ وہ ہر سال دنیا کے کروڑوں بچوں پولیو ویکسین فراہم کرتا ہے‘
اس کی فاؤنڈیشن ایڈز کا علاج دریافت کر رہی ہے اور بل گیٹس کی یہ فاؤنڈیشن سات سال سے پوری دنیا میں کام کر رہی ہے ٗ بل گیٹس نے اعلان کیا وہ جولائی 2008ء کو مائیکرو سافٹ سے فاؤنڈیشن کے دفتر شفٹ ہو جائے گا اور اپنی باقی زندگی لوگوں کی صحت اور تعلیم کے لئے وقف کر دے گا ٗ اس کا کہنا تھا وہ انتقال سے قبل اپنے بچوں کو صرف ایک ایک ملین ڈالر دے گا اور اپنی باقی ساری دولت دنیا کے ضرورت مندوں کے حوالے کر دے گا ٗ
اس کا کہنا تھا یہ دولت ضرورت مندوں کی امانت ہے اور وہ یہ امانت ان لوگوں کو لوٹا کر واپس جائے گا‘بل گیٹس کے اس اعلان کے بعد دنیا بڑی شدت سے 27 جون 2008ء کا انتظار کرتی رہی‘ دنیا دیکھنا چاہتی تھی کیا بل گیٹس واقعی اپنے وعدے کا پاس کرے گا‘ اس دوران بے شمار تھیوریز آئیں ‘ لوگوں نے کہا 60 ارب ڈالر کی دولت اور 200 بلین ڈالر کی کمپنی چھوڑنا اتنا آسان کام نہیں ‘بل گیٹس 2008ء میں اپنا ارادہ بدل دے گا لیکن پھر 27 جون آگیا‘ بل گیٹس دفتر آیا‘
اس نے اپنے ملازمین کو جمع کیا اور کمپنی چھوڑنے کا اعلان کردیا‘ بل گیٹس کے اعلان نے تمام لوگوں کی آنکھیں گیلی کر دیں‘ اس کی اپنی آنکھ سے آنسو نکلا اور ٹھوڑی پر آ کر رک گیا‘ بل گیٹس زندگی میں تیسری بار رویا تھا۔ میں نے واشنگٹن پوسٹ میں اس کی آخری تقریر کے اقتباسات پڑھے تو میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے ‘آپ ذرا سوچئے خیرات‘ صدقہ اور فلاح وبہبود اسلام میں عبادت کی حیثیت رکھتی ہے لیکن دنیا کے سب سے بڑے مخیر کا اعزاز کسی مسلمان کو نصیب نہ ہوا‘
دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں تین مسلمان بھی شامل تھے لیکن لوگوں کی خدمت کرنے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے بل گیٹس کو عطا فرمائی ٗآپ سوچئے دنیا کا پانچواں امیر ترین شخص ایک عرب مسلمان شہزادہ ولید بن طلال ہے ‘اس کی دولت جوا خانوں میں خرچ ہورہی ہے جبکہ بل گیٹس اپنی دولت ایڈز کے علاج پر خرچ کر رہا ہے‘ وہ مسلمان بچوں کو تعلیم دے رہا ہے ‘ آپ سوچئے کیا یہ چا بل گیٹس جیسے لوگ نہیں ہیں جنہیں حقیقتاً رول ماڈل سمجھناچاہیے ٗ ذراسوچئے پوری اسلامی دنیا رئیس لوگوں سے بھری پڑی ہے ٗ
اسلامی دنیا میں ایسے ایسے لوگ ہیں جو ہیروں کی کئی کئی کانوں کے مالک ہیں ٗ جن کی زمینوں سے سونا نکلتاہے اور جو تیل کے درجنوں کنوؤں کے مالک ہیں لیکن انہیں کسی ضرورت مند کو دس روپے دینے کی توفیق نہیں ہوتی جبکہ بل گیٹس اپنی ساری دولت لے کر ضرورت مندوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ہے‘ میں نے سوچا 62 اسلامی ممالک کی اس دنیا میں ایک ارب 45 کروڑ مسلمان آباد ہیں لیکن ان ڈیڑھ ارب لوگوں میں ایک بھی بل گیٹس نہیں ٗ
ان میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو 53 سال کی عمر میں اپنی کمپنی کا دروازہ کھولے اور اپنا سارا مال ‘ اپنی ساری زندگی اللہ کے بندوں کے لئے وقف کر دے‘ جو لوگوں میں دوا اور کتاب بانٹے ٗ جو لوگوں کے زخم دھوئے ٗ جو لوگوں کو کھانا کھلائے اور جو لوگوں کے آنسو پونچھے ٗ میں ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھتا تھا عالم اسلام پر یورپ اور امریکہ کیوں غالب ہیں؟ مجھے آج معلوم ہوا امریکہ اور یورپ بل گیٹس جیسے لوگوں کی وجہ سے ہم پر غالب ہیں۔یورپ اورامریکہ کے پاس بڑے انسان ہیں جبکہ عالم اسلام بڑے تاجروں ٗبڑے بیوپاریوں اور بڑے صنعت کاروں کی غلامی میں زندگی گزار رہا ہے۔ مجھے محسوس ہوامغرب کے پاس انسان ہیں جبکہ ہم لوگ آدمیوں کی چاکری میں عمر گزار رہے ہیں‘کاش پاکستان کے سو ارب پتی تاجر بل گیٹس سے سبق سیکھیں اور آج سے اپنا وقت اور سرمایہ عام اور غریب لوگوں کیلئے وقف کر دیں‘ کاش اللہ تعالیٰ مسلمان تاجروں کو بھی بل گیٹس جیسا ظرف اور توفیق دے دے‘کاش!