آدم علیہ السلام کی خانہ کعبہ کی تعمیر:
ابن عساکر وغیرہ سے تفسیر عزیزی میں نقل کیا گیا ہے حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر تشریف لائے تو بارگاہ الٰہی میں عرض کیا:’’خدایا میں یہاں نہ تو ملائکہ کی تسبیح و تکبیر سنتا ہوں اور نہ کوئی عبادت گاہ دیکھتا ہوں جیسے کہ آسمان میں بیت المعمور دیکھتا تھا جس کے اردگرد ملائکہ طواف کرتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’جاؤ جہاں ہم نشان بناتے ہیں وہاں کعبہ بناکر اس کے اردگرد طواف بھی کرلو اور اس کی طرف نماز بھی ادا کرو۔‘‘
حضرت جبرائیل علیہ السلام، آدم علیہ السلام کی رہبری کے لیے ان کے ساتھ چلے اور انہیں وہاں لائے جہاں سے زمین بنی تھی، یعنی کعبہ کی جگہ سے ہی سب سے پہلے پانی پر جھاگ، پھر جھاگ سے زمین کی ابتدا ہوئی۔جبرائیل امین علیہ السلام نے وہاں اپنا پر مار کر ساتویں زمین تک بنیاد ڈال دی، جس کو ملائکہ نے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بھرا (کوہ لبنان، کوہ طور، جودی، حرا اور طور زیتا سے) بنیاد بھر کر نشان کے لیے ہر چار طرف کو دیوار اٹھادی، اس طرف منہ کرکے آدم علیہ السلام نماز پڑھتے رہے اور اس کا طواف بھی کرتے رہے۔ بیت المعمور کو اس بنیاد پر رکھ دیا گیا طوفان نوح میں بیت المعمور کو اٹھالیا گیا اور کعبہ کی جگہ اونچے ٹیلے کی طرح رہ گئی تھی اور اس کا نام و نشان مکمل طور پر مٹ چکا تھا۔پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی رہنمائی کیلئے حضرت جبرائیلؑ کو بھیجا اور موجود خانہ کعبہ کی نشاندہی کروائی۔
ابراہیم علیہ السلام کا تعمیر کرنا:
ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو یہاں چھوڑا اور یہاں آبادی ہوگئی تو ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر کعبہ تعمیر کرو! ایک بادل کا ٹکڑا بھیج کر کعبہ کی حد کو واضح کیا گیا اور جبرائیل علیہ السلام نے خط کھینچ دیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آدم علیہ السلام کے زمانہ کی بنیادوں پر ہی عمارت تعمیر فرمائی۔
کعبہ شریف کی بلندی نوہاتھ، رکن اسود سے رکن شامی تک ۳۳ ہاتھ، رکن غربی سے رکن یمانی تک ۳۱ ہاتھ، رکن یمانی سے رکن اسود تک ۲۰ ہاتھ، رکن شامی سے رکن غربی تک ۲۲ ہاتھ۔
یعنی کعبہ اس وقت مستطیل تھا لیکن طول اور عرض کی ایک ایک دیوار معمولی چھوٹی تھی دروازے دو بنائے گئے تھے جو زمین کے ساتھ ملے ہوئے تھے کواڑ زنجیر وغیرہ نہیں تھے بعد میں تبع حمیری کے زمانہ میں کواڑ زنجیر وغیرہ لگائے گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیرفرمایا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پتھر گارا وغیرہ دیتے تھے۔ سبحان اللہ! کس شان سے اللہ کا گھر تعمیر ہوا؟ اللہ کا نبی ہی معمار اور اللہ کا نبی ہی معاون۔
ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے بعد:
آپ کی تعمیر کے بعد جزوی طور پر مختلف اوقات میں تعمیر ہوئی ایک مرتبہ عمالقہ اور جرھم نے اسے تعمیر کیا اس کے بعد قصی بن کلاب نے اس کی تعمیر کی جس میں چھت درخت مقل کی لکڑی کی بنائی جس پر بجائے تختوں کے خرمے کی لکڑی ڈالی۔
قریش کی تعمیر:
