اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان ہی نہیں برصغیرمیں بھی کمیٹی ایک وبا کی طرح ہر خاص و عام میں موجود ہے اور کیوں نہ ہو کہ جب اس کے فوائد بھی بیش بہا ہیں ۔ آپ کی ضروریات ، آپ کے رکے ہوئے چھوٹے موٹے کام ، گھروں کی آرائش و زیبائش اور مرمت جیسی چیزیں اسی کمیٹی سے ہی تو پوری ہوتی ہیں ۔ مگر کیا آپ نے سوچا کہ کیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟ ۔ گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک سائل نے مفتی صاحب سے سوال کیا کہ
کیا کمیٹی ڈالنا جائز ہے اور شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟ تو مفتی صاحبان نے اس حوالے سے مفصل جوابات دیے جو ہم اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں ۔ کمیٹی کے ذریعے مالی مدد کا حصول ممکن بنانا کوئی نیا عمل نہیں بلکہ برس ہا برس پرانا ہے لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کمیٹی کئی طرح کی ہیں ان میں سے صرف ایک جائز ہے بقیہ کمیٹیاں ناجائز اور جوا کھیلنے کے مترادف ہیں۔مفتی صاحبان کا کہنا ہے کہ اگر کمیٹیاں اس طرح ڈالی جائیں کہ اگر ممبران کو اپنی باری آنے پر رقم ملے اور شروع سے آخر تک ممبران کمیٹیاں بھرتے رہیں تو ایسی صورت میں یہ عمل جائز ہوگا۔مفتی صاحب نے سائل کے سوال پر تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر لوگ اپنی کسی بڑی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کمیٹیاں ڈالتے ہیں جس میں ممبران کی مخصوص تعداد مقررہ رقم ہر ماہ جمع کرواتی ہے یوں ایک خطیر رقم اکٹھی ہو جاتی ہے جو قرعہ اندازی کر کے کسی ایک رکن کو دے دی جاتی ہے تاہم قرعہ اندازی میں نام آنے والا ممبر بھی کمیٹی ختم ہونے تک اپنی ماہانہ کمیٹی بھرتا رہتا ہے۔لیکن کئی کاروباری حضرات ایسی کمیٹیاں بھی ڈالتے ہیں جنہیں ’’لکی کمیٹی‘‘ کہا جاتا ہے،
اس کمیٹی میں جس ممبر کی کمیٹی کھل جاتی ہے وہ پوری رقم تو لے جاتا ہے لیکن پھر کمیٹی کی ماہانہ رقم بھرنے کا پابند نہیں ہوتا اسے لکی کمیٹی کہا جاتا ہے اور یہ جوا کھیلنے کی مانند ہے۔اس لیے لکی کمیٹی یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور کمیٹی ڈالنا اور اس پہ رقم حاصل کرنا جائز نہیں۔اسی طرح ایک ’’بولی کمیٹی‘‘ ہوتی ہے جس میں قرعہ اندازی میں جس ممبر کا نام آتا ہے اسے کوئی دوسرا ممبر زیادہ رقم دے کر وہ کمیٹی لے لیتا ہے اور اس کمیٹی میں بھی جس جس کا نام قرعہ اندازی میں آتا جاتا ہے وہ کمیٹی سے باہر ہو جاتا ہے چنانچہ یہ کمیٹی بھی سراسر جوا اور سود ہے جو کسی طور جائز نہیں۔