جمعرات‬‮ ، 14 اگست‬‮ 2025 

مدینہ منورہ کی وہ سات مساجد جو زائرین کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں، ان کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟

datetime 15  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) مدینہ منورہ میں بہت سی ایسی مساجد ہیں جو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان مساجد کو دیکھ بھال کے حوالے سے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی توجہ حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ان مساجد کی مرمت اور تزئین و آرائش کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے اور یہاں مطلوب تمام تر ساز و سامان اور الکٹرونک آلات کی بروقت فراہمی کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔

مدینہ منورہ آنے والے حجاج اور معتمرین کی کوشش ہوتی ہے کہ مسجد نبوی شریف کے بعد یہاں پر ” سات مساجد ” کی زیارت کو یقینی بنائیں۔ ان کی تعداد درحقیقت چھ ہے مگر تاریخی اہمیت کے حامل یہ مقامات ” سات مساجد ” کے نام سے مشہور ہیں۔ مؤرخین کے مطابق “مسجدِ قبلتين” کو بھی جو ان چھ مساجد کے مجموعے سے تقریبا ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، بقیہ مساجد کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ جو کوئی بھی ان چھ مساجد کی زیارت کرتا ہے وہ اسی سفر میں مسجدِ قبلتین کا دورہ بھی کر لیتا ہے۔ اس طرح یہ تعداد سات ہو جاتی ہے۔مجموعے کی چھ مساجد مدینہ منورہ میں جبلِ سلع کی مغربی سمت اُس مقام کے نزدیک واقع ہیں جہاں غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں نے مدینہ منورہ کے دفاع کے واسطے مشہور خندق کی کھدائی کی تھی۔ یہ معرکہ غزوہ احزاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ مقامات اس غزوہ کے دوران مربوط انداز سے زیرِ نگرانی تھے۔ لہذا ہر مسجد کو اس کی متعلق شخصیت کے نام سے منسوب کر دیا گیا سوائے مسجد الفتح کے جس کو مسلمانوں کی فتح کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ شمال سے جنوب کی جانب یہ مساجد بالترتیب اس طرح ہیں مسجد الفتح، مسجد سلمان فارسی، مسجد ابو بکر صدّيق، مسجد عمر بن خطاب، مسجد علی بن ابو طالب اور مسجد فاطمہ [رضی للہ عنہم اجمعین]۔

ان میں سب سے بڑی مسجد الفتح کو مسجدِ الاحزاب یا مسجد الاعلی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ جبلِ سلع کے مغرب میں واقع ہے۔ مسجد الفتح کی وجہ تسمیہ اس مقام پر سورہ فتح کا نازل ہونا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مدینہ منور کی گورنری کے دور میں (87-93 ہجری) اس کو پتھروں سے تعمیر کرایا تھا۔ بعد ازاں 575 ہجری میں وزیر سیف الدین ابو الہیجاء کے حکم پر اس کی ترمیم ہوئی۔

عثمانی سلطان عبدالمجید اوّل کے دور میں 1268 ہجری مطابق 1851ء میں اس مسجد کی از سر نو تعمیر کی گئی۔اس مجموعے میں دوسری مسجد کا نام مسجد سلمان فارسی ہے جو مسجد الفتح کے جنوب میں صرف 20 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ معروف صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نام پر ہے جنہوں نے مدینہ منورہ کے دفاع کے واسطے خندق کھودنے کی تجویز پیش کی تھی۔

اس مسجد کو بھی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں تعمیر کیا گیا ، وزیر سیف الدین کے حکم سے ترمیم ہوئی اور پھر سلطان عبدالمجید اوّل کے زمانے میں از سر نو تعمیر کی گئی۔تیسری مسجد کا نام مسجدِ ابوبکر ہے جو مسجدِ سلمان کے جنوب مغرب میں 15 میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ سابقہ مذکور مساجد کے ساتھ تعمیر ہوئی۔ اب اس کو توسیع کے واسطے منہدم کر دیا گیا ہے۔

مسجد ابوبکر کے جنوب میں 10 میٹر کے فاصلے پر مجموعے کی چوتھی مسجد یعنی مسجد عمر خطاب واقع ہے۔ اس کا طرز تعمیر مسجد الفتح سے مطابقت رکھتا ہے اور غالبا اس کی تعمیر اور ترمیم مسجد الفتح کے ساتھ ہی مکمل کی گئی ہو گی۔اس ترتیب میں پانچویں مسجد کا نام مسجد علی بن ابو طالب ہے۔ یہ مستطیل شکل میں ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کی لمبائی 8.5 میٹر اور چوڑائی 6.5 میٹر ہے۔ غالبا یہ مسجد بھی مسجد الفتح کے ساتھ ہی تعمیر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ترمیم کے عمل سے گزری۔

روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر عمرو بن ود العامری کو قتل کیا تھا جس نے غزوہ احزاب کے دوران اس خندق کو عبور کر لیا تھا۔اس مجموعے میں چھٹا نمبر مسجدِ فاطمہ کا ہے۔ تاریخی کتب میں یہ مسجد سعد بن معاذ کے نام سے موجود ہے۔ یہ اس مجموعے کی سب سے چھوٹی مسجد ہے جس کی پیمائش صرف 4×3 میٹر ہے۔ غالبا اس کی آخری تعمیر بھی عثمانی سلطان عبدالمجید اوّل کے دور میں ہوئی۔

 

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیلا کے ساتھ دو گھنٹے


شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…