ایک عورت کعبہ شریف میں خوشبو سلگاتی تھی ، ایک بار اچانک اس سے شعلہ اٹھا اور چھت جل گئی اور دیواریں پہلے ہی بوسیدہ ہوچکی تھیں، اس لیے قریش نے فیصلہ کیا کہ مکمل طور پر نئی تعمیر کی جائے۔ ولید بن مغیرہ کو عمارت کا امیر مقرر کیا گیا اور یہ طے ہوا کہ اس میں حلال مال خرچ ہوگا اس وقت کے امیر لوگوں کے پاس زیادہ سود سے حاصل کردہ مال ہوتا تھا اس لیے حلال مال کم مقدار میں جمع ہوا تو قریش نے مال کی کمی اور کچھ اپنے مقاصد کے پیش نظر چند فرق کردیے۔
۱۔ کعبہ کی کچھ زمین باہر نکال دی یعنی عمارت کو چھوٹا کردیا، کعبہ سے باہر نکالی ہوئی زمین کو ’’حطیم‘‘ کہا جاتا ہے اسی میں میزابِ رحمت (پرنالہ) گرتا ہے، چھوٹی چھوٹی دیوار سے آج بھی اسے علیحدہ نمایاں کیا ہوا ہے۔ طواف اس کے باہر سے ہی ہوتا ہے۔
۲۔ قریش نے دو دروازوں کے بجائے ایک کردیا وہ بھی بلند تاکہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور جسے چاہیں نہ جانے دیں اب بھی اسی پر عمل ہو رہا ہے بادشاہوں کے لیے دروازہ کھلتا خواہ وہ کتنے ہی بدکار کیوں نہ ہوں صلحاء اتقیاء کے لیے کبھی دروازہ کھلنے کی خبر نہیں سنی گئی۔
۳۔ خانہ کعبہ کے اندر لکڑی کے ستونوں کی دو صفیں بنائی گئیں اور ہر صف میں تین ستون بنائے گئے۔
۴۔ کعبہ شریف کی بلندی پہلے سے دو گنا کردی گئی پہلے بلندی نو ہاتھ تھی انہوں نے اٹھارہ ہاتھ کردی۔
۵۔ خانہ کعبہ کے اندر رکن شامی کے قریب ایک زینہ بنایا گیا جس سے چھت پر چڑھ سکیں۔
حضرت عبداللہ ابن ز بیر رضی اللہ عنہ کی تعمیر:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے متصل (یعنی حطیم) بنیاد ابراہیمی کے پتھر مجھے دکھائے اور فرمایا کہ قریش نے اس میں کمی کردی تھی لوگ اگر نئے نئے مسلمان نہ ہوتے اور ان کے جذبات بھڑکنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ابراہیمی بنیادوں پر کعبہ دوبارہ تعمیر کردیتا۔اسی روایت کی بنیاد پر حضرت عبداللہ بن زبیر نے کعبہ شریف کو منہدم کرکے دوبارہ تعمیر کیا، حطیم کو کعبہ میں داخل کیا، دروازے دو بنائے جو زمین کے متصل تھے، خوشبودار مٹی چونہ میں ملاکر گارا لگایا گیا دروازوں پر اندر باہر عنبر لگاکر خوشبودار کیا گیا۔ نہایت قیمتی ریشمی غلاف چڑھایا گیا۔خیال رہے کہ سب سے پہلے کعبہ شریف کو غلاف چڑھانے والے کا نام اسعد ہے جو شاہ یمن تھا اور تبع کے لقب سے مشہور تھا مدینہ طیبہ کی شہری بنیاد رکھنے والا یہ شخص ہے۔عبداللہ ابن زبیر کی تعمیر ۲۷ رجب ۶۴ھ کو مکمل ہوئی، پھر حجاج بن یوسف (جو عبدالملک بن مروان کا نائب تھا) نے ۷۴ھ میں عمارت کو منہدم کرکے پھر اسی طرح بنادیا جیسے قریش نے بنایا تھا۔پھر ہارون الرشید نے چاہا کہ کعبہ اس طرح بنادیا جائے جیسے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تعمیر کیا تھا، یعنی دراصل وہی ابراہیمی تعمیر بھی تھی لیکن اس وقت کے اہل علم نے اس لیے منع کیا کہ کوئی تمہارا مخالف آئے گا وہ پھر تبدیل کرے گا اس طرح گرانا اور بنانا ایک کھیل بن جائے گا۔ اس کے بعد مرمت تو ہوتی رہی لیکن مکمل طور پر پوری عمارت کو دوبارہ نہیں بنایا گیا۔
کعبہ کی موجودہ تعمیر:
