” مدنی دور کی بات ہے جب ایک گستاخ شاعر نے رسولِ خدا کی شان اقدس میں گستاخانہ اشعار لکھے۔اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور( ص) کے سامنے پھینک دیا.سرکار دوعالم نے حکم دیا کہ اس کی زبان کاٹ دو۔تاریخ لرزا گئی کہ وہ جو رحمت العالمین ہے جس نے طائف میں پتھر مارنے والوں کو دعائیں دیں! کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا رہا! اس ذات عظیم کو مدینے میں آکے آخر
ہو کیا گیا؟بعض صحابہ کرام نے عرض کی ‘یا رسول اللہ ﷺمیں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟حضور ﷺنے فرمایا: نہیں، تم نہیںپوچھا پھر کون؟ تب رسولِ خدا ﷺنے حضرت علی رضی اللہ کی طرف دیکھا اور حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو۔مولا علی بوری بند گستاخ کو اٹھا کر شہر سے باہر نکلےحضرت قنبرؓ کو حکم دیا کہ جائیں میرا اونٹ لے کر آئیں۔اونٹ آیاحضرت ؓعلی نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھولی گستاخ شاعر کو بوری سے باہر نکالا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اونٹ پہ بیٹھایا اور فرمایا؛ بھاگ جاؤ! گستاخ انگشت بدنداں حضرت علی ؓکو دیکھ رہا ہے. فرمایا بھاگ جاؤ! ان سب کو میں دیکھ لونگا.اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ حضرت علیؓ نے تو رسول اللہ(ص) کی حکم عدولی کی ہے. لہذا شکایت لے کر رسول خدا کے پاس پہنچ گئے؛ یا رسول اللہ ﷺآپ نے اس گستاخ کی زبان کاٹنے کا حکم دیا تھا مگر علیؓ نے اسے 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا! محمد عربی ﷺمسکرائے اور فرمایا؛ علیؓ میری بات سمجھ گئے! مگر افسوس! یہ بات تمہاری سمجھ میں نہ آ سکی. وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ؛ یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو! علی ؓنے تو کاٹی ہی نہیں؟ اگلے دن صبح فجر کی نماز پڑھنےجب سب مسجد پہنچے تو سب ورطہ حیرت میں ڈوب گے. کیا دیکھتے ہیں کہ وہ گستاخ شاعر وضو کررہا ہے! پھر
وہ مسجد میں جا کر رحمت العالمین ﷺکے آگے مودبانہ اپنی جیب سے ایک تحریر نکال کر کہتا ہے؛ حضور پر نور آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں! یوں حضرت علیؓ نے ایک گستاخِ رسول کی گستاخ زبان کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔( بحوالہ: دعائم الاسلام، جلد 2، صفحہ 323 )