۱۰۴۰ھ میں سلطان مراد بن احمد خان شاہِ قسطنطنیہ نے جب دیکھا کہ اس کی عمارت بہت پرانی ہوگئی ہے تو اس نے سوائے رکن حجر اسود (وہ کونہ جس میں حجر اسود نصب ہے) کے تمام عمارت منہدم کرکے نئی تعمیر کرائی لیکن انہی بنیادوں اور اسی طرز پر جو حجاج بن یوسف نے بنائی تھی، اندر سنگ مرمر کا فرش بچھایا اور اندر چھت پر نہایت نفیس مخملی چھت گیری لگائی گئی اور باہر کی دیواریں سنگ خارا سے چونہ میں چنیں، نہایت نفیس ریشمی سیاہ پردہ تمام خانہ کعبہ پر ڈالا، جس پر کلمہ طیبہ:لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ لکھا ہوا تھا اور سنہری حاشیہ پر سلطان کا نام تھا۔موجودہ کعبہ شریف سلطان مراد کا بنایا ہوا ہے یعنی مکمل عمارت کو منہدم کرکے اس کے بعد نئے سرے سے تعمیر نہیں کیا گیا۔غلاف کعبہ ہر سال مصر سے بڑی دھوم دھام سے آتا رہا ایک مرتبہ پاکستان کے شہر لاہور سے بھی بن کر گیا، پہلے یہ طریقہ تھا کہ پرانا غلاف کعبہ خدام کو دے دیا جاتا لوگ تبرک کے طور پر اسے خرید لیتے تھے، لیکن اب غلاف کعبہ سعودیہ میں ہی بنتا ہے اس پر شاہ سعود کا نام ہوتا ہے۔
مقام ابراہیم و حجر اسود:
یہ دونوں جنتی یاقوت ہیں، بہت نورانی تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کا نور محو کردیا اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ مشرق و مغرب کو چمکاتے۔
مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام کعبہ شریف کی تعمیر کرتے، جس قدر عمارت بلند ہوتی جاتی تھی یہ پتھر بھی اونچا ہوتا جاتا تھا، یہ پتھر آپ کے کھڑے ہونے سے نرم بھی ہوجاتا تھا کہ سختی کی وجہ سے آپ کے قدموں کو تکلیف نہ ہو؛ اسی لیے آپ کے قدموں کے نشان اس میں پڑ گئے تھے۔ اسی پتھر کو جبل ابی قبیس پر رکھ کر اور اس کے اوپر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز دی: اے اللہ کے بندو حج کے لیے آؤ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاَذِّنٌ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (پ۱۷ سورۃ حج ۲۷)
اور لوگوں میں حج کا عام اعلان کردے وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے، پیادہ اور ہر دبلی اونٹنی پر کہ ہر دور کی راہ سے آتی ہیں۔
آپ کے اس اعلان کے بعد ان تمام لوگوں نے لبیک کہا جنہوں نے بھی حج کرنا تھا۔ جس نے جتنی مرتبہ حج کرنا تھا اتنی مرتبہ ہی لبیک کہہ دیا، ماؤں کے رحموں میں اور آباء کی پشتوں میں سے تا قیامت آنے والوں نے لبیک کہا۔ (ماخوذ از تفسیر نعیمی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مقام ابراہیم کی عظمت کو بیان کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہم اس کے پیچھے نماز نہ ادا کرلیا کریں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے انتظار میں خاموشی اختیار کی، لیکن اسی دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیت کریمہ کا نزول ہوگیا۔ ارشاد ہوا:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلَّی
اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو نماز پڑھے کہ جگہ بنالو۔
مقام ابراھیم سے وہ پتھر مراد ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ معظمہ کی تعمیر فرمائی ابراہیم کے قدمینِ مطہرین کے نشانات اس پر ثبت ہیں۔ طواف کعبہ کے بعد طواف کی رکعتیں اسی مقام ابراہیم کے پیچھے پڑحی جاتی ہیں، اس میں بھی اتباعِ ملت ابراہیمی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم کے قدمین مطہرین کے نشانات کو وہ عظمت عطا فرمائی کہ قیامت تک طواف کرنے والوں کو حکم دیا کہ مقام ابراہیم کے پیچھے (دو رکعت) نماز پڑھو، طوافِ کعبہ کے سات چکر مکمل کرنے کے بعد طواف کی دو رکعت مسجد حرام میں پڑھنا واجب ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ انہیں مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھا جائے۔ (تبیان ص۲۲۴)
مقام ابراہیم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام تین مرتبہ کھڑے ہوئے:
۱۔ ابراہیم علیہ السلام جب کئی سال گزرنے بعد اسماعیل علیہ السلام کو ملنے کے لیے آئے تو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وعدہ کرکے آئے کہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر اور ملاقات کرکے واپس آجاؤں گا۔ سواری سے نہیں اتروں گا، آپ علیہ السلام جب مکہ میں آئے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام تو شکار کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے، بہو سے ملاقات ہوئی، اس سے گزر اوقات کے متعلق پوچھا، اس نے کہا: اچھا گزارا نہیں، تنگدستی ہے، صرف شکار پر گزر اوقات ہو رہی ہے۔آپ علیہ السلام نے واپس چلتے ہوئے کہا:’’اپنے خاوند کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ تمہارے گھر کی چوکھٹ اچھی نہیں اسے بدل لو‘‘حضرت اسماعیل علیہ السلام جب گھر آئے تو خود ہی پوچھا کہ آج کوئی بزرگ تو نہیں آئے تھے؟ تو آپ کی زوجہ نے کہا کہ آئے تھے اور سلام کہہ کر گئے ہیں اور ایک پیغام دے کر گئے ہیں، جب پیغام کی اس نے تفصیل بیان کی تو آپ نے اپنی زوجہ کو فارغ کردیا کہ وہ تمہیں فارغ کردینے کا حکم دے گئے ہیں۔وجہ یہ تھی کہ اس نے رب تعالیٰ کی ناشکری کی تھی، نبی کی زوجہ کی شان کے یہ لائق نہیں کہ وہ کم روزی پر شکایت کرے، بلکہ صابر رہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ پھر اسماعیل علیہ السلام کو ملنے کے لیے آئے اس وقت بھی اسماعیل علیہ السلام گھر پر موجود نہ تھے، آپ علیہ السلام کی ملاقات بہو سے ہوئی (یہ حضرت اسماعیل کی دوسری شادی تھی) اس سے گھر کے حالات پوچھے اس نے کہا:’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اچھا وقت گزر رہا ہے، زمزم کے پانی پر ہمارا قبضہ ہے، میرے خاوند شکار کرکے لے آتے ہیں، بہت اچھا وقت پاس ہو رہا ہے۔‘‘حضرت ابراہیم جب واپس جانے لگے تو آپ کی بہو نے اصرار کیا کہ آپ ہمارے گھر رکیں، لیکن آپ نے کہا: ’’مجھے سواری سے اتر کر زمین پر آنے کی اجازت نہیں‘‘ تو آپ کی بہو نے کہا کہ آپ اپنے پاؤں اس پتھر پر رکھیں تاکہ میں ان کو دھودوں، آپ علیہ السلام نے جس پتھر پر پاؤں رکھے وہ ’’مقام ابراہیم‘‘ ہی تھا۔آپ علیہ السلام نے واپس چلتے ہوئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے سلام کہا ا ورپیغام دیا کہ:’’گھر کی چوکھٹ اچھی ہے اسے مضبوط رکھنا‘‘
۲۔ تعمیر کعبہ کے وقت آپ اس پر کھڑے ہوئے تھے وہ نرم ہوجاتا تھا، تاکہ آپ علیہ السلام کے پاؤں مبارک کو سختی کی وجہ سے تکلیف نہ ہو، اسی وجہ سے آپ علیہ السلام کے قدموں کے نشانات اس میں پڑھ گئے۔ آپ جب بلند ہوناچاہتے تھے تو وہ پھر خود بخود اوپر اٹھ جاتا تھا، جب نیچے آنا چاہتے تھے تو نیچے ہوجاتا تھا۔ عام مستریوں کی طرح آپ علیہ السلام کو پھٹے باندھنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔
۳۔ کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد آپ علیہ السلام نے اسی پتھر پر کھڑے ہوکر جبل ابوقبیس پر سے لوگوں کو حج کی دعوت دی۔ (تفسیر کبیر)